تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     12-05-2015

سیمور ہرش کی نئی سٹوری

سیمور ہرش کی یہ پہلی واردات نہیں۔ موصوف پہلے بھی کسی نہ کسی بہانے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو مطعون کر چکے ہیں۔ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دیگر مغربی صحافیوں کی طرح اس کا ہدف رہا ہے اور یہ کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ کبھی القاعدہ اور کبھی اسامہ بن لادن کی آڑ میں پاکستان پر کرم فرمائی کرتا رہتا ہے۔ 2009ء میں نیویارکر میں اس کا آرٹیکل شائع ہوا تو پاکستان میں سیمور ہرش کے مداحوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ بھارت نے ان آرٹیکلز کو پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے خلاف منفی پراپیگنڈے کے لئے استعمال کیا مگر حالات اور وقت نے سیمور ہرش کی ساری تحقیق‘ تجربے اور معلومات کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
نیویارکر میں شائع ہونے والے مضمون کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ پاکستانی نیو کلیئر ہتھیار غیر محفوظ ہیں،القاعدہ اور طالبان اور عسکریت پسند کسی بھی وقت ان پر قبضہ کر سکتے ہیں‘ لہٰذا امریکہ کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں۔
گزشتہ روز شائع ہونے والا سیمور ہرش کا آرٹیکل بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اس نے یہودیوں کے معتوب اپنے صدر بارک اوباما کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے طور پر امریکی انتظامیہ کے جھوٹ کا پول کھولا ہے مگر نشانہ ایک بار پھر پاکستان ہے؟ ایٹمی پروگرام کی محافظ پاک فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی‘ جس کے سابق سربراہوں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل (ر) شجاع پاشا کے بارے میں موصوف نے تاثر دیا کہ ایبٹ آباد آپریشن ان کی مرضی اور پیشگی منظوری سے ہوا مگر دونوں میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے عوام کے سامنے اعتراف کر سکیں۔ جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری اس آپریشن پر پھولے نہیں سما رہے تھے اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے‘ اس وقت بھی کیانی اور پاشا کا رویہ لاعلمی اور لاتعلقی پر مبنی تھا۔
سیمور ہرش کی ایک دو باتیں بہرحال قابل غور ہیں۔ اگر کیانی اور پاشا ایک گھنٹے کے اس آپریشن سے واقعی لاعلم تھے تو یہ بہت ہی خطرناک بات تھی۔ علم ہونے پر بھی جنرل (ر) کیانی اِدھر اُدھر فون گھماتے رہے۔ پاکستان کی سلامتی اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت پر مامور پاک فضائیہ حرکت میں کیوں نہ آئی؟ ایبٹ آباد کے اردگرد واقع حساس مقامات اور تنصیبات کی سکیورٹی کے اداروں نے فوری ردعمل کیوں ظاہر نہ کیا؟ اور دوران آپریشن بجلی کی بندش کا مقصد کیا تھا؟ ان سوالات کا جواب ابھی تک قوم کو نہیں ملا جس کی وجہ سے سیمور ہرش جیسے مغربی صحافیوں کو موقع بے موقع منفی سوالات اٹھانے اور کوئی نہ کوئی نئی مگربے ہودہ تھیوری پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔
سیمورہرش نے اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر عامر عزیز کا ذکر کیا ہے۔ پاکستانی صرف ایک ہی ڈاکٹر عامر عزیز کو جانتے ہیں جو 9/11 سے قبل اسامہ بن لادن سے ملے، ان کے معالج رہے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے،دوران حراست ان سے تفتیش ہوتی رہی کہ اسامہ بن لادن کہاں ہیں؟ انہیں امریکیوں کے حوالے کرنے کا پروگرام بنا مگر عامر عزیز نے یہ دھمکی دے کر جان بچا لی کہ میں امریکیوں کو وہ کچھ بتا دوں گا جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ مجھے افغانستان‘ پرویز مشرف اور جنرل خالد مقبول نے بھیجا تھا اور اسامہ سے فوجی جرنیلوں کا براہ راست رابطہ تھا؟ عامر عزیز اور جنرل کیانی میں رابطہ ؟ اس وقت کیانی آئی ایس آئی چیف تھے نہ اسامہ بن لادن کا کوئی اتا پتہ۔ کوئی اور میجر عامر عزیز ہیں تو سیمور ہرش کو ذکر کرنا چاہیے تھا۔
آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ملک میں صرف دہشت گردی کم نہیں ہوئی‘ پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈے کا جواز بھی برقرار نہیں رہا کیونکہ شمالی وزیرستان اور دیگر مقامات پر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کو مغربی اور بھارتی ذرائع ابلاغ‘ پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ کبھی حقانی نیٹ ورک سے ناتا جوڑ دیا‘ کبھی امریکہ و یورپ کو بے وقوف بنانے کا الزام لگا دیا اور کبھی کسی طالبان گروہ کو ریاستی اداروں کا ''اثاثہ‘‘ قرار دیکر بھد اڑا دی۔ امریکہ و یورپ کو پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد سے باز رکھنے کے لئے بھی یہ موثر حربہ تھا مگر آپریشن شروع ہونے کے بعد ان پراپیگنڈا بازوں کی نانی مر گئی ہے۔
آپریشن کی کامیابی کے علاوہ ہمارے ان مہربانوں کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا بھی دکھ ہے۔ اربوں ڈالر کی یہ سرمایہ کاری اگر ''ہل من مزید‘‘ کے مرض میں مبتلا کرپشن کے دیوتائوں اور ان کے چیلے چانٹوں کی بندربانٹ کا شکار نہ ہوئی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نہ ہوا تو ہمارے دیرینہ ''مہربانوں‘‘ کو خوف یہ ہے کہ پاکستان خودکفالت کی منزل کی طرف گامزن ہوگا اور خطے میں ایک مضبوط اور نیوکلیئر اسلامی ریاست کا وجود ان کے لئے ڈرائونا خواب بن جائے گا؛ چنانچہ حسین حقانی سے لے کر سیمور ہرش تک ہر ایک کی دم پر پائوں آگیا ہے اور انہیں پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ پر بھی غصہ آنے لگا ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان پر اعتبار کیوں کر رہی ہے؟ اور پاکستان کا ناطقہ بند کرنے میں بھارت کا ساتھ دینے سے گریزاں کیوں ہے؟
سیمور ہرش کے آرٹیکل کو امریکی اور پاکستانی ادارے تو اپنے اپنے انداز میں مسترد کریں گے‘ ممکن ہے پاکستانی دفتر خارجہ‘ آئی ایس پی آر اور دیگر اداروں کی طرف سے باضابطہ بیانات بھی جاری ہوں‘ مگر جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل (ر) شجاع پاشا کو بھی اب اس حوالے سے زبان کھولنی چاہئے۔ لیون پنیٹا کی کتاب منظرعام پر آئی تو دونوں جرنیلوں نے چپ سادھے رکھی‘ جس کی وجہ سے بہت سے تلخ سوالات اٹھے اور ان جرنیلوں کے مداحوں کو ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
حال ہی میں ایک اہم شخصیت کو دورۂ آسٹریلیا سے روکنے کی قیاس آرائیاں ہوئیں تو وزارت داخلہ کی تردید کو کسی نے اہمیت نہ دی جبکہ آئی ایس پی آر نے تصدیق‘ نہ تردید پر اکتفا کیا جسے ستم ظریفوں نے ''خاموشی نیم رضا‘‘ قرار دے کر خوشی سے بغلیں بجائیں۔ اب سیمور ہرش نے گڑے مردے اکھاڑے ہیں تو اسے محض افسانہ طرازی سمجھ کر نظرانداز کر دینا دانشمندی نہیں۔ مخالفین اور ناقدین آخر شکوک و شبہات میں اضافہ کیوں کریں اور پاکستان کے اداروں کے علاوہ نیوکلیئر پروگرام کی دشمنی پر کمربستہ عناصر کو پراپیگنڈا مہم تیز کرنے کا موقع کیوں ملے۔؟
سیمور ہرش کا موجودہ آرٹیکل ان لوگوں کے لئے البتہ چشم کشا ہے جو صبح شام اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے امریکہ کے گن گاتے اور اسے پاکستان کا قابل اعتماد دوست و ساتھی ثابت کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ سیمور ہرش نے اوباما اور ان کے ساتھیوں کو دغاباز‘ جھوٹا اور ناقابل اعتماد ثابت کیا ہے جس سے پاکستانی مؤقف کی صداقت ثابت ہوتی ہے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد فوج ناراضگی میں حق بجانب نظر آتی ہے۔ جب پاکستان نے نیٹو کی سپلائی لائن بند کی تو یہ ایک دھوکے باز دوست کے لئے پیغام تھا۔ اگر ایبٹ آباد آپریشن واقعی مشترکہ کارروائی ہوتی تو نیٹو سپلائی بند کرنے کا جواز کیا تھا اور پاکستان کی فوجی قیادت اپنے پائوں پر کھڑی کیسے ہو پاتی؟
سیمور ہرش کی کہانی میں پاکستان کے نقطہ نظر سے جھول بہت ہیں‘ پچھلی کہانیوں کی طرح ایک ہی بے نام ''ذریعے‘‘ کی سنی سنائی باتوں پر انحصار اور پاکستان کے خلاف تعصب کا اظہار‘ مگر جواب پھر بھی تفصیلی اور حقائق و شواہد کے ساتھ آنا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ کیانی صاحب اور شجاع پاشا کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ یہ ان کی عزت اور وطن کی آبرو کا سوال ہے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں اس کہانی سے تو ان لوگوں کے مؤقف کو تقویت ملی ہے جو روزاول سے ایبٹ آباد آپریشن کو فراڈ اور اسامہ بن لادن کی اس مقام پر شہادت کو من گھڑت کہانی سمجھتے اور قرار دیتے رہے۔ اصل معاملہ کیا ہے؟ کوئی تو سچ بتائے۔ سیمورہرش نے تو معاملہ سلجھانے کے بجائے الجھا دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved