تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-05-2015

سیاست اور سازش

سیاست‘ خاص طور پر عالمی سیاست میں سازش کا اندیشہ اور امکان ہمیشہ ہوا کرتا ہے۔؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
سیمور ہرش ایک فطین اور ریاضت کیش اخبار نویس ہیں۔ ایک آدھ نہیں کئی بار وہ ایسے انکشافات کر چکے۔ ان کی ایک ساکھ ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ان کا ہر تجزیہ درست ہو؟ سوال یہ ہے کہ اس نے جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا کا نقطۂ نظر جاننے کی کوشش کیوں نہ کی۔ کم از کم لندن ریویو میں شائع ہونے والی رپورٹ سے تاثر یہی پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ کتاب بیچنے اور سنسنی پھیلانے کی کوشش ہے یا کچھ اور بھی۔ سنسنی خیز کہانی کا تمام تر انحصار امریکی انٹیلی جنس کے ایک سبکدوش افسر کی سنائی ہوئی داستان پہ ہے‘ جو آئی ایس آئی سے بغض رکھتا ہے۔ اخبار نویس یکسر ناکام ہو سکتا ہے‘ اگر اس کا ذریعہ ناقص‘ کم فہم یا متعصب ہو۔ پھر یہ کہ آپ کی اپنی خواہش اور عصبیت بھی آپ کو گمراہ کر سکتی ہے‘ اسی کو Willingness to believe کہا جاتا ہے۔ مان لینے کی آمادگی۔ اصول یہ ہے کہ ہر فریق کا موقف سنا جائے۔ خاص طور پر نازک معاملات میں۔ سیمور ہرش نے جس طرح صدر اوباما کو جھوٹا قرار دیا ہے‘ اس سے بھی کئی سوال جنم لیتے ہیں مثلاً یہ کہ کیا یہ سی آئی اے اور پینٹاگان کی کشمکش ہو سکتی ہے یا سی آئی اے اور صدر کی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈرون حملوں سمیت کئی چیزوں پر سی آئی اے اور پینٹاگان میں اختلاف رہا۔ یہ رپورٹ اس اخبار نے شائع کی جو پاکستان کو مغرب کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جس کے لکھنے والوں میں این جی اوز رکھنے والے اخبار نویسوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ بہت تیزی کے ساتھ وہ اس میڈیا گروپ کا متبادل بنا ہے‘ جسے ملک کے دفاعی مفادات کو مسلسل مجروح کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا‘ حتیٰ کہ شدید ردعمل کے بعد‘ وہ قدرے محتاط ہو گیا۔
فوراً بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا نے ایک مشترکہ بریفنگ میں بتایا کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے پہلی اطلاع آئی ایس آئی نے فراہم کی تھی۔ یہ ایبٹ آباد سے انٹرنیشنل فون پر سنے جانے والی ایک کال تھی‘ دو عربوں کے درمیان۔ سرمایہ منتقل کرنے کے بارے میں۔ اطلاع سی آئی اے کو فراہم کر دی گئی۔ تب یہ معلوم نہ تھا کہ فون کرنے والا کون ہے اور کس سے اس نے بات کی۔
قاعدہ یہ ہے کہ باہمی تعاون کرنے والی دو ایجنسیوں میں سے ایک جب معلومات فراہم کرتی ہے تو مزید تحقیق کے بعد‘ دوسرا ادارہ پہلے کو حاصل کردہ مزید معلومات کا کم از کم اسی فیصد حصہ منتقل کرتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے‘ حتیٰ کہ مصدقہ معلومات حاصل کر لی جائیں۔ آئی ایس آئی کی طرف سے‘ ایک یا دو بار معلومات کی فراہمی کے باوجود‘ دوسری طرف خاموشی رہی تو آبپارہ نے یہ باب بند کر دیا۔
ایک تضاد اور بھی ہے۔ ایک طرف دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان نے مدد کی‘ پوری طرح مدد کی؟ دوسری طرف وہ مطلع کرتا ہے کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ پوری طرح تعاون کر رہے تھے اور اس کے بقول یہ تجویز بھی انہوں نے پیش کی کہ اسامہ بن لادن کی موت پر ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد اعلان کیا جائے تو عدم اعتماد کا سبب کیا تھا۔ مکمل تعاون اور مکمل عدم اعتماد؟۔
فوراً بعد جی ایچ کیو میں بیس اخبار نویسوں کو دی جانے والی بریفنگ میں جنرل کیانی اور جنرل پاشا افسردہ نظر آئے۔ جنرل پاشا نے کہا: اگر وہ ہمیں شامل کرتے تو دس سال تک کوئی ہماری طرف انگلی نہ اٹھا سکتا۔ جنرل کیانی نے بتایا: مائیکل ملن کو میں نے فون کیا اور یہ کہا‘ اگر ایسا ایک اور حادثہ ہو گیا تو پاک امریکہ تعلقات ہوا میں ہوں گے۔
چند روز بعد میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پوچھا‘ جب یہ اطلاع ملی تو آپ کیا کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ رات گئے تک جاگ رہا ہوتا ہوں۔ اکثر صبح ساڑھے تین بجے تک۔ (شب وہ صرف تین گھنٹے سویا کرتے ہیں اور پھر شام میں تھوڑی دیر)۔ مجھے ایٹمی تنصیبات کی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ ایک ایک کر کے میں نے ہر ایک اہم مقام سے رابطہ کیا۔ جب اطمینان ہو گیا تو اپنے لوگوں سے بات کی۔ پاکستانی فضائیہ اور بری فوج کے فضائی یونٹ سے۔ معلوم ہوا کہ یہ ہمارے لوگ نہیں۔ تب اتنی دیر ہو چکی تھی کہ جوابی کارروائی مشکل تھی۔ ظاہر ہے کہ جہاز سرگودھا سے اڑتے۔ جنرل کیانی نے یہ بھی کہا: ہم نے سوچا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات محدود کر دیئے جائیں لیکن غور و فکر کے بعد‘ فیصلہ کیا کہ یہ ملکی مفاد میں نہیں۔
پاک فوج کا ردعمل کچھ عرصے بعد ظاہر ہوا‘ جب سلالہ چوکی پر امریکیوں نے حملہ کیا۔ امریکی افواج کو رسد کی فراہمی سات ماہ تک روکے رکھی گئی۔ امریکی اس پر ناخوش تھے اور اس قدر ناخوش کہ سبکدوشی کے ہنگام مائیکل ملن نے جنرل کیانی کے باب میں تنقید نہیں‘ بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ خاموش رہے‘ جس طرح کہ آج کل اپنے بارے میں پھیلائی جانے والی بیہودہ افواہوں پر سکوت اختیار کر رکھا ہے۔ ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے والے شور نہیں مچایا کرتے۔ سگی ماں اپنے بیٹے کو دو حصوں میں بانٹنے کی تجویز پر‘ اپنے بچے کو جھوٹی ماں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جایا کرتی ہے۔
یہ موسم سرما کی ایک تاریک شام تھی‘ جب پہلی بار چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس اخبار نویس نے براہ راست فون کرنے کی جسارت کی۔ دراصل ایک عام پاکستانی نے‘ جس کا خون کھول رہا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا:Do More کے نام پر پاکستان کی توہین کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ کب تک امریکہ اور اس کے کارندوں کی خرافات ہم سنتے رہیں گے۔ ہمیشہ کے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں ان کا جواب یہ تھا: فکر مت کیجیے‘ انکل سام کو اب ہم کچھ نہیں دیں گے۔ اب انہی کو پیچھے ہٹنا ہے۔ افغانستان سے بھارت کی پسپائی کا آغاز اس کے بعد ہوا۔ برہمن کے سیاسی تابوت میں آخری کیل جنرل راحیل شریف نے ٹھونکی‘ سال گزشتہ جب وہ امریکہ کے دورے پر گئے۔
سیمور ہرش کا انکشاف اس وقت سامنے آیا‘ امریکہ جب پاکستان میں 46 بلین ڈالر چینی سرمایہ کاری پر ناشاد ہے۔ ایبٹ آباد والے واقعہ کے بعد عرض کیا تھا کہ پاکستان امریکہ تعلقات کو بالآخر محدود ہو جانا ہے۔ پاک فوج امریکہ سے بیزار ہو چکی۔ سوال صرف یہ ہے کہ موزوں وقت کب آئے گا۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی معیشت کی نمو کے بعد۔ اور وہ ممکن ہی نہیں جب تک پولیس اور عدلیہ کو بہتر بنا کر امن کی مطلوبہ فضا قائم نہیں ہو جاتی۔ اس کے بغیر اقتصادی فروغ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایک بھونڈا استدلال یہ ہے کہ اسامہ کو پاک فوج کی سرپرستی اگر حاصل نہ ہوتی تو وہ ایبٹ آباد میں پناہ گزین کیوں ہوتا‘ دارالحکومت سے صرف چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر‘ فوجی اکیڈمی کے نواح میں۔ ایبٹ آباد اسلام آباد سے چالیس نہیں‘ ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ثانیاً‘ کاکول اکیڈمی میں صرف ایک حفاظتی بٹالین متعین ہے۔ ثالثاً‘ یہی شہر اس کے لیے بہترین پناہ گاہ تھا‘ جہاں قبائلی علاقوں کے آسودہ حال مہاجر دھڑا دھڑ مکانات بنا رہے تھے۔ شکوک و شبہات کا امکان یہیں سب سے کم تھا۔ یہ ایک احمقانہ الزام ہے کہ آئی ایس آئی اس کی حفاظت کر رہی تھی۔ اگر ایسا تھا تو سیمور ہرش کے بقول سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے‘ ڈاکٹر عامر عزیز کو اسامہ کے پاس کیوں بھیجا گیا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کا اہتمام کر کے پاکستان نے اسامہ کی موجودگی پر مہر تصدیق کیوں ثبت کی۔
سوالات اور بھی ہیں‘ ان سطور کی اشاعت تک کئی پہلو واضح ہو چکے ہوں گے یا آئندہ چند دنوں میں ہو جائیں گے۔ اس صورتحال سے بھارت فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گا۔ وہ این جی اوز بھی‘ جن کے آقا سمندر پار ہیں یا سرحد پار۔ اگر یہ ایک سازش ہے تو سازش کرنے والوں نے بہترین آدمی اور بہترین وقت کا انتخاب کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فائدہ کس کو پہنچا۔ بھارت کو۔ حسین حقانی اور پاکستان میں اس کے ہم نوائوں کو۔ ان دو سیاسی پارٹیوں کو‘ کراچی میں جن کی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ حتمی رائے دینے کا وقت بہرحال ابھی نہیں آیا۔ فقط یہ کہ سیاست خاص طور پر عالمی سیاست میں سازش کا اندیشہ اور امکان ہمیشہ ہوا کرتا ہے۔؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری‘ رنگ بدلتا ہے کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved