تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-05-2015

کلسٹر بم اور امریکہ کی دوعملی

تازہ خبر یہ ہے کہ یمن کے حوثی قبائلی اور سعودی حکام کے مابین جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف سلامتی کونسل یمن کے باغی حوثیوں کو یمن کی آئینی حکومت تسلیم کرنے پر زور دے رہی تھی تو دوسری جانب یہ خبر گرم تھی کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے ایک با اثر ملک کو 1300 کلسٹر بم (CBU-105D/B) فراہم کر رہا ہے۔ کیا یہ تباہ کن کلسٹر بم اسرائیل کے خلاف استعمال ہوں گے؟ کیا امریکہ اور اس کی کانگریس، سی آئی اے اور پینٹاگان اجازت دیں گے کہ یہ بم اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف استعمال ہوں؟ امریکہ خلیجی علاقے کے ایک مسلم ملک کو جدید اور تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کر رہا ہے تو دوسری جانب روس ایک دوسرے مسلم ملک کو اسی قسم کے تباہ کن ہتھیار بیچنے میں مصروف ہے۔ ان ہتھیاروں سے مارے کون جائیں گے؟ دونوں جانب کے مسلمان جبکہ ان کے خون سے رنگے ہوئے کئی ارب ڈالر روس اور امریکہ کی جھولیوں میں جا گریںگے۔
17 نومبر2014 ء کے سنڈے ٹائمز میں انکشاف کیاگیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے دو ممالک نے ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو نشانہ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کی دونوں ملکوں نے ابھی تک تردید نہیں کی۔ مشرق وسطیٰ، روس، امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارتی اور عسکری ادارے بھی دبی دبی زبان میں اس کی تصدیق کر رہے ہیں، لیکن اوباما ان کے آڑے آ رہے ہیں کیونکہ ایران کی مسلح افواج کے چیف نے خبردارکیا ہے کہ اگر ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے کسی بھی جانب سے حملہ کیا گیا تو پانچ منٹ کے اندر اندر خلیج اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کے تمام ہوائی اور بحری اڈوںکونشانہ بنایا جائے گا۔ اگر یہ غلطی ہو گئی تو پھر تیسری عالمی جنگ کو کون روک سکے گا؟
امریکہ اور ایران کے مابین طے پانے والے حالیہ نیوکلیئر معاہدے کو مذکورہ دونوں ملکوں نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل کے سخت دبائو اور احتجاج پر امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی بہت بڑی تعداد نے اس معاہدے کے خلاف امریکی صدر بارک اوباما کو احتجاجی خط بھی لکھ دیا۔ اس سلسلے میں ری پبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے اوباما پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جان بوجھ کر ایران کے نیوکلیئر سنٹرز پر ہوائی حملوں سے گریزکر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کی حالیہ وقتی ناراضگی بھی اسی سلسلے میں تھی۔اوباما کی طرف سے ایران کو نیوکلیئر پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دینے کے فیصلے کی بھنک پڑنے پر فرانس کے وزیر خارجہ لارنٹ فیبیوس نے واشنگٹن کو اطلاع دی تھی کہ ان کی معلومات کے مطابق یہ معاہدہ ہوا تو اسرائیل، ایران کے نیوکلیئر سنٹرز پر حملہ کر سکتا ہے اور اس کے لیے اس خطے کے ایک ملک نے اسرائیل کو اپنی ا یئر سپیس اورایئر بیس فراہم کرنے کی پیشکش بھی کر دی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس خطے میں ایک بار پھر جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
یمن کی حالیہ جنگ میں خلیجی ریاستوں اور مصر کے اتحاد اورایران کے اقدامات نے عربوں کو اس اندیشے میں مبتلا کر دیا ہے کہ ایران نہر سویز تک پہنچنے کی خاطر مشرق وسطیٰ کو زیر نگین کرنے کے لیے ابتدائی مراحل طے کر نا چاہتا ہے۔ ایران کو یہ شکایت ہے کہ لبنان میں اسرائیل کے خلاف مصروف جہاد حزب اﷲ کے مقابلے میں کچھ ممالک اگر فلسطینی کیمپوں میں داعش کی مدد کر رہے ہیں‘ تو پھر شام، عراق اور اسے بھی حق ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے رستے تلاش کرے۔
امریکہ نے جو کلسٹر بم مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کو فراہم کیے ہیں ان کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درجنوں نہیں سیکڑوںکی تعداد میں ایسے جراثیم اور خلیے باہر پھینک سکتے ہیں جن سے وسیع علاقے میں تباہی مچ جاتی ہے۔ دنیا کے83 ممالک میں کلسٹربم رکھنے یا ان کے استعمال پر مکمل پابندی ہے اورکچھ عرصہ قبل دنیا اس وقت بلبلا اٹھی تھی جب پتا چلا تھا کہ شام کے صدر بشارالاسدکی فوجیں خانہ جنگی کے دوران اپنے مخالفین کے ٹھکانوںپرکلسٹر بم استعمال کر رہی ہیں جن سے کئی بچے مارے گئے تھے۔ اس وقت اقوام متحدہ ، مغربی میڈیا اور عرب میڈیا شام کے صدر کے خلاف یک جا ہوکر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ اقوام متحدہ نے بشارالاسد کے خلاف قرارداد منظورکی لیکن آج امریکہ سب کی آنکھوں کے سامنے ایک ملک کو 640 ملین ڈالرکے ''میڈ ان امریکہ‘‘ کلسٹر بم فروخت کر رہا ہے۔ دفاعی اور سفارتی حلقے اس سودے پر اس لیے بھی حیران ہو رہے ہیں کہ جب ساری دنیا ہم آواز ہو چکی ہے کہ کلسٹر بموں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے تو کسی تنازع کے ایک فریق کو یہ جھلسا دینے والے بم مہیاکرنا اخلاقی طور پر درست نہیں ۔ لیکن امریکہ سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہاہے۔
اس وقت تک مجموعی طور پر دنیا کے112 ممالک نے ایک عالمی دستاویزکے ذریعے کلسٹر بموں کے استعمال اور تیاری کے خلاف قرار داد منظور کرتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں، لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ صرف چار ممالک نے ان بموں کے خلاف اس معاہدے کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے اسے رکھنے اور بیچنے کی پابندیوں سے خود کو آزاد رکھا ہوا ہے۔ یہ ممالک امریکہ، چین، روس اور شام ہیں۔ امریکہ 2015ء تک ایک بااثر خلیجی ملک کو ہزاروں کی تعداد میں Texron-Made کلسٹر بم فروخت کر چکا ہے۔ وہ اسلحہ جس کے خاتمے پر ایک سو بارہ ممالک متفق ہو چکے ہیں اس کی فروخت کا مقاصد کیا ہے ؟ ہتھیاروں کی ڈکشنری میں اس کے بارے میں یہ الفاظ درج ہیں: "These weapons are used for killing large groups of people, destroying thinly skinned vehicles and dispensing landmines and poison gas" انٹرنیشنل اینٹی ایمونیشن کلسٹر اتحاد کی ڈائریکٹر سارہ بلیک مور کی جانب سے جاری کیے گئے ایک احتجاجی نوٹ میں تعجب کا اظہارکرتے ہوئے پوچھا گیا کہ امریکہ کی دوعملی کس قدر حیران کن ہے کہ ایک جانب وہ کلسٹربم فراہم کررہا ہے اور دوسری جانب یہ بم خریدنے اور بیچنے والے ملک اس عالمی مذمتی قرارداد میں شامل ہو رہے تھے‘ جس میں شام کے صدر حافظ الاسد کا اپنے مخالفین کے خلاف کلسٹر بم استعمال کرنے پر سخت احتجاج کیا جا رہا تھا۔
کلسٹر بم سے ہلاکتیں صرف جنگ کے دوران ہی نہیں ہوتیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کھلونوں،گولوں اور گیندوں کی شکل میں تیار کیے جانے والے یہ ہتھیار زمین پر گرنے کے بعد کئی دفعہ فوراً نہیں پھٹتے، یہ ہاتھ لگانے تک ویسے ہی پڑے رہتے ہیں۔ اکثر سناجاتا ہے کہ کوئی فرد یابچہ جیسے ہی کسی گیند نما چیزکو اٹھا کر پھینکتا ہے یہ فوراً پھٹ کر تباہی مچا دیتی ہے۔ آپ امریکہ کی اس دوغلی پالیسی کو کیا نام دیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved