ماضی کے واقعات مؤرخین کے ذریعے جو ہم تک پہنچے ہیں ان کو بہت کم جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ تاریخ میں درج کوئی واقعہ اگر کسی قوم کو ناپسند ہو تو وہ اکثر اوقات یا تو اس کی کوئی نئی توجیہ گھڑ لیتی ہے ‘یا پھر سرے سے اس واقعے کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ بعض قومیں جب محکومی سے نکلتی ہیں تو وہ آہستہ آہستہ اپنی تاریخ بھی ازسرنو مرتب کرتی رہتی ہیں‘ جیسا کہ آج کل بھارت کی کوشش ہے کہ وہ جدید تاریخ میں برصغیر میں مسلمانوں اور انگریزوں کے ادوارِ حکومت کا محض سرسری تذکرہ رہنے دے اور ان ادوار سے پہلے کی ایک خودساختہ تاریخ بنا کر اس کو جدید دور سے منسلک کردے۔ گویا معلوم یہ ہو کہ ہندوستان زیادہ تر ہندوئوں کے تسلط ہی میں رہا ہے۔ تاریخ تبدیل کرنے کی ان کوششوں سے قطع نظر‘ تاریخ میں بیان کردہ کچھ واقعات لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے ایک نیا مفہوم بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک سیاسی بیان میں سومنات کے مندر کا حوالہ ایک ایسے مقام کے طور پر دیا جس پر بار بار حملے کیے گئے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے جن میں سے محض آخری حملہ سومنات کے مندر پر کیا گیا تھا۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور میں انگریز تاریخ دانوں نے اس خطے سے متعلق جو بعض واقعات درج کیے ہیں وہ بھی‘ جب ان کی جانچ پرکھ ہوئی تو درست ثابت نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر مغل دور میں اکبر کے بیٹے سلیم کے ایک کنیز کے ساتھ عشق کے قصے جو ایک انگریز تاریخ دان کے حوالے سے مقبول ہوا‘ کی بھی عجب داستان ہے۔
اس تاریخ دان نے لکھا کہ شیش محل میں ایک کنیز‘ شہنشاہ اکبر کے بیٹے سلیم کے ساتھ اشارے بازی کر رہی تھی کہ شیش محل میں لگے آئینوں کی مدد سے شہنشاہ اکبر نے دیکھ لیا اور اس کے بعد اس کنیز کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔ اس بات کی جب ماہرین نے جانچ پرکھ کی تو معلوم ہوا کہ شہنشاہ اکبر کے دور میں تو شیش محل تھا ہی نہیں‘ یہ تو اکبر کے پوتے شاہجہان نے بنوایا تھا۔ لہٰذا یہ سارا واقعہ ہی مخدوش ہو گیا۔
انارکلی نام کی جس کنیز کی قبر کا تذکرہ لاہور کے سول سیکرٹریٹ کی عمارت کے اندر واقعہ ایک مقبرے کے حوالے سے کیا جاتا ہے تو وہاں جو سنگ مرمر کا قبر کا نشان موجود ہے اس پر کسی عورت کا نام ہی نہیں ہے۔ لیکن کیا کہنے مرحوم امتیاز علی تاج کے کہ انہوں نے انارکلی کے عنوان سے ایسا زوردار سٹیج ڈرامہ تخلیق کیا کہ عام لوگ اس ڈرامے کی کہانی کو تاریخ ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
پھر بھارتی فلمساز کے آصف نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اس نے امتیاز علی تاج کی کہانی کا انجام ہی بدل ڈالا۔ اس نے اکبر بادشاہ کو مغل اعظم ثابت کرنے کے لیے اسی نام کے تحت بنائی گئی اپنی معرکہ آرا فلم میں یہ دکھایا کہ عام لوگوں کی نظروں میں تو اکبر بادشاہ نے انارکلی کو دیوار میں زندہ چنوا دیا تھا مگر حقیقت میں اس نے اپنا ایک پرانا دیا ہوا ''وچن‘‘ پورا کرنے کے لیے انارکلی کو ایک خفیہ راستے سے جلاوطن کر دیا تھا۔ ویسے اکبر کو مغل اعظم اسی طرح ہی ثابت کیا جا سکتا تھا وگرنہ موصوف سے زیادہ گمراہ شخص کم از کم اس برصغیر نے تو نہیں دیکھا۔ نورتنوں میں گھرا ہوا ایک جاہل شخص تھا۔ ابوالفضل جیسے خوشامدی نورتنوں نے دین الٰہی کا خیال پیش کر کے اکبر کو تاریخ میں امر ہو جانے کا لالچ دیا۔ اس بیوقوف بادشاہ نے ناسمجھی میں ایک بہت بڑے فتنے کو جنم دے دیا۔ اتنا گند مچانے کے بعد بھی اگر کوئی اس کو مغل اعظم کہے تو لوگوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن کیا کریں تاریخ کی صحیح معنوں میں جانچ پرکھ کم ہی ہوتی ہے۔
بات ہو رہی تھی برصغیر کے انگریز تاریخ دانوں کی تو ان کے علاوہ ایک فرانسیسی سیاح نے بھی 1665ء میں آگرہ کا دورہ کر کے سفرنامہ تحریر کیا۔ اپنے اس سفرنامے میں اس کا کہنا تھا کہ شاہجہان‘ دریائے جمنا کے ایک کنارے پر اپنی چہیتی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سفید تاج محل بنوانے کے بعد دریا کے دوسرے کنارے پر اپنی تدفین کے لیے سیاہ رنگ کا ایک تاج محل بنوا رہا تھا کہ اورنگزیب عالمگیر نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور وہ سیاہ تاج محل مکمل نہ ہو سکا۔
ظاہر ہے یہ محض ایک کہانی ہے کیونکہ آج تک اس کالے تاج محل
کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اورنگزیب پر تنقید تو آپ بہت سنتے ہوں گے مگر صحیح العقیدہ ہونے کے حوالے سے مغل بادشاہوں میں محض اورنگزیب عالمگیر ہی ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جو صحیح طور پر دین اسلام پر قائم رہا۔ ہندو مسلم اتحاد کے بہت سے داعی اورنگزیب عالمگیر پر بس تنقید ہی کرتے ہیں مگر تحقیق کریں تو اس تنقید کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ اورنگزیب ذاتی طور پر ایسا بہادر شخص تھا کہ اس کی مثال موجود نہیں۔ شاہجہان کے دربار میں ایک مست ہاتھی گھس آیا۔ بڑے بڑے ہندو جرنیل بھی دربار میں موجود تھے اور مسلمان بھی۔ سب بھاگ گئے۔ نوجوان اورنگزیب اپنی جگہ پر اطمینان سے کھڑا رہا اور جب ہاتھی اس کے قریب پہنچا تو بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی تلوار سے ہاتھی کی سونڈ پر وار کیا اور ہاتھی چنگھاڑتا ہوا مخالف سمت میں بھاگ گیا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی عادت کی وجہ سے تخت نشینی کی جنگ میں اورنگزیب کو کوئی شکست نہ دے سکا۔ ذاتی کردار ایسا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کی روٹی کھاتا تھا اور شاہی خزانے کو امانت سمجھتا تھا۔ ایسا کردار بہت پختہ ایمان سے حاصل ہوتا ہے۔ ہماری تو یہ حالت ہے کہ کوئی چھوٹا سا عہدہ مل جائے تو اسی سے دن رات ذاتی فائدہ حاصل کر کے گنہگار ہونے کے ساتھ لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتے رہتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے۔
اورنگزیب کے دربار میں روایت کے مطابق جب بادشاہ کا شجرۂ نسب باآواز بلند پڑھا جاتا تھا تو وہ جس کو سب مغل اعظم کہتے ہیں اس کے ذکر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہاتھ کے اشارے سے شجرۂ نسب پڑھنے والے کو روک دیتا تھا۔ یعنی اس کے دربار میں کبھی اکبر کا نام نہیں لیا گیا۔ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ نے کہا تھا کہ جس بیٹے کے ڈوبنے کا تم شکوہ کر رہے ہو‘ وہ چونکہ دین سے خارج تھا لہٰذا تم سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ اسی طرح اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بے دین پڑدادا اکبر کے نام تک سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا۔ اب تاریخ کا کمال دیکھیں کہ ہم اکثر اورنگزیب عالمگیر پر تو تنقید سنتے ہیں کہ اس نے فلاں کو دشمن بنا لیا‘ موسیقی کی حوصلہ شکنی کی وغیرہ وغیرہ اوراکبر کی تعریفیں ہوتی ہیں کہ اس نے ہندو عورت سے شادی کی اور تمام مذاہب کو اپنے خودساختہ دین کے ذریعے یکجا کرنے کی کوشش کی۔ اس پر تو لاحول ہی پڑھنا چاہیے۔
اکبر کے دور میں ایک ملّا بدایونی ہوتے تھے جو ظاہر ہے مسلمان ہونے کی وجہ سے دین الٰہی کے مخالف تھے اور بے دھڑک مخالفت بھی کرتے تھے۔ بادشاہ کے سامنے پیشی ہوئی تو وہاں بھی دین الٰہی کی کھل کر مخالفت کی۔ قریب تھا کہ بادشاہ کی طرف سے ملّا بدایونی کے قتل کا حکم جاری ہوتا کہ ملّا بدایونی گویا ہوئے اور کہا کہ اے بادشاہ ہر دین کا ایک شیطان ہوتا ہے‘ مجھے بس آپ اپنے دین کا شیطان سمجھ لیں۔ نورتن ہنسے تو جاہل بادشاہ کو بھی ہنسنا پڑا اور یوں ملّا بدایونی کی جان بچ گئی۔ تاریخ دانوں کے تبصروں سے ہٹ کر اگر مغل بادشاہوں کی اصل زندگیوں کی جانچ کریں تو سوائے اورنگزیب کے سب بے دین اور عیاش قسم کے لوگ تھے۔ مغلیہ سلطنت کا بانی بابر تو کہا کرتا تھا کہ ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘۔ گویا آخرت پر ایمان ہی نہیں تھا اور نورالدین جہانگیر سے زیادہ عیاش اور شرابی بادشاہ کم از کم ہندوستان کی سرزمین نے تو نہیں دیکھا۔