دریائے سند ھ کے ڈیلٹا کے حوالے سے ہم اکثر جرائم پیشہ گروہوں کی کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہوئے خوف سے کانپتے ہیں کہ یاخدا یہ کیسا دہشت ناک علاقہ ہوگا جہاںجرائم پیشہ افراد کے گروہ درگروہ آباد ہیں۔ سرائیکی اور بالائی سندھ کے خطے پر مشتمل یہ علاقہ عام طور پر ''کچا‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ توجہ کا مرکز اُس وقت بنتا ہے جب یہاں پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان ''مقابلے‘‘ ہوتے ہیں، یا پولیس علاقے کو جرائم پیشہ عناصر کے گروہوںسے پاک کرنے کے لیے کوئی آپریشن شروع کرتی ہے۔ کم و بیش نصف صدی سے اس علاقے میں سفر کرنے، یہاںوقت گزارنے اور اس کے بارے میں معلومات رکھنے کی بنا پر میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے زیادہ تر کہانیاں یاتو آدھی سچی یاپھر یک طرفہ طور پر تیار کی گئی ہوتی ہیں۔ اس علاقے کے بارے میں ایک پریشان کن سچائی بھی موجود ہے جس کا ذکر کیا جانا چاہیے تاکہ ہم ڈاکوئوں کی اقسام کے بارے میں جان سکیں۔ اس سچائی کے تین پہلو ہیں۔۔۔ ناانصافی، عدم مساوات اور نظرانداز کرنے کی پالیسی۔
یہ بات مکمل طور پر غلط نہیں کہ اس علاقے میں ڈاکوئوں کے گینگ اپنی موجودگی رکھتے ہیں اور وہ دیگر علاقوں میںجاکر وارداتیں کرکے واپس یہاں آ کر پناہ لے لیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے علاوہ یہ بھی ناانصافی ہوگی کہ ہم ایسے ڈاکوئوں کی بات تو کریں جواتنے اچھے نہیں کہ اپنے جرائم چھپا سکیں، دن دیہاڑے وارداتیں کریں اور ایک نہ ایک دن پولیس کی گولی کا نشانہ بن جائیں، اور دوسری طرف ماضی اور حال کے اُن معزز لٹیروں کا نام نہ لیں جنھوں نے ملک کی دولت لوٹتے ہوئے قوم کو بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ ہم اتنے کمزور ہیں کہ شہروں میں سرگرمِ عمل بھتہ مافیا،قبضہ گروپس، بدعنوان اشرافیہ اورعوام کا خون نچوڑنے اورسیاست کے نام پر تجارت کرنے والے طاقتور طبقوں کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ ان کی وجہ سے پاکستان دنیا کے انتہائی بدعنوان ممالک میں شمار ہوتا ہے۔آج پاکستان کی بدنامی کی وجہ ڈاکوئوں کی موجودگی نہیں بلکہ اشرافیہ کی بدعنوانی ہے۔ آپریشن ضرور ہو، لیکن پہلے ''بڑوں ‘‘ کے خلاف۔
اس بدعنوان گروہ ، جو ملکی سیاست اور اقتدار پر چھایا ہوا ہے، کی وجہ سے ملک میں ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ اس ناانصافی کی وجہ سے معاشرے میں جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوئوں کے گینگز وجود میں آتے رہتے ہیں۔ پھر اقتدار پر فائز بدعنوان طبقہ سندھ ، بلوچستان اور سرائیکی علاقوں میں موجود اُن ڈاکوئوں کی سرکوبی کی کوشش کرتا ہے جن کے وجود میں آنے کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ کاش اس معاشرے میں وسیع تر انصاف ہو۔۔۔۔ وسیع تر انصاف کا مطلب یہ کہ لوگوں کو ان کے حقوق ملیں اور بطور شہری وہ اُن فوائد سے بہرہ مندہوسکیں جو ریاست اپنے شہریوں کو دے سکتی ہے ۔ ان حقوق میں سب سے اہم تعلیم کی فراہمی ہے، باقی سب سہولیات کا ذکر بعد میں آتا ہے۔ دراصل تعلیم وہ عامل ہے جو کسی بچے کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اُسے معاشرے کاایک مفید شہری بننے اور اچھی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک انجینئر بن اچھاکردار ادا کررہا ہے، اگر زیورِ تعلیم سے محروم رہتا تو ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی نقب زن بن جاتا۔
کچے کے علاقے میں آبادی کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کی یاد صرف اُس صورت میں آتی ہے جب اُن علاقوں میں آپریشن کرنا پڑے۔ یہ پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقے ہیں۔ درحقیقت قیام ِ پاکستان کے بعد سے ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ شاید ان میں سے بہت سوں کوقیام ِ پاکستان کے مفہوم اور مقصد سے بھی آگاہی نہ ہو۔ یہاں زندگی کی بنیادی سہولیات، جیسا کہ ہسپتال، سکول، پینے کا صاف پانی یا تو موجود نہیں یا پھر گھوسٹ سہولیات کی صورت میں ہیں۔ انہی علاقوں کے سکولوں میں گھوسٹ اساتذہ پائے جاتے ہیں جو تنخواہ لے لیتے ہیں لیکن کبھی حاضر ی نہیں دیتے۔ گھوسٹ مسیحائوں کا تعلق بھی انہی آسیب زدہ علاقوںسے ہے۔ بے چارے ڈاکو تو پھر دن دیہاڑے ڈاکے ڈالتے ہیں۔۔۔۔ میں ان کے جرائم کا جواز پیش نہیں کررہا، لیکن وہ جرائم سرِعام کرتے ہیں، ان سے پہلے بہت سے پوشیدہ لٹیروں کے خلاف بھی ''پلس مقابلے‘‘ کرنے ہیں۔ تاہم ان پنہاں ڈاکوئوں کی سرپرستی کرنے والی سیاسی اشرافیہ ان پر آنچ بھی نہیں آنے دیتی۔ لاہور کے ایک سماجی کارکن نے اس ڈیلٹا میں سفر کرتے ہوئے مقامی لوگوںسے بات چیت کی اور ایک سکول قائم کیا۔ وہ اپنی کہانی "The dacoit's dream" میں یہ واقعہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب وہ گھوٹکی کے علاقے میں سکول کھولنے کے لیے پہلی مرتبہ سفر پر جارہا تھا تو کچے کے علاقے میں ایک بدنام زمانہ ڈاکو نے اُسے روک لیا۔ وہ ایک بے خوف آدمی تھا ، چنانچہ مسلح ڈاکو کی موجودگی سے بھی اس کا دل نہ کانپا۔ وہ جانتا تھا کہ اُسے قتل کیا جاسکتاہے، اغواکیا جاسکتا ہے ، تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کشتیاں جلا چکا تھا۔ اُس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ اُس کی زندگی کے آخری لمحات ہوں، اس لیے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اُس نے بے خوف ہو کر ڈاکوسے کہا کہ وہ فلاں علاقے میں سکول کھولنے کی کوشش میں ہے۔ یہ سنتے ہی ڈاکو کا لہجہ بدل گیا۔ اُس نے اُس سے التجا کی کہ وہ پہلے اُس کے علاقے میں سکول کھولے کیونکہ وہ نہیںچاہتا کہ اُس کا بیٹا اُس کے نقش ِ قدم پر چل کر جرم کی راہ اپنائے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ لکھ پڑھ کر اچھی زندگی بسرکرے۔ یقینا مسٹر ڈاکو بھی جانتا تھا کہ تعلیم اوراچھی زندگی میں گہرا تعلق ہے۔ بڑے ڈاکو یہ سادہ سی بات کیوںنہیں سمجھتے؟