جو تبدیلی عمران خان لانے والے تھے‘ اس کا کچھ پتا نہیں کہ آتی بھی ہے یا نہیں‘ لیکن قانون قدرت کے مطابق کہ ع
ثبات ایک تغّیر کو ہے زمانے میں
کچھ تبدیلیاں ایسی ہیں جو اپنے آپ ہی یا بعض اقدامات کے منطقی انجام کے طور پر آتی رہتی ہیں۔ کبھی وہ سربستہ راز رہتی ہیں تو کبھی ان پر سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں رہا‘ اور انہوں نے باقاعدہ اپنی راس کھانا شروع کردی ہے جبکہ تنخواہ دار طبقہ اس میں سرفہرست ہے۔ کچھ مراعات یافتہ خاندانوں اور گروپس کو چھوڑ کر ہر جگہ یہی عالم ہے۔ چنانچہ حکومت بھی اسی طبقے کے مالا مال ہونے کو ہی اپنی معاشی ترقی گردانتی اور دنیا بھر کو بیوقوف بنانے میں مصروف رہتی ہے کہ خود اسی طبقے کا ایک حصہ ہے بلکہ اس کی سرخیل بھی۔ چونکہ اجتماعی بے حسی قومی جسد میں ایک سرطان کی طرح پھیلی ہوئی ہے‘ اس لیے کوئی اس کا نوٹس لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ پیسے کی کمی اس قدر شدید حد تک پہنچ چکی ہے کہ نوبت جسم فروشی تک جا پہنچی ہے۔
دوسری تبدیلی‘ جسے تبدیلی کی بجائے ترقی کا نام دینا زیادہ مناسب ہوگا‘ یہ ہے کہ حکومتی دعووں اور دلیلوں کا کوئی اعتبار ہی نہیں کرتا اور اس کی ہر چھوٹی بڑی ڈیل اور پروجیکٹ پر شک و شبہ
کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ سیاست کاری کا محور صرف اور صرف لوٹ کھسوٹ ہو کر رہ گیا ہے کہ اس بدنصیب ملک اور اس کے بسنے والوں کے تنِ ناتواں سے بچے کھچے خون کا آخری قطرہ کیونکر نچوڑا جائے جبکہ سیاست صحیح معنوں میں ایک نفع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ چونکہ حرص و طمع کے کوئی حدود و قیود نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کاروباریوں کا پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس لوٹ مار کی اب ستر پوشی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور ملکی وسائل کی ساری خریدوفروخت دیدہ و دانستہ ا ور پورے دھڑلے سے سب کی آنکھوں کے سامنے کی جا رہی ہے جبکہ جمہوریت کا پہلا مطلب و مقصد ایک ایسی اپوزیشن کی موجودگی ہے جو حکومت کی بدعنوانیوں پر ایک چیک کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس جمہوریت میں جب سے نظریۂ مفاہمت کو فروغ حاصل ہوا ہے‘ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ بن کر رہ گئے ہیں اور اس ستیزہ کاری میں نام نہاد اپوزیشن خود حکومت سے بھی چار ہاتھ آگے نظر آتی ہے اور ایک طرح سے پوری قوم کو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ یہ
لوٹ مار نہ صرف جائز ہے بلکہ ان مہربانوں کا ازلی و ابدی حق بھی ہے‘ اس لیے اس پر نہ تو کسی کو حیران ہونے کی ضرورت ہے نہ پریشان ہونے کی‘ حتیٰ کہ اس نے ایک بہت بڑی ترغیب کی حیثیت حاصل کر لی ہے کہ اگر کوئی اور بھی اتنا دم خم رکھتا ہے تو وہ بھی اس کوچے میں قدم رکھ کر دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی کر سکتا ہے اور اس نجیب و شریف کاروبار میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اپوزیشن کے حکومت کے ساتھ غتربود ہوجانے کے بعد دو ہی ادارے باقی رہ جاتے ہیں جو اس اندھیر گردی کو لگام دے سکتے ہیں‘ ایک تو عدلیہ اور دوسری عسکری قیادت۔ کوئی یہ بات ایک لمحے کے لیے بھی ماننے کو تیار نہ ہوگا کہ جو کچھ ملک عزیز میں ہو رہا ہے اور جو جو ارتکابات ارزانی کیے جا رہے ہیں‘ وہ ہر دو اداروں کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسی قیادت ابھر کر سامنے آئے جو اس مکروہ ترین 'سٹیٹس کو‘ کو توڑ کر کوئی بہتری لانے کی کوشش کرے‘ لیکن اس کا امکان اس لیے مفقود ہے کہ برسرِ کار عناصر نے اپنے پنجے اس مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں کہ کسی اور کے لیے اس میدان میں جگہ بنانا تقریباً ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔
چنانچہ یہ دونوں ادارے اس مظلوم و مقہور ملک کی واحد امیدگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عدلیہ اس لیے کہ حکمرانوں کے اس طرزِ عمل سے انسانی حقوق کی اس قدر کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے کہ کسی کو اس پر توجہ دلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ لوگوں کا جینا اگر ایک مستقل اور مسلسل عذاب کی شکل اختیار کر چکا ہے تو آئین پاکستان‘ جس کی عدلیہ اپنے آپ کو بجا طور پر محافظ کہتی اور سمجھتی ہے‘ کی جابجا صریح خلاف ورزی اور کیا ہوگی جب لوگوں کے بنیادی حقوق پر اس طرح کھلے عام ڈاکہ ڈالا جا رہا ہو‘ اور وہ بھی اس قدر ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ۔
عسکری قیادت پر نظر اس لیے اٹھتی ہے کہ اصل حکمرانی اس کے پاس ہے‘ اور ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ اس کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔ حکومت اگر اس لحاظ سے مطمئن ہے کہ وہ اپنے اصل اختیارات سے عسکری قیادت کے حق میں پہلے ہی نہایت خوشدلی سے دستبردار ہو چکی ہے اس لیے وہ اس طرف سے کبھی اور کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتی یا وہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کی طرح اس فریق کے ساتھ بھی مفاہمتی فارمولا ہی اختیار کیا جا رہا ہے اور سب اچھا ہے‘ تو اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوگا؛ تاہم اس ضمن میں کوئی حتمی کردار ادا کرنا عدلیہ کے لیے زیادہ آسان ہوگا کہ یہ اس کے فرائضِ منصبی ہی کا ایک اہم اور بنیادی حصہ اور کردار ہوگا! عسکری قیادت کم از کم اتنا تو کر سکتی ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کو اخلاقی لحاظ سے اتنا مضبوط کر دے کہ یہ ادارے کسی دبائو کے بغیر ایمانداری سے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کر سکیں ورنہ تو یہ دونوں ادارے محض ایک مذاق کی حیثیت رکھتے ہیں جو حکومت کی انگلیوں پر ناچنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہوں۔
آج کا مقطع
ناممکنات میں سے ہے وصل اس کا اے ظفرؔ
حیران ہوں کہ آپ نے بھی کیا سمجھ لیا