جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟1977ء کے بعد ملک ایک بار پھر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلائی جانے والی پر تشدد ریلیوں اور جلسوں کی نذر کیوں ہوا؟یہ دونوں سوال بظاہر بہت ہی معمولی نظر آتے ہیں لیکن انہی دو سوالات نے ملک کی اقتصادی حالت کو اپنی جکڑ میں لیا ہوا ہے اور چین کی جانب سے پاکستان کیلئے تجویز کردہ میگا پراجیکٹس کو اگرکسی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ گیا تو اس کی ذمہ داری کن پر ڈالی جا ئے گی؟ آج آپ جو چاہیں فرض کر لیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ موجودہ طریق کار کے تحت ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری صرف اور صرف چیف الیکشن کمیشن اور چار وںصوبوں کے الیکشن کمیشن کے سربراہوں پر عائد ہوتی ہے اور اگر ان اراکین کی تعیناتی آئین پاکستان کے تحت نہ ہو تو پھر ان سے کسی خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟۔ پاکستان کے 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے ابھی تک ملک جس کشمکش کا شکار ہے اس کے ذمہ دار ہو سکتا ہے اور بھی بہت سے لوگ ہوں لیکن بنیا دی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے انہی پانچ ارکان پر عائد ہوتی ہے۔
جس طرح تحریک انصاف وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھی ہوئی دس افراد پر مشتمل ٹیم کی مصروفیات سے بے خبر ہے‘ اسی طرح لگتا ہے کہ یہ دس رکنی ٹیم بھی نادرا کے اس ڈائریکٹر نیٹ ورکس کو بھول چکی ہے جسے گذشتہ سال اس شبہ میں سزا دی گئی تھی کہ نادرا کے دفتر میں انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کیلئے رکھے تھیلوں کے اندر
بھری ہوئی ردی کی جگہ نئے ووٹ ڈالنے کے لیے نادرا کے مرکزی دفتر کے اس حصے کے سی سی ٹی وی کیمرے بند کرنے کی خبر اس نے میڈیا تک پہنچائی تھی اور جسے پاکستان بھر کا الیکٹرانک میڈیا ایک ہفتے تک دن میں کئی بار سامنے لاتا رہا۔ اردوبازار سے اضافی بیلٹ پیپرز چھپوانے کا تحریک انصاف کا الزام اپنی جگہ لیکن انتخابات سے صرف 48 گھنٹے پہلے پرنٹنگ سے متعلقہ 200 افراد کرائے پر حاصل کرنے کا سرکاری اعتراف پی ٹی آئی کے الزامات کو تقویت دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کی ایک اہم ترین شخصیت (اسد عمر)کا کہنا ہے کہ اردو بازار کے جن دو سو لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کا پنجاب حکومت کے چیف سیکرٹری جو ڈیشل کمیشن کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں‘ ان میں سے بہت سے لوگ تحریک انصاف سے ڈائریکٹ رابطے میں ہیں اور بہت سوں نے اپنے بیانات ریکارڈ بھی کروا دیے ہیں۔ اسد عمر پوچھتے ہیں کہ کیا اس سے پیشتر ہونے والے کسی بھی قومی یا بلدیاتی انتخابات کیلئے دو دن پہلے اردو بازار سے اضافی ورکروں کی خدمات حاصل کی گئیں؟
نادرا دفتر کے باہر عمران خان کی پریس ٹاک کے اگلے دن ہی حکومتی وزراء کی بیان بازی ان کی سرکاری ذمہ داریوں کا حصہ بن گئی ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے کو دوسرا رخ دینے کی ناکام کوشش کی۔ اپنی اس رپورٹ میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ این اے122 میں دو صوبائی حلقے پی پی147-148 بھی شامل ہیں۔ اب نہ جانے یہ کس کی غلطی سے ہو ا کہ قومی اسمبلی کے تھیلوں کے ووٹوں میں صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کے تین چار تھیلے بر آمد ہو گئے۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ اس طرح ہوا ہو جبکہ قومی اور صوبائی حلقوں کے بیلٹ پیپرز کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ گیارہ مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات کا جائزہ لینے کیلئے اس کی کڑیاں ملانا اشد ضروری ہے کیونکہ جب تک کسی بھی تحقیق طلب مسئلے کی بنیاد کو نہ دیکھا جائے حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد پی پی اور نواز لیگ دونوںنے مل کر آئین میں18ویں ترمیم کی جس میں فیصلہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کیلئے چاروں صوبوں سے ایک ایک ایسا رکن لیا جائے گا جو ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو۔ اٹھارہویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو اختیار تھا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اس ترمیم کے بعد تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیے گئے اور فخرالدین جی ابراہیم یا کوئی بھی چیف الیکشن کمشنر اگر کوئی فیصلہ یا حکم دینا بھی چاہے تو نہیں دے سکتا کیونکہ ان کا بھی باقی چاروں ارکان کی طرح ایک ہی ووٹ مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس طرح ان چاروں اراکین‘ جنہیں ان دو جماعتوں نے مل کر مقرر کیا تھا‘ آپس میں ایکا اور مک مکا کرتے ہوئے جو چاہا اور جس طرح چاہا کیا۔ اس بات کو کوئی بھی جھٹلانے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ چار وں صوبائی الیکشن کمیشن کے ارکان کے نا موں کی سفارش صرف8 اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی نے کی جبکہ آئین کی رو سے یہ تعداد بارہ ہونا چاہئے تھی۔
ہوا یوں کہ 22 فروری2011ء کو18 ویں ترمیم کی منظوری کے ایک سال بعد بارہ اراکین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جاتی ہے‘ جن میں سے آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار سینیٹ سے لئے جاتے ہیں۔ ان میں پی پی کے تین، مسلم لیگ نواز کے تین، مسلم لیگ ق کے دو اور ایم کیوا یم، فضل الرحمان، فاٹا، اور عوامی نیشنل پارٹی سے ایک ایک رکن لیا جاتا ہے تاکہ وہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کر سکیں۔پہلے26 اپریل 2011ء اور پھر19 مئی کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے کیس پر دوران سماعت کہا کہ بہت ہو چکا‘ اب مزید انتظار نہیں ہو گا اور حکومت کو تین ہفتے کے اندر اند ر الیکشن کمیشن مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن جاری کر دی گئی۔ 30 مئی کو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتا یا گیا کہ الیکشن کمیشن کیلئے پانچ میں سے چار نشستیں ابھی مکمل نہیں ہوسکیں۔ یکم جون کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے جسٹس فضل الرحمان، کے پی کے سے جسٹس شہزاد اکبر خان،پنجاب سے جسٹس ریاض کیانی اور سندھ سے جسٹس روشن عیسانی کے ناموں کی سفارش کر دی۔ اب وہ انتہائی اہم نکتہ سامنے رکھیں کہ موجو دہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے جو کچھ بھی ہوا ہو وہ تیس مئی سے یکم جون کے اس مختصر عرصہ میں کیا گیا۔ میں اب ایک انتہائی اہم سوال پاکستان کے ہر قانون دان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ کیا مجوزہ آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر صوبے سے کمیشن کی تشکیل کیلئے نامزد12 ارکان کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے یا پارلیمانی کمیٹی نے انٹرویو کیلئے بلا یا تھا؟ یہ اس لئے کہ ہر صوبے کے الیکشن کمیشن کیلئے تین تین ناموں کے ایک پینل کی تشکیل ازحد لازمی اور ضروری تھی اور ان تین ناموں میں سے کسی ایک کو صوبائی الیکشن کمیشن مقرر کیا جانا تھا۔ کیا آئین اور قانون کی رو سے پارلیمانی کمیٹی نے ان بارہ اراکین کو بلا کر سماعت کی؟ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ قانونی اور آئینی تقاضے پورے کئے بغیر الیکشن کمیشن کے صوبائی ارکان کو نا مزد کر دیا گیا۔ اور جس طرح الیکشن کمیشن کی تشکیل کی گئی اسی طریقے سے انہوں نے ملک میں عام انتخابات کرا دیئے!!