تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-05-2015

خادم اعلیٰ جنوبی پنجاب میں

د ل تھا کہ اب معاملہ ختم کر دوں۔ چوہدری شجاعت کی زبان میں ''مٹی پائو‘‘ والا معاملہ کر دوں مگر لاہور سے ہی ایک مہربان کا فون آ گیا ۔ کہنے لگا اگر بہاولپور کے سولر پلانٹ پر ملتان اور بہاولپور کے صحافی حضرات کو نہیں بلایا گیا تو کون سی قیامت آ گئی ہے؟ اگر ملتان کے صحافیوں کو آخری کرسیوں پر بٹھایا ہے اور لاہور والوں کو فرنٹ قطار میں بٹھا دیا ہے تو کون سا طوفان آ گیا ہے؟ اگر ملتان کے صحافیوں کو ''تھکڑ‘‘ بس پر بٹھا کر مظفر گڑھ لے گئے ہیں اور لاہور کے صحافی ہیلی کاپٹر پر لائے گئے ہیں تو اس میں کہرام مچانے کی کیا بات ہے؟ ملتان میں صحافی ہیں ہی کتنے؟ اور اس معاملے میں اتنا مائنڈ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میرا یہ دوست بذات خود صحافی ہے اور لاہور میں کسی تقریب میں اسے نہ بلایا جائے تو کھپ ڈال دیتا ہے۔
میں نے اسے کہا کہ عزیزم! اگر لاہور میں کسی تقریب میں چالیس صحافی مدعو کئے جائیں اور تمہیں نہ بلایا جائے تو تم زمین آسمان ایک کر دو گے؛ حالانکہ اس شہر سے چالیس صحافیوں کی شرکت کے بعد تم اسے ناانصافی یا تفریق کا معاملہ نہیں کہہ سکتے ۔ مگر آپ لوگ خود اپنی دفعہ بہت زیادہTOUCHYہو جاتے ہیں۔ اگر لاہورکی کسی تقریب میں ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان سے بوئنگ جہاز یا ایئر بس بھر کر لائی جائے اور لاہور سے کسی ایک صحافی کو بھی اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ نہ دیا جائے تو آپ لوگ وہ کہرام مچائیں کہ زمین آسمان ایک کر دیں آپ تاریخ میں ایک واقعہ بیان کریں کہ لاہور یا اسلام آباد میں کوئی ایسی تقریب ہوئی ہو جس میں لاہور یا اسلام آباد سے باہر کے صحافی مدعو ہوں اور ان دو شہروں کے مقامی صحافیوں کو نُکرے لگا دیا گیا ہو؟ اگر کبھی ایسا ہوا ہوتا تو میں پھر تم سے پوچھتا کہ اس پر آپ اتنا احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ مگر کیونکہ نہ کبھی ایسا واقعہ ہوا ہے اور نہ کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے کہ آپ کا اس صورتحال سے کبھی پالا ہی نہیں پڑا۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ عرف خادم اعلیٰ نے تین دن جنوبی پنجاب میں گزارے۔ پانچ مئی کو بہاولپور میں سولر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ چھ مئی کو بورے والا میں دن گزارا اور سات مئی کو مظفر گڑھ میں طیب اردوان ہسپتال کا افتتاح فرمایا۔ ان تین دنوں میں وہ خود بھی چکر لگا لگا کر بے حال ہوئے اور لاہور کے صحافیوں کو بھی پھیرے لگوا لگوا کر بے حال کرتے رہے۔ لاہور سے خود بہاولپور آئے اور پھر واپس دوپہر کو لاہور چلے گئے۔ اگلی صبح لاہور سے بوریوالہ آئے اور دوپہر کے بعد عازم لاہور ہو گئے۔ اگلی صبح لاہور سے مظفر گڑھ تشریف لائے اور سہ پہر کو واپس لاہور چلے گئے۔ تین دن مصروف ترین جنوبی پنجاب میں گزارے مگر کیا مجال ہے جو جنوبی پنجاب کے کسی نمائندے سے طریقے سے سلام دعا بھی کی ہو۔
بہاولپور پہنچے ۔ میاں نواز شریف نے تختی کی نقاب کشائی کی۔ سٹیج کے پیچھے سے آ کر سٹیج سنبھالا۔ تقریب ختم ہوئی تو سٹیج کے پیچھے سے واپسی کی۔ گاڑی پر بیٹھے اور ایئر پورٹ کو نکل گئے۔ یہاں بھی ان کے ساتھ لاہور اور اسلام آباد والے صحافی تھے اور سکیورٹی تھی۔ مظفر گڑھ میں بھی یہی ہوا۔ تقریب ختم ہونے سے ایک دو منٹ قبل ہی لاہور سے ساتھ آئے صحافی حضرات سٹیج کے پیچھے چلے گئے ۔ وزیر اعلیٰ تقریر کے فوراً بعد پھرتی سے ادھر چلے گئے۔ درمیان میں سکیورٹی والے آ گئے اور راستہ بند ہو گیا۔ ان تین دن کے دوران مجال ہے اگر خادم اعلیٰ نے کسی جنوبی پنجاب کے کسی صحافی سے ہاتھ ملایا ہو۔ کوئی بات کی ہو۔ کوئی انٹرایکشن ہوا ہو۔ کوئی سوال جواب ہوا ہو یا کسی سے سلام دعا لی ہو۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا کہ صر ف اپنی تقریر سنانی تھی تو اس کا بڑا آسان حل یہ تھا کہ تقریر کی فوٹو کاپی ہر اخبار کے دفتر بھجوا دی جاتی اور ایک فوٹو گرافر سے تصویروں کی ''پٹی‘‘ بنوا کر بھجوا دی جاتی۔ اتنا کھکھیڑ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
محکمہ تعلقات عامہ کا نام دیکھیں تو یہی سمجھ آتی ہے کہ ان کا کام عوام‘ حکمران اور دیگر طبقوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور درمیانی کمیونیکیشن گیپ کو کم کرنا ہے مگر محکمہ دوسرے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ اس کا کام صرف اور صرف حکمرانو ں اورسرکاری افسروں کی پروجیکشن اور تگڑے صحافیوں کے ساتھ اپنے معاملات درست رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ گیا۔ میں نے لاہور میں ہونے والی کئی تقریبات میں دیکھا کہ وزیر اعلیٰ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔ ان سے ملتے ہیں اور ان کے خیالات بھی سنتے ہیں لاہور میں وہ خود رہتے ہیں وہاں کے حالات سے ملتان کی نسبت کہیں بہتر واقف ہیں۔ جنوبی پنجاب کے بے شمار معاملات سے وہ نہ صرف یہ کہ لاعلم ہیں بلکہ یہاں کی قیادت اور عوامی نمائندے انہیں کوئی درست بات بتاتے ہی نہیں۔ صورتحال کی حقیقی منظر کشی کی کسی کو شاید مجال ہی نہیں۔ یہاں کی قیادت یہاں کے مسائل اجاگر کرنے اور اس کے حل کے لیے کوئی کوشش کرنے کے بجائے ''سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ پیش کرنے میں لگی رہتی ہے ایسے میں اگر خادم اعلیٰ ملتان اور جنوبی پنجاب کے صحافیوں سے ملتے تو انہیں بے شمار ایسی چیزوں کا پتہ چلتا جس سے وہ آگاہ ہی نہیں مگر مسلسل تین دن جنوبی پنجاب میں گزارنے کے بعد بھی وہ یہاں سے ویسے ہی لاعلم اور کورے واپس روانہ ہو گئے جتنے لاعلم اور کورے تین دن پہلے تھے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کے صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا یا انہیں برابری کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خبر ہر صحافی کا حق ہے اور جنوبی پنجاب کے صحافی عملی طور پر اس حق سے محروم رکھے گئے ہیں۔ ان کو ''فرسٹ ہینڈ انفارمیشن‘‘ تک رسائی نہیں دی گئی اور انہیں ان کے گھر آ کر بے عزت کیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار محکمہ کے افسروں کو یہ توفیق تک نہیں ہوئی کہ وہ اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے۔ ملتان کے صحافیوں سے معذرت کرتے۔ ملتان پریس کلب کے عہدیداروں سے اس ناانصافی اور عدم مساوات والے رویے پر سوری کرتے۔ لیکن لاہور میں بیٹھے ہوئے افسران خواہ وہ جنوبی پنجاب سے ہی کیوں نہ گئے ہوں اس محروم خطے کو لاوارث اور بے آسرا تصور کرتے ہیں؛ شاید وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں کہ خود یہاں کے نمائندوں نے انہیں نہ تو قابل توقیر سمجھا ہے اور نہ ہی کبھی اہمیت دی ہے گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے اپنی تقریب حلف برداری پر شاید ملتان سے ایک فوٹو گرافر کو بلایا ہو گا کہ اس سے ان کا پرانا تعلق ہے بصورت دیگران کی تقریب حلف برداری میں ملتان سے کوئی صحافی نہیں بلایا گیا تھا۔
مظفر گڑھ میں خوارو خستہ ہو کر آنے والے صحافیوں کی اکثریت کا کہنا تھا وہ آئندہ کے لیے ایسی کسی تقریب میں شرکت کرنے سے بہتر سمجھیں گے کہ عزت سے گھر بیٹھے رہیں جہاں ان کے ساتھ سرعام دو نمبر بلکہ اس سے بھی کہیں نچلے درجے کے مہمان جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ ملتان صحافت کا چوتھا بڑا مرکز ہے کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے بعد سب سے زیادہ قومی اخبارات ملتان سے نکلتے ہیں اور یہ صحافت کا بہت قدیم مرکز بھی ہے۔
غیر ملکی دوروں پر جانا‘ دوسرے شہروں میں کمپنی کی مشہوری کے لیے کی جانے والی تقریبات میں شرکت کرنا اور سرکاری خرچے پر پروٹوکول لینا کسی صحافی کا نہ تو حق ہے اور نہ ہی کسی کو ایسا مطالبہ کرنا چاہیے مگر خبر تک رسائی سب کا حق ہے اور اس سلسلے میں پہلا حق مقامی صحافیوں کا ہے نہ کہ باہر سے آنے والے صحافیوں کوکہ انہیں تو یہ حق بدرجہ اتم دیا جائے اور مقامی صحافیوں کے ساتھ کمتر درجے کے صحافیوں والا سلوک روا رکھا جائے ۔ویسے شاباش ہے وزیر اعلیٰ عرف خادم اعلیٰ کو‘ کہ انہوں نے عرصے بعد تین دن جنوبی پنجاب میں گزارے اورکسی مقامی صحافی سے سلام دعا کئے بغیر واپس لاہور چلے گئے۔ ویسے بھی راستے میں انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے لاہوری صحافیوں سے جنوبی پنجاب کے مسائل بارے اتنا کچھ معلوم کر لیا ہو گا کہ انہیں جنوبی پنجاب کے صحافیوں سے ملنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved