تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-05-2015

قمر رضا شہزادؔ کے اندر کا بچہ ابھی زندہ ہے!

کوئی دو ماہ پہلے میں نے محبی قمر رضا شہزادؔ کا جو تفصیلی خط اپنے کالم میں درج کیا تھا‘ مجھے اس پر ہی کافی شرمندگی اور پشیمانی تھی کہ اس میں میری تعریف کے پل باندھے ہوئے تھے کہ اب کوئی ایک ماہ سے ان کا ایک اور خط آیا رکھا ہے جس میں درج ایک بات کا نوٹس لینے کی تاکید کی گئی ہے۔ میں اب تک اس لیے خاموش تھا کہ اس میں بھی میری تعریف و توصیف وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ مذکورہ بات بھی ایسی اہم نہیں ہے کہ اس کا باقاعدہ نوٹس لیا جائے۔ اس خط کی بجائے برخوردار اپنی کوئی تازہ غزل بھیجتے تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔ بہرحال طوعاً و کرہاً یہ خط بھی شامل کر رہا ہوں:
قابلِ صد احترام ظفر اقبال صاحب! تسلیمات! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ چند روز قبل حادثے کے زخموں سے کسی حد تک صحتیاب ہونے کے بعد دوستوں نے میری شاعری کے بارے میں آپ کے کالموں سے آگاہ کیا۔ میں نے نیٹ پر جا کر یہ کالم پڑھے۔ یقینا آپ کی رائے میرے لیے لمحۂ فکریہ ہے البتہ اس میں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے مگر وہ بھی میں ہرگز نہیں کروں گا کہ آپ سے میری محبت غیر مشروط ہے۔ آپ میرے ان محسنوں میں شامل ہیں جنہوں نے میرے شعری سفر کے آغاز میں میری بے پناہ حوصلہ افزائی کی۔
مگر اب صورتِ حال ایسی ہو گئی ہے کہ چند باتیں آپ کے علم میں لانا ضروری ہو گئی ہیں۔ آپ کے کالموں کا سہارا لے کر کچھ حاسدین نے میری کردار کشی کی مہم شروع کردی ہے۔ میری شاعری پر جو بھی اعتراض کیا جائے‘ میں کبھی اس سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں‘ اور ویسے بھی یہ پڑھنے والے کا حق ہے کہ وہ آپ کی شاعری کے بارے میں جو بھی رائے رکھے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک حاسد نے اپنی تحریر میں لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ کا کالم پڑھ کر میرا ایکسیڈنٹ ہوا اور بعدازاں میں نے جعلی و فرضی خطوط کے ذریعے آپ پر یہ دبائو ڈالنے کی کوشش کی کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہوگی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرا حادثہ مورخہ 13 مارچ کو ہوا جبکہ آپ کا پہلا کالم 15 مارچ 2015ء کو شائع ہوا۔ لہٰذا کیسے یہ ممکن ہے کہ یہ آپ کے کالم کا نتیجہ ہو جبکہ اس کے بعد آپ کے دو تین ٹیلیفون آئے اور آپ نے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا اور ان کالموں کے بارے میں (جن کا اس وقت مجھے علم نہیں تھا) کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
محترم ظفر اقبال صاحب! جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے‘ آپ اور دیگر سینئرز کی بے پناہ شفقتوں اور حوصلہ افزائی کے باوجود کبھی میں اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوا کہ میں کوئی بڑا شعری کارنامہ سرانجام دینے جا رہا ہوں۔ البتہ ایک کوشش ہے جو میں نے پہلے بھی کی اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا اور اگر میری یہ کوشش ناکام بھی ہوتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔
ویسے بھی شاعری کوئی کاروبار نہیں کہ اُسے کامیابی یا ناکامی یا نفع یا نقصان سے ناپا جا سکے۔ میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ میں شعر کے ذریعے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
محترم ظفر اقبال صاحب! آپ سے محبت کے سفر میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ میں نے اپنے حوالے سے کبھی آپ سے کوئی فرمائش کی ہو۔ آپ نے میری شاعری کے بارے میں جو لکھا ہے اپنی مرضی سے لکھا ہے۔ آپ کی رائے میرے لیے ہمیشہ اہم رہی ہے اور رہے گی۔ نکتہ نظر کا اختلاف کبھی اس میں کوئی دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ آپ ہمارا ادبی اثاثہ ہیں خدا آپ کو سلامت رکھے۔
خیر اندیش قمر رضا شہزادؔ
بات بالکل معمولی تھی جسے اس عزیز نے شاعرانہ مبالغہ آمیزی سے بات کا بتنگڑ بنا ڈالا۔ یعنی اگر یہ کالم آپ کے ایکسیڈنٹ کے دو دن بعد شائع ہوا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ آپ کا ایکسیڈنٹ میرے کالم کی وجہ سے ہوا اور اسی بات سے آپ کے حاسدین کی تشفی ہو جانی چاہیے تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرے کالم پر آپ کے ایکسیڈنٹ کا اثر ہو گیا ہو۔ آپ کا یہ بچگانہ طرزعمل مجھے اس لیے بھی اچھا لگا کہ آپ کے اندر وہ بچہ ابھی زندہ ہے جو ہر شاعر کے اندرون میں ہوتا ہے اور شاید اسی کے تحت آپ نے نقطۂ نظر کو نکتہ نظر بھی لکھ ڈالا۔ یقین کیجیے کہ آپ مجھے آج بھی اتنے ہی عزیز ہیں جتنے کسی زمانے میں تھے۔ مزید ثبوت کے لیے اپنی یہ تازہ غزل آپ کے نام کرتا ہوں:
دل ہے سو‘ اس کی راہ میں دریا تو ہونا چاہیے
ایسے مسافر کے لیے اتنا تو ہونا چاہیے
ساری خرابی میں یہاں جو بھی مرا کردار ہے
اچھا نہیں‘ اس کو بہت اچھا تو ہونا چاہیے
کچھ تو کھلے یہ لوگ کیسے اور کس کے ساتھ ہیں
مجمع تو لگنے دیجیے‘ جلسہ تو ہونا چاہیے
سب دیکھنے والے کھڑے ہیں سر کے بل آخر تو پھر
منظر جو اُلٹا ہے اسے اُلٹا تو ہونا چاہیے
کہتے ہیں‘ سچی بات یوں کھل کر بیاں کرتے نہیں
کچھ درمیاں میں جھوٹ کا پردہ تو ہونا چاہیے
بھٹکے ہوئوں کو پوچھنے والا یہاں پر کون ہے
رستہ دکھانے کو کوئی اندھا تو ہونا چاہیے
کوئی تماشہ تو لگے سوئی ہوئی اس خاک پر
سینوں میں جو جو حشر ہے‘ برپا تو ہونا چاہیے
کب سے زوال آمادہ ہیں یہ لوگ بھی اور لفظ بھی
اب یہ سوال اس شہر میں پیدا تو ہونا چاہیے
چھوٹی بڑی سب خواہشیں ہیں اور میں ہوں اب‘ ظفرؔ
ویسا نہیں ہوتا اگر‘ ایسا تو ہونا چاہیے
آج کا مطلع
منزل پہ خاک ڈال‘ سفر کا نشاں تو ہے
کشتی نہیں رہی نہ سہی بادباں تو ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved