تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     15-05-2015

کراچی آپریشن کا بوجھ

اللہ کرے کہ ایپکس کمیٹی نے کراچی میں قیام امن کے لیے جو فیصلے 14 مئی کو کئے، ان پر من و عن عملدرآمد ہو اور نیشنل ایکشن پلان کے ثمرات سے پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کے باسی بھی فیض یاب ہوں مگر ڈاکٹر عشرت العباد اور قائم علی شاہ کی موجودگی میں یہ توقعات؟ ؎
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
اگر سندھ میں قیام امن سید قائم علی شاہ اور ان کے وزیروں، مشیروں کے بس کی بات ہوتی تو یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے سات سال کافی تھے‘ 2008ء سے 2013ء کے دوران جب آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم اور ہر فن مولا رحمان ملک وزیر داخلہ اور ہاں ایم کیو ایم شریک اقتدار تھی اور ہر معاملے میں حصہ دار۔ درد کو لا دوا بنانے میں جنرل پرویز مشرف کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھایا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی پہنچ کر جو اجلاس کئے، سرکاری افسروں کی سرزنش ہوئی اور بار بار تبادلوں کا مقصد پوچھا گیا، اس سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے حتمی فیصلے کا وقت آ گیا ہے اور آج بامقصد تبدیلی کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈال نہیں پائے گا مگر تاحال معاملہ نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے نہیں بڑھا۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی کیفیت ہے۔ عشرت العباد اور قائم علی شاہ بھی جہاں تھے وہیں ہیں اور پولیس میں اس کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ رائو انوار کو دوبارہ ایس ایس پی ملیر کا چارج مل گیا ہے اور وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کے الزام سے بری قرار پائے ہیں۔
سانحہ صفورا چورنگی کی تفتیش بھی آسان نہیں۔ جائے وقوعہ سے پمفلٹ داعش کے ملے، ذمہ داری جنداللہ نے قبول کی، انگلیاں ''را‘‘ کی طرف اٹھ رہی ہیں اور ایپکس کمیٹی نے آپریشن کالعدم تنظیموں کے خلاف تیز کرنے کے فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ دہشت گرد، تخریب کار اور چالاک مجرم تفتیشی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کے لیے عموماً اس طرح کی وارداتیں کرتے اور ایسے نشان چھوڑ جاتے ہیں جنہیں عام آدمی مجرم کی غلطی تصور کرتا ہے مگر ہوتی وہ غیر معمولی عیاری اور فریب کاری ہے۔ کراچی میں مختلف عناصر مل کر بھی یہ وارداتیں کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہمارے تمام مہربانوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔
چند سال پیشتر بین الاقوامی دہشت گرد کارلوس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اسے القاعدہ کی طرف سے اشتراک عمل کی دعوت ملی تھی تاکہ جہاں القاعدہ موثر ہے وہاں کارلوس اور اس کے ساتھیوں کو کارروائیوں کے لیے تعاون ملے اور جہاں کارلوس کا نیٹ ورک فعال ہے وہاں القاعدہ کے اہداف کی تکمیل ہو۔ کراچی میں بھی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا کام ایک تنظیم کر رہی ہے‘ نہ مختلف تنظیموں کا اشتراک عمل خارج از امکان ہے۔ ممکن ہے کراچی کو تباہ کرنے کے خواہش مند تمام اندرونی اور بیرونی عناصر مل کر یہ کارنامہ انجام دے رہے ہوں اور ان سب کو مالی و اسلحی امداد ''را‘‘ سے مل رہی ہو۔
موقعۂ واردات سے ملنے والے داعش کے پمفلٹ بھی مضحکہ خیز ہیں۔ امریکی حملوں میں خلیفہ ابوبکر البغدادی زخمی ہیں اور ان کے نائب فضائی حملے میں ہلاک ہو چکے مگر داعش کو غصہ رائو انوار پر ہے جس نے حال ہی میں تھائی لینڈ سے پاکستان آنے والے دو افراد کو گرفتار کر کے ان کے ''را‘‘ سے رابطوں کا انکشاف کیا۔ ان دونوں کا داعش، جنداللہ یا طالبان سے نہیں ایم کیو ایم سے تعلق کا دعویٰ ہوا۔ فرقے کے افراد 2013ء میں بھی اپنے گھر جلوا چکے ہیں اور پچھلے سال بھی ان کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا۔ ایم کیو ایم کے بعض مخالفین نے اس وقت یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان پُرامن شہریوں کو پی ٹی آئی کی سیاسی حمایت کا مزا چکھایا گیا۔ ضمنی انتخاب میں بھی ان کا ووٹ عمران اسماعیل کے حق میں استعمال ہوا۔ حلقہ 246 کے الیکشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
اکنامک کاریڈور کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر دہشت گردی کا یہ واقعہ اور اکنامک کاریڈور کے راستے میں آنے والے گلگت، بلتستان میں اسماعیلی فرقے کا احتجاج جو فطری عمل ہے‘ سانحے کے اسباب و عوامل اور اس سے خائف عناصر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بعض لوگوں کو یہ سوال اٹھانے کا موقع مل رہا ہے کہ جو ریاست اپنے پُرامن باشندوں کا تحفظ کرنے میں دقت محسوس کر رہی ہے‘ وہ چینی انجینئرز‘ سرمایہ کاروں اور کارکنوں کی حفاظت کیسے کرے گی؟ چنانچہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اب سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ان عناصر سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے جو ''را‘‘ کی سرپرستی میں پاکستان اور اس کی اقتصادی شہ رگ کو مسلسل بدامنی‘ لاقانونیت اور دہشت گردی سے دوچار رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مجرم ہوں‘ ان کے سہولت کار یا ہمدرد سب کو قانون کے شکنجے میں کسنا اب آخری اور واحد آپشن ہے۔
کراچی کے مضافات میں روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشن‘ ٹارگٹ کلرز کو سیاسی و اخلاقی تعاون فراہم کرنے والی بڑی مچھلیوں کی گرفت اور لانچوں‘ ماڈلز اور دیگر ذرائع سے کراچی کی دولت بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے رابطوں کا انقطاع آپریشن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے اور میری اطلاع یہ ہے کہ اگلے دو چار روز میں نہ صرف آپریشن کا دائرہ وسیع ہو گا بلکہ کچھ ایسے لوگ بھی رائو انوار یا کسی دوسرے پولیس افسر کے سامنے انکشافات کر رہے ہوں گے جو فی الحال پروٹوکول اور مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کی کامیابی بہت سوں کو ہضم نہیں ہو رہی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مصروف پاک فوج اور آئی ایس آئی ایک بار پھر ہمارے اندرونی اور بیرونی مہربانوں کو کھٹکنے لگی ہے۔ سیمور ہرش کا مضمون امریکی اخبارات نے چھاپنے سے انکار کر دیا مگر ہمارے ہاں خوب مرچ مصالحے لگا کر اس کی بے نمک سٹوری کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ''خواجے دا گواہ ڈڈو‘‘ کے مصداق کارلوٹاگال نے نیویارک ٹائمز میں سیمور ہرش کی صحافتی کاوش کو سراہا ہے۔ ٹیپ کا بند یہ ہے کہ سیمور ہرش کے امریکی سورس نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو معلومات فراہم کرنے والے جس پاکستانی انٹیلی جنس افسر کا ذکر کیا وہ بریگیڈئر (ر) عثمان خالد تھے۔
بریگیڈئر (ر) عثمان خالد اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جنرل ضیاء الحق کے معتوب ایک ذہین‘ محب وطن اور پیشہ ور افسر تھے۔ معروف دانشور اور ماہر تعلیم کنیز یوسف کے بھائی اور عرصہ دراز سے انگلینڈ میں مقیم جو پچھلے سال کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں جان ہار گئے۔ غالباً 1980ء میں سٹاف کالج کے دورہ کے موقع پر تین فوجی افسروں نے اپنے باس جنرل ضیاء الحق سے بھٹو کی پھانسی پر بحث کی۔ بریگیڈئر (ر) عثمان خالد سینئر انسٹرکٹر تھے اور کرنل (ر) سرور چیمہ اور کرنل (ر) گلفراز ان کے ہمنوا۔ یوں تینوں کا فوجی کیریئر ختم ہو گیا۔
کرنل چیمہ اور گلفراز تو بعد ازاں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور ایک وزیر دفاع اور دوسرا ایک اہم سرکاری ادارے کا سربراہ بنا مگر عثمان خالد دوران ملازمت برطانیہ چلے گئے۔ فوج نے انہیں بھگوڑا قرار دے دیا اور انہیں سیاسی پناہ مل گئی۔ یہ آئی ایس آئی میں کبھی رہے تھے؛ البتہ امریکہ گئے نہ کشمیر کاز کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت کے کورس میٹ تھے چنانچہ آرمی چیف کے طور پر جہانگیر کرامت نے انہیں وطن واپس بلا کر کورٹ مارشل کیا، تین سال سزا ہوئی جو آرمی چیف نے معاف کر دی۔ سکھ لیڈروں سے ان کے گہرے تعلقات تھے اور خالصتان تحریک کو بہت پروموٹ کیا مگر امریکہ جانا، اڑھائی کروڑ ڈالر وصول کرنا اور پھر وہاں مستقل قیام کرنا افسانہ ہے۔ دوسرے کسی عثمان خالد کا نام کبھی سنا گیا‘ نہ کارلوٹاگال یا سیمور ہرش نے وضاحت کی۔ تاہم اس سٹوری سے یہ تاثر ملا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر لیول افسر بھی محض ڈالروں کی خاطر بکائو مال بن سکتے ہیں اور کشمیر کاز کے لیے بھارت کا مخالف ایک افسر بھی اپنی وفاداری فروخت کر سکتا ہے۔ عثمان خالد کے پاس اگر لاکھوں ڈالر ہوتے تو وہ اپنا علاج بہتر طریقے سے کرا لیتے جبکہ ان سے ملنے والے جانتے ہیں کہ وہ عسرت اور تنگدستی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ممکن ہے یہ سٹوری بھارتی خواہش پر گھڑی گئی ہو۔ اب عثمان خالد مرحوم جواب دینے سے تو رہے۔
جوں جوں آپریشن ضرب عضب آگے بڑھ رہا ہے، دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ ''را‘‘ کی طرف انگلیاں اٹھنے لگی ہیں اور دہشت گردوں کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کے اسباب پیدا کرنے والے عناصر کو اپنی باری آنے کا خدشہ محسوس ہو رہا ہے سازشوں، ریشہ دوانیوں اور افواہوں کا بازار گرم ہو گیا ہے اور بھارت کا ہر یار حیلوں بہانوں سے آپریشن کی ساکھ تباہ کرنے پر تل گیا ہے۔ دور از کار قیاس آرائیوں کے ذریعے میدان جنگ میں جان کی بازی لگانے والوں کے حوصلے پست کئے جا رہے ہیں اور بعض لوگوں کو ایک بار پھر سول بالادستی کا ہیضہ ہونے لگا ہے مگر نظر بظاہر آپریشن کی رفتار کم ہونے کا امکان ہے نہ دہشت گردوں، تخریب کاروں ٹارگٹ کلرز اور بھارتی گماشتوں کو کسی قسم کی ڈھیل ملنے کا اندیشہ۔ سازشی کہانیاں البتہ چلتی رہیں گی اور ان کی مانگ بھی بہت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved