میں اس وقت ایک الجھن میں ہوں اور اس الجھن کی وجہ 82,959 مربع فٹ کا ایک گھر ہے۔ ایسا نہیں کہ میں اس گھر کو حاصل کرنے اور اس میں سمانے کا ارادہ رکھتا ہوں ، ایسا ہرگز نہیں، بلکہ اتنے وسیع گھر کا تصور بھی میرے ذہن،جس کا نارسا ہونا ضروری نہیں، میں سمانے سے انکاری ہے۔ اس کی وجہ میرے خیال میںیہ ہے کہ جب میں کراچی میںتھا‘ میںاپنے پرانے فلیٹ، جس کا رقبہ سات سو فٹ تھا، میں رہتا تھا۔ چنانچہ ذہن کی تخیلِ پرواز بھی لاہور میں زرداری صاحب کے گھر کی وسعت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس سے پہلے کہ معزز قارئین میری تنقید کو رشک یا حسد سے تعبیر کریں، میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں اتنے بڑے گھر میں رہنا بالکل پسند نہیں کرتا۔ براہِ کرم اسے دنیا کے پسندیدہ ترین پھل کا ترش ہونا بھی نہ سمجھا جائے۔
اتنے بڑے گھر کو ناپسند کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں اسے صاف کیسے رکھوں گا؟ لاہور کی آب وہوا سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں اے سی کا مطالبہ کرتی ہے، اور زرداری صاحب کے علاوہ اتنے بڑے گھر میں ان دونوں سہولیات کی فراہمی کون افورڈ کرسکتا ہے؟ذرا تصور کریں ( اتنے بڑے گھر سے نمٹنے کے لیے اس چیز، یعنی تصورات، کی اشد ضرورت ہوگی)کہ اتنے وسیع و عریض گھر کا انتظام چلانے کے لیے کتنے ملازموں کی فوج ظفر موج درکار ہوگی؟خبر نہیں لیکن خدشہ، چلیں گمان، ہے کہ سابق صدر نے انڈور پولو گرائونڈ بھی بنوارکھی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ گھر کا ایک خاطر خواہ حصہ عمدہ نسل کے گھوڑوں کے لیے مختص ہوگا۔
گھر کے بارے میں یہ تفصیل زرداری ہائوس کی ملکیت کے حوالے سے انکم ٹیکس کے لیے ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئیں۔پی پی پی کے ترجمان کے مطابق نوجوان بلاول بھٹو زرداری‘ زرداری گروپ کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ہیں جبکہ ان کی آنٹی، محترمہ فریال تالپور شریک ڈائریکٹر ہیں۔ بلاول کی چھوٹی بہنیں بھی جائیداد میں شراکت دار ہیں۔ بظاہر آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد اس گروپ کی ڈائریکٹر شپ چھوڑ دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نے اس جائیداد کو حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا، یا اگر فیصلہ کسی اور کا بھی ہوگا تو کیا اُنھوںنے کسی موقع پر کہا کہ ''ٹھہریں، پی پی پی ایک سیاسی جماعت ہے جو ملک کے غریب اور محنت کش افراد کی امیدوں کی ترجمانی کرتی ہے۔اس کے چیئرمین کے لیے اتنے بڑے گھر میں رہائش رکھنا مناسب نہ ہوگا۔‘‘یا پھر اُن سے اسے حاصل کرتے وقت مشورہ ہی نہیں کیا گیا تھا؟ کیا خاندان کی نئی نسل نے کبھی زرداری صاحب سے پوچھا کہ اس کے لیے اتنے بھاری فنڈز کہاںسے آئے؟کیا اُنھوں نے کبھی سوچا کہ ا ن کی مرحوم والدہ محترمہ بھی زرداری ہائوس کی خواہشمند ہوتیں؟مانا کہ بے نظیر کی پرورش غربت میں نہیں ہوئی اور پُرتعیش زندگی ان کے لیے کوئی انوکھی بات نہ تھی لیکن وہ معاملہ فہم ضرور تھیں۔ میں جانتا ہوں کہ جب اُنہیں اپنے شوہر کی طرف سے سرے محل خریدنے اور ایک آئل کمپنی کی ملکیت حاصل کرنے کا پتہ چلا تو وہ اپنی نجی زندگی میں بہت غصے میں آئی تھیں۔ جب اُس سکینڈل کی خبریں منظر ِ عام پر آئیں تو میں نے ایک کالم میں لکھا کہ اُن کی حکومت اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے۔ مجھے بعد میں کچھ دوستوں،جو محترمہ کے بھی قریب تھے، نے بتایا کہ وہ میرے مضمون پر بہت چیں بہ جبیں ہوئیں، تاہم وہ ایک الجھن کا شکار تھیں۔ وہ اس جائیداد کی ملکیت سے انکار کرنے پر مجبور تھیں تاکہ اپنی سیاسی ساکھ بچاسکیں،اس لیے اُنھوں نے بے سروپا باتیں کیں جن کا اُن کے مخالفین نے فائدہ اٹھایا۔
بے شک بے تحاشہ جائیداد بنانے کی دھن میں زرداری صاحب اکیلے نہیں۔ نواز شریف اور ان کا خاندان بھی لندن کے ایک مہنگے علاقے ، مے فیئر(Mayfair) میں لگژری فلیٹس کی ملکیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی جائیداد ہے۔ ہمارے سابق وزیر ِ اعظم جو راجہ رینٹل کے نام سے مشہور ہیں، نے بھی مبینہ طور پر لندن میں ایک مہنگا فلیٹ خرید فرمایا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں روس کے رئیس افراد بڑے بڑے فلیٹس میں رہتے ہیں۔ نسبتاً چھوٹے سیاست دانوں اور سرکاری افسران کی اُڑان دوبئی تک ہے جہاں اُنھوں نے جائیداد خرید رکھی ہے۔ درحقیقت دوبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں پاکستانی دوسرے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
دولت اور جائیداد کی نہ ختم ہونے والی ہوس کو دیکھتے ہوئے کیا ہمیں رزداری ہائو س کی وسعت پر حیران ہونا چاہیے؟آپس کی بات ہے ، میں سابق صدر سے زیادہ اخلاقیات کی توقع نہیں رکھتا، لیکن میں ان کے تعلیم یافتہ بچوںسے سماجی ذمہ داری کی توقع ضرور لگائے ہوئے تھا۔ یا پھر میں غلطی پر ہوںکیونکہ زرداری گروپ میں شیئر رکھنے کے باوجود ہوسکتا ہے کہ ابھی بچے صاحب ِ اختیار نہ ہوں۔ تاہم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں اپنے باپ سے کچھ تو کہنا چاہیے تھا۔
یہاں اعتراف کہ میں اُنہیں لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا، لیکن چونکہ میں نے زندگی بھر پی پی پی کی حمایت کی اور پھر میں ان کی والدہ کی سیاسی زندگی کو بھی قریب سے جانتا ہوں، اس لیے میں اُن سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ غور سے پی پی پی کی سیاسی حیثیت کا جائزہ لیں کہ یہ اس وقت کہاں کھڑی ہے اور اس کی کتنی بری حالت ہے۔ اس کا یہ حال اس کے سیاسی مخالفین کے ہاتھوں نہیں، اس کی اپنی قیادت کے ہاتھوں ہوا ہے۔ اس پارٹی کی گراوٹ کی وجوہ کی ایک علامت زرداری ہائوس کی شان و شوکت بھی ہے۔