تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     17-05-2015

ایک اور قیامت

کراچی کی صفورا چورنگی کے قریب پیش آنے والے دہشت گردی کے لرزہ خیز واقعے نے ایک بار پھر پوری قوم کو خون کے آنسو رُلا دیا۔ ابھی پشاور کے آرمی سکول میں کی جانے والی واردات کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور کاری وار کیا گیا‘ ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی‘ ایک ایسا چرکا لگایا گیا کہ جس کے اثرات برسوں باقی رہیں گے۔ اسماعیلی کمیونٹی کے پُرامن افراد کو شہر لے جانے والی بس میں چند مسلح افراد، جو پولیس کی وردیاں پہنے ہوئے تھے، گھسے اور مسافروں کو چُن چُن کر گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سفاک حملہ آور تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے، اور ان کی تعداد چھ تھی۔ بس کے ڈرائیور اور18خواتین سمیت کل45 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ واردات کے بعد ملزمان گولیاں چلاتے ہوئے موقع سے بھاگ نکلے۔
اسماعیلی کمیونٹی دُنیا بھر میں اپنی سماجی، تعلیمی ، فلاحی، تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کی بنا پر عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس کے ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ارکان مختلف ممالک میں آباد ہیں۔پرنس کریم آغا خان(چہارم)49ویں امام ہیں اور اس کے جملہ امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ پاکستان سے اس کمیونٹی کا گہرا تاریخی، سیاسی، نفسیاتی اور جذباتی تعلق ہے۔ اسماعیلی مسلک مسلمانوں کے شیعہ مکتب فکر کی ایک شاخ ہے۔ اس وقت شیعہ حضرات کی بڑی تعداد اثنا عشری کہلاتی ہے، اسے فقہ جعفریہ کے حوالے سے بھی پکارا جاتا ہے کہ یہ اُس فقہ کے پیرو کار ہیں جسے امام جعفر صادق نے منضبط کیا۔ اثنا عشری رسول اللہ ؐ کے بعد بارہ اماموں پر ایمان رکھتے ہیں‘ آخری امام غائب ہیں، جو ایک مقررہ وقت پر ظاہر ہوں گے، جبکہ اسماعیلی ان میں سے چھ اماموں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت جعفر صادق کے بعد امامت ان کے بیٹے اسماعیل کا حق تھی۔ اسماعیل ان کی زندگی ہی میں وفات پا گئے تھے، اس لیے یہ اپنا تعلق ان کے بیٹے محمد سے جوڑتے ہیں اور یوں ان کا شجرہ اثنا عشری حضرات سے مختلف ہو جاتا ہے۔آغا خان چہارم اسماعیلیوں کے49 ویں امام ہیں، اور ان کو شریعت کی تعبیر و توضیح کے وہ تمام اختیارات حاصل ہیں، جو ان کے پیش روئوں کو حاصل تھے۔آغا خان کے بارے میں کہاجا سکتا ہے کہ وہ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں،جو اپنے پیروکاروں کے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ ان کی ہدایت حرفِ آخر سمجھی جاتی ہے اور اسماعیلی حضرات و خواتین (بلا چون و چرا) خود کو اس پر عمل کرنے کا مکلف سمجھتے ہیں۔
پرنس کریم نے اپنے دادا سر سلطان محمدشاہ آغا خان سوئم کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق امامت کا منصب سنبھالا تھا‘ اس وقت ان کی عمر21سال تھی۔ دادا نے اپنے بیٹے کو نظر انداز کرتے ہوئے امامت اپنے پوتے کو منتقل کی تھی۔آغا خان سوئم نے جب امامت سنبھالی تھی تو وہ آٹھ سال کے تھے۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ پرنس کریم نے دو شادیاں کیں، پہلی بیوی سے شادی کے25سال بعد طلاق کا اعلان کر دیا گیا، جبکہ دوسری شادی چھ سال قائم رہی۔ ان کا شمار دُنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد برصغیر پاک و ہند میں آباد ہوئی اور سر سلطان محمد شاہ سوئم نے اسلامیان ہند کی اجتماعی زندگی میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہی کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک وفد نے برطانوی وائسرائے سے مل کر مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات کا اصول تسلیم کرایا تھا کہ اس کے بغیر منتخب اداروں میں مسلمان اپنی آبادی کے مطابق حصہ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ مخلوط انتخاب میں ان کی25فیصد آبادی، اپنی تعداد کے مطابق اپنے نمائندے منتخب نہیں کرا سکتی تھی، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مسلمان امیدوار اپنے انتخاب کے لئے اکثریت کے رحم و کرم پرتھے۔آغا خان سوئم نے1911ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لئے کئی لاکھ روپے اکٹھے کئے،1921ء میں انہیں اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔1928-29ء میں وہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے صدر رہے۔ وہ72سال کے تھے کہ ان کی پلاٹینم جوبلی منائی گئی اور ان کے پیروکاروں نے انہیں ہیروں اور سونے میں تولا۔ اس سونے اور ہیروں سے ایشیا اور افریقہ میں مختلف ادارے قائم کئے گئے، ہمارے شمالی علاقہ جات کو بھی وافر حصہ ملا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اسماعیلی مسلک کے افراد نے پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی اور فلاحی سرگرمیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ کراچی کا آغا خان ہسپتال نجی شعبے میں بین الاقوامی معیار کا منفرد مرکز صحت ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی اپنے آپ کو سیاسی الائشوں سے دور رکھتی اور اپنی پُرامن سرگرمیوں کی بنا پر مُلک ہی نہیں، دُنیا بھر میں خاص عزت اور وقعت کی حامل ہے۔ ایک پُرامن صلح کل اور ہر قسم کے تنازعات سے الگ رہنے والی کمیونٹی کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اس حوالے سے مختلف اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ حکومتی اور فوجی حلقوںمیںیکسوئی پائی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے(کسی نہ کسی طور)''را‘‘ کا ہاتھ ہے۔ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہے۔ کور کمانڈرز کے ایک اجلاس کے بعد واضح طور پر اس بھارتی ایجنسی کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیا گیا۔ سیکرٹری خارجہ نے بھی کسی لگی لپٹی کے بغیر ''را‘‘ کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے ثبوت بھارت کو پیش کئے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دول کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے گردش کر رہی ہے، جس میں انہوں نے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کا ''سہرا‘‘ اپنے سر باندھا ہے۔ طالبان کی وارداتوں کا ''کریڈٹ‘‘ بھی خود لینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، بنگلہ دیش کی تخلیق میں''را‘‘ نے جو کردار ادا کیا ہے، اب اس کا وہاں فخریہ اعتراف کیا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ بھارت میں دہشت گردی کی وارداتوں کے حوالے سے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ گویا اپنی کارروائیوں کو جوابی( یا دفاعی) قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ یا کسی اور نام سے کی جانے والی وارداتوں میں خواہ کسی بھی تنظیم کا حوالہ آئے، ہر ایک کے پیچھے ''را‘‘ کا ہاتھ ہو سکتا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں کوئی بھی حربہ استعمال کر سکتی ہیں اور کسی کو بھی آلۂ کار بنا سکتی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں جو مذہبی عناصر اپنے مخالف مسالک کو کافر قرار دے کر ان کا خون مباح قرار دے رہے ہیں، ان کے ہم خیال بھارت میں اپنے انہی مخالفوں کے ساتھ چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اگر اسماعیلی یا ان کی طرح کا کوئی اور گروہ گردن زدنی ہے تو ایسا صرف پاکستان میں کیوں ہے؟ پاکستانی فتویٰ فروشوں کے بھارتی عزیز و اقارب اس کارِ بے خیر میں حصہ کیوں نہیں لے رہے؟اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملہ مذہبی نہیں، کچھ اور ہے۔
الحمدللہ! پاکستانی معاشرے میں مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بخیروخوبی زندگی گزار رہے ہیں۔ دہشت گردی کسی بھی آڑ میں کی جائے یہ دہشت گردی ہے اور اس پر پوری قوت اور شدت کے ساتھ وار کیا جانا چاہئے، جن مدرسوں یا مراکز سے کفر کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں، ان کا سختی سے محاسبہ ہونا چاہئے۔ قانونی طور پر ( کسی کلمہ گو کو) کافر قرار دینے کی سخت سزا مقرر کی جائے اور اس حوالے سے خفیف ترین حرکت کو بھی انتہائی سمجھ کر اس پر کاری ضرب لگائی جائے۔یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی پر بدحواس ہونے، اپنے مُنہ پر طمانچے مارنے اور اپنے کپڑے پھاڑنے کی ضرورت نہیں۔ انتظامیہ پر بہتری کے لئے دبائو ڈالا جانا چاہئے لیکن اس کے (اور اپنے) حوصلے پست کرنے والی کسی زبان درازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ دشمن کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی نے اپنے امام کی ہدایت کے مطابق صبرو تحمل کا جو مظاہرہ کیا ہے اور جس پُرسکون انداز میں اپنے معمولات کو بحال کیا ہے، وہ پورے معاشرے کے لئے ایک مثال ہے۔ جو طاقت اور صلاحیت دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے استعمال ہونی چاہئے اُسے اپنے خلاف بھڑکانے سے بڑی حماقت کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved