تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-05-2015

بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو

کوئی زخم ایسا نہیں جو سیا نہ جا سکتا ہو، ملک کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں‘ جس کی گرہ کھولی نہ جا سکتی ہو۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: لیس للانسان الاّ ماسعیٰ۔ انسان کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں‘ جس کی اس نے کوشش کی۔ مگر یہ ہماری بیمار اشرافیہ ؎ 
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو 
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں 
چھ ماہ میں پاکستان ریلوے کی آمدن میں تیس فیصد اضافہ ہوا؟ چیخ چیخ کر شریف حکومت نے آسمان سر پہ کیوں نہ اٹھا لیا؟ ایک پل کی تعمیر پر کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کرنے والوں نے خاموشی کیوں اختیار کی؟ اس حکومت کا یہ مزاج ہی نہیں۔ 
حیران کن یہ ہے کہ وزیر اعظم کا دعویٰ بالکل درست ہے۔ یہ تو صحیح نہیں کہ خسارہ ختم ہوا‘ جیسا کہ انہوں نے کہا مگر سالِ رواں کے اختتام تک ہو سکتا ہے۔ بہت دنوں کے بعد معاشی محاذ پر ایک اچھی خبر ہے۔ سیاست کا ذکر نہیں۔ پرویز رشید ایسا نہ سہی‘ مگر سیاست میں سعد رفیق کا شعار بھی وہی ہے‘ بچگانہ اور تلخ۔ طالب علم لیڈر‘ ہمیشہ طالب علم لیڈر ہی رہتا ہے۔ 
معجزہ کس طرح رونما ہوا۔ ایک سال ہوتا ہے‘ جب عرض کیا تھا کہ ریل کے وفاقی وزیر کی ٹیم اگرچہ ناقص ہے‘ مگر حکمت عملی درست ہے۔ صورتِ حال اب بھی وہی ہے۔ نکتہ یہ تھا کہ آمدن مال گاڑیوں سے ہو سکتی ہے‘ مسافر ٹرینوں سے ہرگز نہیں۔ 
غلام احمد بلور کے زمانے میں مال گاڑیوں کی تعداد کتنی تھی؟... صفر! کرپشن روکنے کی کبھی کوئی تدبیر نہ تھی کہ وہ اس کا حصہ تھے۔ ریل کے انجن کم تھے؛ چنانچہ صرف مسافر گاڑیوں کو مہیا۔ تحقیق بسیار کے بعد جنرل کیانی نے ایک نسخہ تجویز کیا تھا۔ چینی انجن خریدنے کی بجائے جو ناپائیدار ہیں‘ نئے امریکی انجنوں کی بجائے جو مہنگے ہیں‘ کوریا سے ری کنڈیشنڈ انجن درآمد کیے جائیں‘ وہی امریکہ کے بنے ہوئے۔ دس ملین ڈالر کی بجائے‘ ایک ملین ڈالر میں۔ غلام احمد بلور اور ریلوے کے سیکرٹری کو انہوں نے مدعو کیا۔ اپنی معلومات اور مشورہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ بلور صاحب کو مگر کیا پروا تھی۔ ان کی ترجیحات اور تھیں‘ مزاج ہی اور! 
گزشتہ دو برس کے دوران ریلوے انجنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘ غیر معمولی اضافہ۔ دس بارہ مال گاڑیاں اب روزانہ کراچی سے لاہور پہنچتی ہیں۔ بازار میں چالیس فٹ طویل‘ جس کنٹینر کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتا ہے‘ پاکستان ریلوے اس کے لیے صرف ستر ہزار روپے وصول کرتی ہے۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ لوکوموٹو سے چلنے والی مسافر گاڑیاں ہوں یا بلٹ ٹرین‘ مسافر گاڑیوں سے آمدن خال ہی ہوتی ہے یا برائے نام۔ اکثر اوقات مال گاڑیوں کی آمدن ہی سے مسافروں کا بوجھ اٹھایا جاتا ہے۔ 
1980ء کے بعد پاکستان ریلوے کبھی ایک صحت مند ادارہ نہیں تھا۔ بیمار انتظامیہ‘ بیمار ٹریڈ یونین۔ آٹھویں عشرے کے وسط میں زیادہ شدت سے زوال کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخر آخر کو نوبت یہاں تک پہنچی کہ غلام احمد بلور ریل کے وزیر ہو گئے۔ صدر زرداری کی حکومت اور بلور ایسا وزیر۔ سونے پہ سہاگہ۔ شاہ محمود قریشی نے مجھ سے بیان کیا: زرداری صاحب سے میں نے عرض کیا: یوسف رضا گیلانی دھڑا دھڑ مال بنا رہے ہیں۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا کا جواب یہ تھا: تو اس میں کیا حرج ہے؟ شاہ محمود اس کے باوجود وزارت خارجہ سے چمٹے رہے۔ برہم ہوئے‘ جب ان کی وزارت تبدیل کی گئی۔ یوسف رضا گیلانی 
کے سب سے زیادہ معقول سمجھے جانے والے وزیر قمر زمان کائرہ سے پوچھا: بلور صاحب کا بوجھ آپ کب تک اٹھائے رکھیں گے؟ فرمایا: کیا کریں‘ اے این پی ہماری حلیف ہے۔ مطلب یہ کہ ملک برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے‘ حلیف کو ہم ناراض نہیں کر سکتے۔ اے این پی سے یہ گزارش بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کوئی دوسرا وزیر نامزد کر دے۔ بلور خاندان‘ اے این پی کا خزانہ ہے! 
یہ ہماری اشرافیہ ہے‘ ہماری کھالوں کے جوتے پہننے والی۔ نواز شریف بھی اسی کا حصہ ہیں۔ عمران خان کے برگد تلے اسی قماش کے لوگ براجمان ہیں۔ سعد رفیق بھی کوئی استثنیٰ نہیں مگر بالآخر ایک کارنامہ انہوں نے کر دکھایا ہے تو اس کی تحسین نہ کرنا‘ بخل کے مترادف ہو گا۔ 
حیران کن باتیں بہت سی ہیں۔ دس ارب روپے کی تین ہزار ایکڑ قیمتی زمین بازیاب کرا لی گئی۔ مثلاً یہ کہ ریلوے کے گاہک مطمئن ہیں۔ پاک فوج ان میں شامل ہے اور پاک فضائیہ بھی۔ دس برس کے بعد ریلوے بورڈ بحال کر دیا گیا ہے اور فعال ہے۔ 
زرداری حکومت نے ریل کو اس حال میں چھوڑا تھا کہ ڈیزل بازار سے ادھار لیا جاتا یا نقد ادائیگی پر۔ اب تیرہ دن کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔ سالِ رواں کے آخر تک یہ استعداد 30 دن تک کے لیے بڑھائی جا سکتی ہے۔ پاکستان ریلوے کی استعداد کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کے نہری نظام کی طرح‘ جس کی مثال ساری دنیا میں نہیں‘ کبھی وہ ایک قابل رشک ادارہ تھا‘ جسے بے حس حکومتوں‘ بلور ایسے وزیروں اور ریل کے افسروں نے تباہ کر دیا۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات سے تاثر یہ ابھرتا ہے کہ سعد رفیق سارا وقت سیاست میں صرف کرتے ہیں۔ بالکل برعکس‘ ریل گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے انہوں نے غیر معمولی ریاضت کی۔ سب سے زیادہ تعجب خیز یہ کہ اپنی وزارت کی حد تک ان کا دامن آلودگی سے پاک ہے۔ شاید یہ ارذل عمر کا نتیجہ تھا کہ بلور صاحب بے نیاز تھے۔ 
جنرل منیجرجاوید انور کو ایک اہل اور ایماندار آدمی سمجھا جاتا ہے؛ البتہ سعد رفیق کے مشیر انجم پرویز کا تاثر خراب ہے۔ اسی طرح سیکرٹری ہمایوں رشید کا بھی۔ ایک بار تو انہیں تقریباً حالتِ رکوع میں دیکھا گیا۔ 
کیا ریل میں کرپشن کا خاتمہ ہو چکا؟ جی نہیں‘ اندازہ ہے کہ صرف اسلام آباد کی ڈرائی پورٹ پر ایک ارب روپے سالانہ کا گھپلا ہوتا ہے۔ لاہور‘ کراچی اور پشاور میں اس کے سوا۔ بعض افسروں کا خیال ہے کہ دس ارب روپے سالانہ سے زیادہ ہے۔ ہر ڈرائی پورٹ پر کسٹم اور ریل کا ایک ایک افسر تعینات ہوتا ہے۔ کسٹم والوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ رہتا ہے اور ریل کا ڈیڑھ صدی پہلے کی طرح رجسٹروں میں۔ اسلام آباد ڈرائی پورٹ میں مارچ 2015ء کا ریکارڈ دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کسٹم کے مطابق 413 کنٹینر اسلام آباد پہنچے۔ ریل کے مطابق 162۔ ٹھیکیدار افسرانِ کرام کا منظور نظر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 
ریل کے باخبر اور نیک نام افسروں کا کہنا یہ ہے کہ بدعنوانی کے وہ مرتکب نہیں مگر کسی بھی دوسرے لیڈر کی مانند خوشامد ان کی کمزوری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی لاہوری ٹیم بہت اچھی ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ خود لاہوری ہیں۔ باقی شہروں میں ناقص اور کمتر۔ ظاہر ہے کہ ایک وسیع و عریض ادارے کو تنہا وفاقی وزیر سنبھال اور سنوار نہیں سکتا‘ جو کبھی ایک طالبعلم لیڈر تھا۔ بہت سے مردانِ کار کی ضرورت ہے۔ ان کا انتخاب کرنے کے لیے ایک شائستہ اور معقول نظام کی۔ کہا جاتا ہے کہ وفاقی وزیر کی موجودہ ٹیم انہیں غیر ضروری چیزوں میں الجھائے رکھتی ہے۔ وہ ایک بہت ہی متحرک آدمی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ سب کچھ سمجھ نہیں سکتے۔ دو سال کے مختصر عرصے میں ان گنت شعبوں پر مشتمل اس پیچیدہ نظام کا ادراک ممکن ہے اور نہ افسران کرام کے کردار کا‘ عشروں سے جاری زوال کے سفر نے‘ جن کے مزاجوں میں غیر معمولی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ریل کا مرض مزمن ہے۔ یہی غنیمت ہے کہ سعد رفیق اسے دلدل سے نکال لائے ہیں۔ سب سے بڑا کارنامہ شاید یہ ہے کہ ریل کی وحشت انگیز ٹریڈ یونین کو انہوں نے رام کر لیا۔ ان میں سے کچھ مطمئن ہیں‘ کچھ خوف زدہ۔ یہ بجائے خود ایک دلچسپ موضوع ہے۔ پاکستان ریلوے ٹریڈ یونین کی تاریخ پر درجن بھر فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔ لنکا میں سبھی باون گز کے گزرے ہیں‘ اور اب بھی ہیں۔ 
کبھی کسی کا لحاظ نہ کرنے والے ایک باخبر افسر نے کہا: ریل کا وزیر جنگی بنیادوں پر بروئے کار ہے۔ بلیک میل ہونے سے اس نے انکار کر دیا ہے۔ حاصل کلام کیا ہے؟ کوئی زخم ایسا نہیں جو سیا نہ جا سکتا ہو، ملک کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں‘ جس کی گرہ کھولی نہ جا سکتی ہو۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: لیس للانسان الاّ ماسعیٰ۔ انسان کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں‘ جس کی اس نے کوشش کی۔ مگر یہ ہماری بیمار اشرافیہ ؎ 
بدل دیا نہ اگر آدمی نے دنیا کو 
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved