تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-05-2015

ملتانیو! صبر کرو

یہ انسانی فطرت ہے کہ ماضی کی تلخیاں کبھی اس طرح یاد نہیں رہتیں جس طرح ماضی کی حسین ساعتیں یاد رہتی ہیں۔ یہ قدرت کا خوبصورت انتظام ہے۔ آج کے بُرے دن میں سے ایک خوبصورت اور حسین گزرا ہوا کل نکالنا، میرے خالق کا خاص کرم ہے‘ وہ خوبصورت ماضی کو مزید خوش رنگ کرتا اور ماضی کی تلخیوں کو وقت کے ساتھ ساتھ دھندلا کر دیتا ہے۔ 
میرا آج خوش رنگ ہے اور بے شمار نعمتوں، خوشیوں اور آسانیوں سے لدا ہوا ہے۔ ایسی آسانیاں، خوشیاں اور نعمتیں جن کا میں جتنا شکرادا کروں کم ہے‘ لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ان تمام تر آسائشوں کے باوجود میں ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو عجیب بے کلی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اے سی نہیں تھا، کار نہیں تھی، انگریزی میڈیم سکول نہیں تھا۔ کار نہیں تھی تو ڈرائیور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فاسٹ فوڈ، برانڈڈ کپڑے اور شاپنگ مال نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، سمارٹ فون، پی ایس فور وغیرہ خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔ وائی فائی کا نام کبھی نہیں سنا تھا؛ بلکہ شاید تب تک اس لفظ کا وجود ہی نہ تھا۔ پہلی بار ٹیلی ویژن نامی چیز کو جس طرح دیکھا وہ بذات خود ایک واقعہ ہے۔ 
ملتان میں جشن ملتان منایا جاتا تھا۔ ہر سال قلعہ کہنہ قاسم باغ کی سرکلر روڈ سے متصل سائیڈ پر صنعتی نمائش لگتی تھی۔ یہ جگہ لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں کم تھی اس لئے نمائش کافی دور تک جاتی تھی۔ درمیان میں تھوڑی سی جگہ کھلی ہوتی تھی۔ ایک بار یہاں آٹھ ضرب دس فٹ کا کمرہ بنایا گیا... دو طرف دیواریں ایک طرف دروازہ اور سامنے شیشہ تھا۔ یہ ٹیلی ویژن سٹوڈیو تھا۔ یہ صدر ایوب خان کا زمانہ تھا اور جنرل موسیٰ خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ یہ غالباً 1967/68ء کا زمانہ تھا۔ تب میں سات آٹھ سال کا تھا مگر مجھے یہ منظر آج تک یاد ہے... شیشے لگے کمرے میں ایک گلوکارہ گا رہی تھی، غالباً یہ اقبال بانو تھیں۔ کمرے سے بیس پچیس فٹ دور آٹھ دس فٹ اونچے ستون پر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن رکھا ہوا تھا جس کی سکرین پر کمرے کا منظر دکھایا جا رہا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کمرے کے سامنے لگے ہوئے شیشے میں سے رنگین کپڑوں میں ملبوس اقبال بانو نظر آ رہی تھیں مگر شیشے کے سامنے رش کم اور بلیک اینڈ وائٹ فلم دکھانے والے اس ڈبے کے سامنے زیادہ تھا۔ میں بھی اسی ڈبے کے سامنے رش میں لوگوں کے درمیان پھنسا کھڑا تھا۔ میرا بڑا بھائی مرحوم مجھے پہلے تو اوپر کھینچ کر یہ منظر دکھانے کی کوشش کرتا رہا‘ پھر اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا۔ بھائی واپس جانے لگا تو میں نے کہا ابھی تھوڑی دیراور رک جائو۔ میرے لئے یہ حیران کن منظر تھا۔ اب ایسی حیرت اور خوشی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لاہور میں ٹیلی ویژن شروع ہوئے تین چار سال ہو چکے تھے۔ میں اپنے تایا مرحوم کے گھر ٹیلی ویژن کئی بار دیکھ چکا تھا مگر یہ تصور کہ سامنے والے کمرے کی لائیو پرفارمنس ادھر ستون پر رکھے ہوئے ٹیلی ویژن میں نظر آ رہی ہے‘ ایک عجب مزا دے رہی تھی۔ یہ مزا اب بھی دل میں خوشی کی اک لہر سی دوڑا دیتا ہے۔ 
ریڈیو پاکستان ملتان میں پہلی بار میراجانا 1971ء میں ہوا جب میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ کوئز مقابلہ تھا اور ملتان سے چار پانچ سکولوں کے طالب علم اس میں حصہ لینے کے لئے آئے تھے۔ ہر سکول سے دو طلبہ پر مشتمل ٹیم تھی۔ میرا کسی کوئز مقابلے میں شرکت پہلا موقع تھا۔ میں اس وقت بارہ سال کا تھا اور گھبرایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں تھوڑا پرسکون ہو گیا۔ اس مقابلے میں میری پہلی پوزیشن تھی۔ اس کے بعد کئی دفعہ ریڈیو سٹیشن جانا ہوا۔ اسی دوران میں نے وہاں سلیم گردیزی کو دیکھا، ثریا ملتانیکر سے ملاقات ہوئی بلکہ ملاقات بھی کیا ہوئی آتے جاتے راہداری میں انہیں دیکھا اور انہوں نے شفقت سے ہر بار سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر ریڈیو سے آواز کارشتہ قائم ہوا‘ خاص طور پر ملتان ریڈیو سے شام کو نشر ہونے والا پروگرام محفل غزل۔ ہمارے گھر ''پائی‘‘ کا ریڈیو تھا۔ اس میں سبز رنگ کی میجک لائٹ تھی جو سٹیشن کے ٹیون ہونے پر درمیان سے مل جاتی تھی۔ تب اس ریڈیو پر بڑے بھائی مرحوم ریڈیو سیلون سنتے تھے۔ رات کو والد صاحب بی بی سی سنتے۔ ریڈیو لاؤنج میں ہوتا تھا۔ لاؤنج تو میں کہہ رہا ہوں‘ وہ ایک بڑا کمرہ تھا جو گھر کے درمیان میں تھا۔ ہم سب اسے ہال کمرہ کہتے تھے۔ اس کے ایک کونے میں بجلی کے سوئچ بورڈ کے نیچے میز پر یہ ریڈیو پڑا ہوتا تھا۔ کیا زمانہ تھا‘ ریڈیو سننا خوشی دیتا تھا۔ غزل سننا ایک عیاشی تھی۔ یہ خوشی اور عیاشی ہم سے صرف ریڈیو کا سوئچ آن کرنے کی دوری پر ہوتی تھی۔ 
ملتان میں ٹی وی نشریات ستر کی دہائی میں شروع ہوئیں‘ جب ملتان کے قریبی قصبے لاڑ میں ٹی وی بوسٹر لگا اور ایک ہائی پاور ٹرانسمیٹر نصب ہوا۔ قومی نشریاتی رابطے کے طفیل پانچوں ٹی وی سٹیشن اور ان کے پروگرام آپس میں منسلک اور مربوط ہو گئے۔ بعدازاں سیٹلائٹ کے ذریعے سب کچھ ایک ہو گیا۔ ملتان میں علیحدہ ٹی وی سٹیشن کا مطالبہ بڑا پرانا تھا اور جنوبی پنجاب میں خاص طور پر سرائیکی زبان کے حوالے سے مقامی پروگرامز کے سلسلے میں یہاں کے عوام اور دانشور بڑا شور مچا رہے تھے۔ صدر پرویز مشرف نے نمبر ٹانکنے کی غرض سے 8 مارچ 2008ء کو ریڈیو پاکستان ملتان کی عمارت میں ٹی وی سٹیشن کا آغاز کر دیا مگر عملی طور پر صفر جمع صفر والا معاملہ تھا۔ چند دن بعد 25 مارچ کو یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم پاکستان عہدہ سنبھالا اور چند دن بعد ہی ملتان میں ٹی وی سٹیشن فعال کرنے کا حکم فرمایا۔ اپریل کے آخر میں یوسف بیگ مرزا جو پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے‘ نے ہنگامی بنیادوں پر ملتان ریڈیو سٹیشن کی عمارت میں ملتان ٹی وی سٹیشن کا آغاز کروایا۔ یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں ٹی وی کی عمارت بنوانی شروع کر دی۔ 30 دسمبر 2011ء کو اس ٹی وی سٹیشن نے ورکنگ سٹیشن کے طور پر خبریں اورحالات حاضرہ اور مقامی سطح پر تیار کئے گئے پروگرام نشر کرنا شروع کر دئیے۔ گیلانی صاحب کے فارغ ہوتے ہی پہلا کام تو یہ ہوا کہ ملتان میں پی ٹی وی کی واحد ڈی ایس این جی وین لاہور منگوا لی گئی۔ لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے افسروں کا کہنا تھا کہ ملتان میں اس وین کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی جواز۔ ملتان میں دیگر تمام پرائیویٹ چینلزکے پاس اپنی اپنی ڈی ایس این جی وین موجود ہے۔ وی آئی پیز کی ملتان آمد کے موقع پر لاہور سے یہ وین منگوائی جاتی ہے اور ان کے ساتھ ہی واپس چلی جاتی ہے۔ 
جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں اسلام آباد سے ہدایت آئی کہ یہاں ورلڈ کپ کے سلسلے میں ایک میگا شو کرنا مقصود ہے‘ لہٰذا ملتان ٹی وی سٹیشن پر موجود کل پانچ کیمرے اسلام آباد بھجوا دئیے جائیں۔ سو یہ پانچوں کیمرے اسلام آباد بھجوا دئیے گئے۔ آج ساڑھے تین ماہ ہو گئے ہیں‘ یہ کیمرے واپس ملتان نہیں آئے۔ شکر ہے‘ یہ کیمرے دھرنے اور ٹی وی پر حملے کے بعد گئے تھے وگرنہ یہ کہہ کر فارغ کر دیا جاتا کہ حملہ آور یہی والے کیمرے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ اسلام آباد سے ایک آثار قدیمہ ٹائپ کیمرہ ملتان بھجوایا گیا جو کبھی آن ہی نہیں ہوا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی ملتان سٹیشن عملی طور پر بند ہے۔ نہ کوئی پروگرام ریکارڈ ہو رہا ہے‘ نہ لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے‘ ریکارڈنگ ہو رہی ہے نہ ہی مقامی پروگرام آن ایئر جا رہے ہیں۔ پانچ سال پرانے پروگرام دہرائے جا رہے ہیں۔ دنیاآگے جا رہی ہے‘ نئی حکومت کے دور میں ہم زمانہ قدیم کی طرف گامزن ہیں۔ 
ریڈیو پاکستان ملتان کا آغاز 1970ء میں ہوا تو یہاں ایک سو بیس کلوواٹ کا ایک ہزار پینتیس کلو ہرٹز پر مشتمل ہائی پاور ٹرانسمیٹر تھا۔ اس میڈیم ویو فریکوئنسی کے ریڈیو سٹیشن کی نشریات دنیا بھر میں سنی جاتی تھیں‘ خاص طور پر سرائیکی زبان میں نشر ہونے والے پروگرامز سننے والے دنیا بھر میں اس کی نشریات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ایف ایم ریڈیو کا آغاز ہوا۔ بلاتکان، مسلسل، بغیر سوچے اور نان سٹاپ گفتگو کرنے والوں نے ایک نیا ریڈیو کلچر متعارف کروا دیا۔ یہ سہولت کسی طور پر میڈیم ویو پر چلنے والے روائتی ریڈیو پروگرامز کی متبادل نہیں تھی۔ اول تو اس کی نشریات چالیس پچاس کلومیٹر کے دائرے تک محدود ہیں دوسرا یہ کہ دور دراز کے دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں میڈیم ویو نشریات کے علاوہ اور دوسرا کوئی ریڈیائی ذریعہ ہی نہیں کہ وہاں کے عوام ریڈیو جیسی مقبول چیز سے تعلق قائم رکھ سکیں۔ 
ملتان کے ریڈیو سٹیشن کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر عرصہ ہوا بند ہے۔ حکمرانوں کو یہاں میٹرو کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی ملتان سٹیشن کی عمارت موجود ہے، عملہ حاضر ہے، خرچہ جاری ہے مگر عملی طور پر سٹیشن بند ہو چکا ہے کہ سارے کیمرے اسلام آباد میں ہیں۔ یہی حال ریڈیو سٹیشن کاہے۔ عمارت موجود ہے، عملہ حاضر ہے، خرچہ جاری ہے مگر ٹرانسمیٹر خراب ہے اور عرصے سے خراب ہے، اس کے ساتھ ہی میرے بچپن کی یادیں اپنی موت آپ مر گئی ہیں۔ 
ایک دوست نے کہا کہ آپ اپنے دوست پرویز رشید سے جو متعلقہ معاملات کے وزیر ہیں‘ کیوں بات نہیں کرتے؟ میں نے کہا انہیں فی الوقت صرف ایک کام سے غرض ہے اور وہ ہے عمران خان کے خلاف بیانات جاری کرنا۔ بہاولپور سولر پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے مشیر صاحب پہلی قطار میں اور وفاقی وزیر پانچویں قطار میں بیٹھے تھے۔ مجھے تبھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی عملی پاور کس حد تک ہے اور وہ اپنے اختیارات کا کتنا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ملتانیو! صبر کرو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved