ہمارے محبوب دوست اور اداکارہ ریما فیم‘ میاں ذوالقرنین کل شام آ گئے۔ ساتھ ایک کرنل صاحب بھی تھے۔ ذوالقرنین نے کافی عرصہ امریکہ میں رہ کر پہلے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کوئی چھ ماہ ضائع کیے اور اب یہاں یونیورسٹی آف سائوتھ ایشیا میں غالباً اردو کے صدرِ شعبہ ہیں۔ ریما کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آپ اداکارہ کے عرصۂ دراز سے غائبانہ عاشق چلے آ رہے ہیں‘ بلکہ تھے۔ کئی سال پہلے ان کے ساتھ تعارف (ذوالقرنین کے ساتھ‘ ریما کے ساتھ نہیں) ہمارے جگری دوست میاں جاوید اقبال ارائیں ایڈووکیٹ کے ذریعے ہوا تھا۔ زبردست اختراعی ذہن کے مالک ہیں اور میرا خیال ہے کہ تھوڑی کوشش کریں تو ایٹم بم بھی بنا سکتے ہیں۔
یہاں قیام کے دوران انہوں نے ایک پروجیکٹ تیار کیا تھا جس کا مقصد نام نہاد سیاسی یعنی جمہوری حکومت سے پیچھا چھڑانا تھا۔ اور اگر انہیں امریکہ سے کال نہ آ جاتی تو اس وقت کی حکومت اب تک تاریخ کا حصہ بن چکی ہوتی۔ بہرحال وہ امریکہ سے آتے جاتے اور اس طرح کے منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن کسی نہ کسی مجبوری کے آڑے آ جانے کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اب بھی ان کے ارادے کوئی
کم خطرناک نہیں ہیں اور ایک منصوبہ تیار ہے جس میں خاکسار کے علاوہ مختار مسعود‘ منو بھائی اور عطاء الحق قاسمی سمیت کچھ ادیب شامل ہیں جن کے ساتھ ابتدا میں‘ الگ الگ اور پھر ان سب کو یکجا کر کے ان کے ویڈیو انٹرویو لیے جائیں گے جو ان کے بقول ایک تاریخی کارنامہ ہوگا‘ بشرطیکہ حسب سابق کوئی مجبوری آڑے نہ آ گئی جو کہ عموماً آتی رہتی ہے!
مجھے دعوت دی ہے کہ آپ ہماری یونیورسٹی کو وزٹ کریں‘ بلکہ گاہے بگاہے باقاعدگی سے آتے رہیں تاکہ وہاں طلباء و طالبات آپ سے کچھ سیکھ سکیں (یہ بھی اُن کا خیال ہی ہے!) چنانچہ اپنی مخدوش صحت کے حوالے سے یہ کام کافی خطرناک لگا لیکن ہمت اس لیے باندھ لی کہ میری ریکی ڈاکٹر رفعت عرفان صاحبہ کے مطابق آپ کو اب گھر سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ جب تک آپ زیادہ سے زیادہ چلیں پھریں گے نہیں‘ تب تک ریکی پورے طور پر اثر نہیں کرے گی۔ ریکی فزیو تھراپی ہی کا ایک طریقِ کار ہے جو جاپانیوں کی ایجاد ہے جن کے بقول ہوا اور فضا میں جو انرجی موجود
ہے‘ اسے ذہنی ارتکاز کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے‘ جو سر وغیرہ کو ہاتھوں کی گرمی پہنچانے سے ممکن ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں ممتاز فکشن رائٹر‘ اکادمی ادبیات لاہور شاخ کے ڈائریکٹر‘ اور ہمارے دوست جناب عاصم بٹ نے دعوت دی کہ وہ لوگ ایک سیمینار اور پاکستان کی تمام زبانوں کا مشاعرہ کروا رہے ہیں جس میں اکادمی کے نئے چیئرمین بھی شرکت کریں گے۔ ان کے ساتھ آپ کی ملاقات بھی ہو جائے گی اور وہ 11 مئی کی شام کو آ کر مجھے بحفاظت تمام لے جائیں اور پھر (ظاہر ہے کہ) واپس بھی چھوڑ جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحبہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ضرور جائیں کہ یہ چلنا پھرنا بھی آپ کے علاج کا حصہ ہے‘ بلکہ جب آپ وہاں ہوں گے تو میں Distant ریکی کے ذریعے آپ کو سہارا بھی دوں گی‘ لیکن ڈاکٹر عمران منظور‘ جنہوں نے میرے پائوں کی ایڑی کا آپریشن کیا تھا‘ کے نزدیک اگر احتیاط ہی کی جائے تو بہتر ہے؛ چنانچہ موصوف سے معذرت کر لی حالانکہ ان کی بات ٹالنا میرے لیے کچھ زیادہ آسان نہ تھا۔ البتہ میں نے ذوالقرنین کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ میرے پاس لوگوں کی بھیجی ہوئی بہت سی کتابیں موجود ہیں جو میں آپ کی لائبریری کو عطیہ کردوں گا۔ وہ اس لیے کہ میرے بعد یہ کتابیں کس نے پڑھنی ہیں‘ کیونکہ میرے پوتوں پوتیوں کا عالم یہ ہے کہ انگلش سکولوں نے ان کی اردو کو پنپنے ہی نہیں دیا‘ اور کلاس میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان سے اکثر کہا جاتا ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ آپ لوگ ظفر اقبال کے پوتے پوتیاں ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اردو کتابوں کی آزمائش میں انہیں نہ ہی ڈالا جائے۔ ویسے بھی لائبریری میں تو یہ کتابیں بہت سوں کے کام آ سکتی ہیں‘ گھر میں پڑی دیمک ہی کی خوراک بنیں گی۔ ذوالقرنین نے یہ آئیڈیا بے حد پسند کیا‘ اور اب میں نے کسی دن انہیں فون پر بتانا ہے کہ وہ کب آ کر مجھے لے جائیں۔ اگر ایک بار میں نے راستہ دیکھ لیا تو پھر خود بھی جا سکا کروں گا۔
میں نے موصوف کے ساتھ اس لیے بھی ہاں کردی کہ میں خود بھی انہیں ایسے ہی کاموں تک محدود کرنا چاہتا تھا‘ بجائے اس کے کہ وہ حسب سابق کوئی مزید خوفناک منصوبہ بنا کر مجھے بھی اس میں شامل کر دیں اور کہیں لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں کیونکہ آپ اپنے ذہن رسا کو ایک لمحے کے لیے بھی فارغ نہیں رہنے دیتے بلکہ اس کا بہتر حل اس طرح نکالتے ہیں کہ کسی نہایت کارآمد منصوبے پر کام شروع کردیں (جو ان کی دانست میں کارآمد ہوتا ہے) چنانچہ اب کالم وغیرہ لکھنے اور اس طرح کی دیگر لایعنی مصروفیات کے علاوہ میری ایک ڈیوٹی یہ بھی ہے کہ میں موصوف کو کسی نہ کسی آہرے لگائے رکھوں تاکہ خلق خدا ان کے اصل منصوبوں سے بچی رہے‘ اور ظاہر ہے کہ یہ کام‘ اپنے سیاسی رہنمائوں کی طرح میں بھی خدمتِ خلق ہی کے جذبہ کے تحت کرتا ہوں (حالانکہ خلق کا اس کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا) خدمت تو بہت دور کی بات ہے۔
آج کا مقطع
جہاں جہاں مرے عیبوں کی آندھیاں ہیں‘ ظفرؔ
وہیں میں لے کے چراغِ ہُنر بھی آتا ہوں