تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-05-2015

سَلّو بھائی کا نیا سیزن

اپنے سَلّو بھائی یعنی سلمان خان بالی وڈ کی پگڑی میں ہیرے کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ویسے تو وہ خیر اداکار ہیں ہی مگر ''اداکاری‘‘ میں بھی ان کا جواب نہیں۔ اور تو اور، ان کے پرستار بھی اب تک سمجھ نہیں پائے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ اور کتنے فنون میں طاق ہیں۔ جب سے بالی وڈ میں قدم رکھا ہے، سَلّو بھائی نے ثابت کیا ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح خبروں میں رہنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ تنازعات کو جنم دیتے رہنا فلمی دنیا کے لوگوں کا بنیادی وتیرہ ہوتا ہے۔ اسے ان کی مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس ایک ہنر ہی کے بل پر وہ خبروں میں رہتے ہیں۔ 
سَلّو بھائی کو کسی نہ کسی قضیے کا ٹوکرا سر پر سجائے پھرنا اچھا لگتا ہے۔ چند برس قبل راجستھان میں ان کے خلاف کمیاب نسل کے کالے ہرن کا شکار کرنے کا مقدمہ درج ہوا۔ کالے ہرن کے شکار پر حکومت نے سخت پابندی عائد کر رکھی ہے۔ کالے ہرن تو ہاتھ نہ آسکے، ہاں جنگلی حیات کے تحفظ پر مامور وزارت اور اداروں نے سَلّو بھائی کو آن دبوچا۔ اس مقدمے کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے سَلّو بھائی خاصا وقت ضائع کرچکے ہیں۔ 
اس سے قبل سَلّو بھائی سے ایک حادثہ سرزد ہوگیا تھا۔ انہوں نے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے لوگوں پر گاڑی چڑھادی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نشے میں دُھت تھے اور موقع سے فرار بھی ہوئے۔ اس پر ان کے خلاف ''ہٹ اینڈ رن‘‘ یعنی مار کر بھاگ جانے کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران سَلّو بھائی کو کئی بار ضمانت پر رہائی ملی۔ عام خیال یہ تھا کہ وہ سزا سے بچ جائیں گے‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ بھارت کے عدالتی نظام نے جب سنجو بابا (سنجے دت) کو نہ بخشا تو سَلّو بھائی کو کیسے چھوڑ دیتا؟ مقدمے کی کارروائی مکمل ہوئی اور سَلّو بھائی کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 
بالی وڈ میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ سَلّو بھائی کے جیل جانے کی صورت میں کم و بیش 200 کروڑ روپے داؤ پر لگنے کا احتمال تھا۔ بالی وڈ میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ جب کسی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو سب مل کر اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اگرچہ مفادات کے تحت ہوتا ہے مگر اس معاملے میں مذہب، زبان اور نسل وغیرہ کا فرق نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بالی وڈ ایک باضابطہ صنعت ہے۔ سب یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی کیے جانے سے صنعت پر کیا اثر پڑے گا۔ یعنی سب کی نظر باٹم لائن پر ہوتی ہے، باقی سب تو مایا ہے۔ 
سَلّو بھائی کو سزا سنائی گئی تو بالی وڈ میں سبھی پریشان ہو اٹھے۔ سوال صرف سَلّو بھائی کی فلموں کے داؤ پر لگنے کا نہ تھا۔ اس سے کہیں بڑھ کر یہ بات تھی کہ ایسے فیصلوں سے پوری فلمی صنعت کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے۔ عدالت نے سزا سناتے وقت سَلّو بھائی کو گرفتار کرنے کے بجائے دو دن کی ضمانت بھی دی تاکہ وہ اپنے شعبے کے لوگوں سے مل سکیں اور رکے ہوئے کام نمٹاسکیں۔ دو دن گزرے تو بہت سے بدخواہوں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں کہ اب سَلّو بھائی گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جائیں گے۔ اے وائے ناکامی کہ ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ 
سَلّو بھائی کی سزا کا مؤخر کیا جانا اور ان کی گرفتاری سے گریز نام نہاد ''روحانی پیشوا‘‘ آسا رام باپو کے سینے پر تو جیسے سانپ بن کر لوٹ گیا ہے۔ وہ اپنا رونا رو رہے ہیں کہ بیس ماہ میں ان کی ضمانت منظور نہ ہوسکی اور اِدھر سَلّو بھائی کی ضمانت محض بیس منٹ میں منظور کرلی گئی۔ آسا رام خاصے نراش ہیں اور ساتھ ہی وہ سَلّو بھائی پر بھی غصہ نکال رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب ضمانت پر رہائی کے لیے بالی وڈ اسٹار سے کالا جادو سیکھنا پڑے گا۔ 
آسا رام بھی کمال کرتے ہیں۔ ان سے بڑھ کر کون کالا جادو جانتا ہوگا؟ سَلّو بھائی تو فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے ایک شخص کو کچل ڈالنے کے الزام کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ آسا رام پر تو اپنی ایک جواں سال عقیدت مند کو ''کچلنے‘‘ کا الزام ہے۔ سلمان خان کو گرفتار کرنے سے گریز اس لیے کیا گیا ہے کہ ان سے بہرحال کسی کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں۔ آسا رام باپو اس لیے اندر ہیں کہ اگر انہیں ان کے آشرم میں آزاد رہنے دیا جاتا تو کئی اور عقیدت مند ''کچلے‘‘ جانے کا رونا روتی پائی جاتیں! 
آسام رام کے کون سے سیزن چلتے ہیں؟ سَلّو بھائی تو کئی سال سے بگ باس کا سیزن چلا رہے ہیں۔ اس بار بھی وہی بگ باس بن کر کروڑوں پرستاروں کو ایڈیٹ باکس میں درشن دینے والے تھے۔ بگ باس کا نیا سیزن تو سَلّو بھائی شاید نہ چلا پائیں۔ مگر ہاں، پانچ سال کی سزا پر عمل مؤخر کردیئے جانے سے ان کا ایک نیا سیزن ضرور شروع ہوا ہے۔ فلمی دنیا میں سبھی سانسیں روکے سَلّو بھائی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ ان کی سزا پر عمل کب تک مؤخر رہتا ہے اور وہ کب تک سلاخوں سے دور رہ کر کیمروں اور لائٹس کی قربت میں شب و روز بسر کرپاتے ہیں! بالی وڈ والوں نے خاصا بے آواز دباؤ ڈال کر عدالتی نظام کو سَلّو بھائی کے خلاف کچھ کرنے سے فی الحال مجتنب رکھا ہے۔ یہ سَلّو بھائی اور ان کے کروڑوں پرستاروں کے لیے تو یقیناً خوشی کی بات ہے مگر آسا رام اور ان جیسے دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے جان لیوا قسم کے دردِ سَر سے کم نہیں۔ جب تک سَلّو بھائی سلاخوں کے پیچھے نہیں نظر نہیں آئیں گے، ان سب کے دل کو تو قرار میسر نہ ہوسکے گا۔ سَلّو بھائی کے 
کیریئر کا یہ انوکھا سیزن انہیں مشکلات سے دوچار دیکھنے کی تمنا رکھنے والوں کے لیے تو مستقل عذاب کی صورت ہے۔ عدالت نے فلمی دنیا کے مفاد کو مقدم رکھا، ان بدخواہوں اور حاسدوں کی دلی مراد کا کچھ خیال نہ کیا، ایک اچٹتی سی نظر بھی نہ ڈالی۔ سچ ہے قانون اندھا ہوتا ہے! 
سَلّو بھائی کو جموں و کشمیر کی یخ بستہ وادی میں شوٹنگ کرتا دیکھ کر بے چارے آسا رام مئی کی گرمی میں حسد کے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ عدلیہ کو ان کی بے چینی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ بیس ماہ سے ضمانت کے لیے تڑپ رہے ہیں مگر ضمانت ہے کہ منظور ہوکر نہیں دے رہی۔ اداکار تو خیر وہ بھی ہیں اور اب تک لوگوں کو روحانی تسکین دینے کے نام پر اپنی کامیاب اداکاری ہی سے بہلاتے آئے ہیں مگر بھئی وہ کوئی بالی وڈ کے اسٹار تو ہیں نہیں کہ عدالت انہیں سزا سناتے وقت ایک بڑی صنعت کے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھے! اور پھر یہ بات بھی ہے کہ جب سے وہ اس کیس میں پھنسے ہیں، کسی گیان دھیان کی سبھا سجانے والے کسی ایک بھی مہا پُرش نے آسا رام کی حمایت میں ڈٹ کر کچھ کہنا اور سڑک پر آنا گوارا نہیں کیا! اور دوسروں سے کیا توقع، کیس کی نوعیت دیکھتے ہوئے خود ان کے عقیدت مند بھی چُپّی سادھے ہوئے ہیں!
جو لوگ اپنی روحانی تسکین کے لیے ان کے پاس آیا کرتے تھے اور دکھ دور کرنے کے لیے منتر لے جایا کرتے تھے وہی اب مل کر کوئی کام کا وظیفہ آسا رام جی کو بتائیں تاکہ ضمانت کی درخواست منظور ہو اور وہ سلاخوں سے اِس طرف آ پائیں! تب تک ہم سَلّو بھائی کا نیا سیزن انجوائے کرتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved