تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-05-2015

کب تک؟

جنرل صاحب کا ارشاد بجا مگر ایک چیز حکمت بھی ہوتی ہے۔ بارِدگر سوال یہ ہے کہ فوج کتنا بوجھ اٹھائے گی اور کب تک اٹھائے رکھے گی؟
جنرل نوید مختار کے خطاب پر تاثرات مختلف ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ انہیں اس سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ سیاسی کشیدگی جنم لے گی اور ممکن ہے کہ بڑھتی رہے۔ اکثریت کا ردعمل یہ ہے کہ فوجی افسر کی تقریر سے کنفیوژن کا خاتمہ ہو گیا۔ کراچی میں مقیم ایک دوست نے جو کبھی ایک ممتاز اخبار نویس تھے اور اب مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں‘ پرسوں شام بہت جوش و خروش سے مطلع کیا کہ قیام امن کے لیے عسکری قیادت کے عزم میں کمی نہیں آئی۔ اس پر وہ شاد تھے۔
کراچی شہر میں رینجرز کا کردار بڑھا تو ایک فوجی افسر سے پوچھا: سندھ رینجرز کے سربراہ‘ جنرل رضوان کس کو رپورٹ کریں گے؟ ان کا جواب یہ تھا: ظاہر ہے کہ جنرل کیانی کو۔ اب تو رینجرز کے اختیارات اور بھی زیادہ ہیں۔ اپیکس کمیٹی قائم ہو چکی اور فعال ہے۔ اس پر عمر فاروق اعظمؓ کا قول یاد آتا ہے: ایک اونٹ کو دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں۔
کپتان ایک ہوتا ہے مگر کراچی میں کئی ہیں۔ سابق صدر جناب آصف علی زرداری‘ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور ''ادی‘‘۔ متوازن طور پر ایم کیو ایم کا اقتدار بھی کارفرما ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ وہ فیصلے صادر کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سوں کو ماننا پڑتا ہے۔ قانونی اگرچہ نہیں‘ مگر وہ قوتِ نافذہ کے مالک ہیں اور اس کی یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ حکومت سندھی جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے اور ان میں سے بعض کو کراچی سے کوئی تعلق نہیں۔ سابق وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو نے کہا تھا: میری سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت منتقل کردیا جائے۔
جنرل نوید مختار جب یہ کہتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے غیر فعال ہونے سے جو خلا پیدا ہوا‘ اسے مافیاز نے پُر کیا تو وہ ایک اور تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لفظ چبائے بغیر انہوں نے کہا: ان میں سے بعض شہری سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا معاوضہ بھی وصول کرتی ہیں۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایک سابق چیئرمین نے اس اخبار نویس کو بتایا: کنڈے بہت ہیں‘ ہزاروں کی تعداد میں۔ کسی کو بجلی مگر مفت نہیں ملتی۔ ادائیگی وہ بھی کرتے ہیں۔ کچھ ایم کیو ایم اور کچھ دوسرے لوگوں کو۔
پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر ہے۔ شرجیل میمن نے اعلان کیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن اب پانی کا ناغہ ہوا کرے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اگر طویل عرصے تک برسراقتدار رہی تو ممکن ہے کہ ہفتے میں ایک دن کھانے کا ناغہ کرنے کی تجویز بھی سامنے آ جائے۔ کراچی کے ایک سابق کور کمانڈر کا کہنا تھا کہ قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ غیر ذمہ دار اور عاقبت نااندیش لوگوں کا ایک ٹولہ‘ جس کی اکثریت کو روپیہ سمیٹنے کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ ایم کیو ایم جیسی بھی ہے‘ ایک ذرا سی فکر اسے لاحق رہتی ہے‘ کم از کم اپنے کارکنوں ہی کی۔ پیپلز پارٹی کی وراثت میں برسراقتدار آنے والی قیادت کو لگتا ہے کہ کچھ پروا نہیں۔ بادشاہت اسی طرح زوال پذیر ہوا کرتی ہے۔ مفت میں ملنے والی نعمت کی کیا قدر؟
جنرل نوید نے بالکل ٹھیک کہا کہ شہر میں ضروری سہولیات کے فقدان سے جو خلا پیدا ہوا‘ اس نے مفاد پرست گروہوں کو جنم دیا۔
ان کا زور اس پر تھا کہ آپریشن جاری رہے گا‘ غیر سیاسی بنیادوں پر‘ بلاامتیاز اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ۔ شہر میں فساد پھیلانے پر تلے گروہوں کے نام ان کا پیغام یہ ہے کہ نرمی اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ پیغام کس کے نام ہے؟ سپریم کورٹ نے چار جماعتوں کو بھتہ خوری یعنی دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ سنی تحریک‘ اے این پی‘ پیپلز امن کمیٹی (یعنی پیپلز پارٹی) اور ایم کیو ایم۔ سنی تحریک اور اے این پی نے بظاہر راہِ فرار اختیار کر لی ہے۔ اس کاروبار میں ان کا تجربہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ ایم کیو ایم سب سے زیادہ فعال ہے اور پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ذمہ دار۔ بظاہر پیپلز امن کمیٹی سے زرداری صاحب لاتعلق ہو چکے مگر عملاً نہیں۔ قابل اعتماد اور باخبر ذرائع یہ کہتے ہیں کہ وہ ازسرنو صف بندی پر تلے ہیں۔ وفاقی حکومت‘ زیادہ واضح الفاظ میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے ساتھ ان کی مفاہمت یہ ہے کہ سندھ میں کھل کھیلنے کے لیے وہ آزاد ہیں۔
جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ تمہاری ہے تو صحرا بھی تمہارا
وزیراعظم کراچی میں قیام امن کے لیے سنجیدہ ہیں‘ جس طرح کہ بلوچستان میں۔ عسکری قیادت کراچی اور کوئٹہ میں ان کے کردار کو مثبت پاتی ہے‘ مگر دوسری طرف وہ زرداری صاحب کو آمادہ نہیں کر سکے کہ حکومتی ذمہ داریوں کو وہ سنجیدگی سے پورا کریں۔ آدمی کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے۔ زرداری صاحب کے نزدیک کرپشن کوئی جرم ہی نہیں۔ نون لیگ کی قیادت احتیاط اور سلیقہ مندی کی قائل ہے۔
سارا بوجھ نہ صرف فوج پر آن پڑا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ مضبوط سول اداروں کے بغیر ملک چلائے نہیں جا سکتے۔ حکمران طبقات کو جنرل نوید نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ سرکارؐ کا فرمان مگر یہ ہے: بے شرم اپنی مرضی کرے۔ گمان یہ ہے کہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو جانا ہی پڑے گا۔ بظاہر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ زرداری صاحب کو پسپا ہونا پڑے گا۔ گورنر عشرت العباد بھی شاید ہٹا دیئے جاتے مگر ایم کیو ایم نے انہیں بچا لیا‘ کم از کم وقتی طور پر۔ ان سے لاتعلقی کا اعلان کر کے۔ گورنر صاحب برسوں سے ایم کیو ایم‘ فوجی انتظامیہ اور وفاقی حکومت سے وفاداری نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں... تین کشتیوں کے سوار۔ اندازہ یہ ہے کہ بالآخر وہ بھی چلے جائیں گے اور جب گئے تو شاید سمندر پار ہی جائیں اور عمر بھر کراچی کے ساحل کا نظارہ نہ کر سکیں۔
ع اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
تین عشروں سے کراچی مافیاز کے رحم و کرم پر ہے۔ قبضہ گروپ‘ منشیات فروش‘ اسلحہ کے سوداگر‘ اسی قماش کی بعض سیاسی پارٹیاں‘ بھتہ خور پولیس‘ حتیٰ کہ گاہے فوجی افسر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ 1999ء میں مارشل لاء نافذ ہونے کے چند ماہ بعد ایک ایس ایس پی کو اس کے تھانیداروں سے کچھ شکایات موصول ہوئیں۔ انہوں نے جنرل احتشام ضمیر مرحوم سے رابطہ کیا تو ان میں سے بعض کا احتساب کیا گیا۔
جنرل نوید نے اعلان کیا کہ آپریشن جاری رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کب تک؟ مریض کو سٹیرائڈ دینا پڑتا ہے مگر کب تک؟
''بدقسمتی سے نظم و نسق اور حکمرانی کی ذمہ دار انتظامیہ‘ بیشتر علاقوں میں ضروری انفراسٹرکچر اور خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اس طرح خلا پیدا ہوا اور اسے مجرموں اور مفادپرست گروہوں نے پر کیا‘ سیاسی‘ لسانی اور فرقہ پرست‘‘۔ جنرل نے کہا۔ خطاب سے زیادہ یہ ایک چارج شیٹ ہے اور اس چارج شیٹ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
فطری طور پر ایسے میں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ موجودہ کشمکش کیا گورنر راج پر منتج ہوگی؟ بعض کے نزدیک مسئلے کا حل یہی ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ گورنر راج اگر نافذ کیا جائے تو تین ماہ بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ یہ بہت دشوار ہوگا۔ مزیدبرآں نوازشریف زرداری صاحب کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
جنرل کا کہنا یہ ہے کہ مفادپرست گروہ ابھرے تو (پانی‘ بجلی ایسی) ضروری خدمات مہیا کرنے لگے‘ پھر ان کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا۔ سیاست اور جرم کی حدود دھندلا گئیں۔ یہیں سے دہشت گردی اور عسکریت کا آغاز ہوا۔
''فوجی قیادت‘ دہشت گردی کا خاتمہ کر کے رہے گی۔ ناکامی کوئی آپشن ہی نہیں‘‘۔ جنرل نوید نے کہا اور بجا کہا۔ اس لیے کہ بستیوں کو سب سے بڑھ کر امن اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں ''ولکم فی القصاص حیوٰۃ یا اولی الالباب‘‘ اے اہلِ دانش قصاص میں زندگی ہے۔
جنرل صاحب کا ارشاد بجا مگر ایک چیز حکمت بھی ہوتی ہے۔ بارِدگر سوال یہ ہے کہ فوج کتنا بوجھ اٹھائے گی اور کب تک اٹھائے رکھے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved