شاید میری عمر بارہ سال تھی جب میں نے اپنے والد کے پاس، جو اُس وقت پیرس میں یونیسکو کے لیے کام کرتے تھے، جانے کے لیے اپنی والدہ اور دوچھوٹے بھائیوں کے ساتھ کراچی سے جنیوا کے لیے بحری سفر اختیار کیا۔ ہمارے اطالوی جہاز، 'دی ایشیا‘ نے ایک دن تک نہر سویز میں سفر کیا۔ چند ماہ بعد صدر ناصر کی طرف سے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے کے فیصلے نے خطے کوجنگ کی نذر کردیا۔ مصر کی اسرائیل، فرانس اور انگلینڈ کے ساتھ ہونے والی جنگ کی وجہ سے یہ انتہائی اہم آبی گزرگاہ کم و بیش ایک سال تک بند رہی۔ مصریوں نے اس میں ایک جہاز ڈبو کر دیگر جہازوں کا گزرنا ناممکن بنا دیا تھا، چنانچہ نہر کے دونوں طرف تجارتی جہازوں کی طویل قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔
یہ ہے وہ پس ِ منظر جس کی یاد سعودیوں کا دل دہلا دیتی ہے۔۔۔ اُن کے تیل سے لدے ہوئے دیوہیکل ٹینکرکہیں آبی گزر گاہوں میں روک نہ لیے جائیں جس کی آمدنی پر سعودی عرب کی معیشت کا انحصار ہے۔ سعودی آئل ٹینکر تین تنگ چینلز سے گزرتے ہیں: نہر سویز، آبنائے ہرمز اور یمن کے پاس باب المندب۔ ان میں پہلا چینل سعودی عرب کے دوست مصر کے کنٹرول میں ہے، چنانچہ یہاں فکر والی کوئی بات نہیں، لیکن باقی دو ایسے چینلز ہیں جنہیں ایران، اگرچاہے تو بند کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس دوران متحدہ عرب امارات کی پریشانی دوچند ہے کیونکہ اُن کا تمام تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔
سعودی عرب اور ا س کے اتحادیوں کی طرف سے یمن میں حوثی جنگجوئوں پر کی جانے والی بمباری کی ایک وجہ تو یہ ہے، لیکن اس سے بھی اہم یہ کہ سعودی عرب خطے میں بڑھتا ہوا ایرانی اثر ورسوخ ختم کرنے پر کمر بستہ ہے۔ اس وقت لبنان سے لے کر شام اور عراق اور پھر وہاں سے یمن تک ایک ایسی قوس بن رہی ہے جس میں ایران سعودی عرب کو تین اطراف سے گھیرے میں لیتا دکھائی دیتا ہے۔سعودی مملکت کو پریشان کردینے والی پیش رفت ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی جوہری ڈیل کا پایہ تکمیل تک پہنچ جانا ہے(گو ابھی ایسا ہوا نہیں لیکن اس کا امکان اپنی جگہ پر موجود ہے)۔ اس کی وجہ سے ایران پر لگی پابندیاں ہٹ جائیں گی اور اس کی تیل کی تجارت کی بنیاد پر قائم معیشت پوری توانائی کے ساتھ ابھر کر سامنے آجائے گی۔ علاقے کی سنی اورشیعہ طاقتوں کی طرف سے طویل عرصے سے ایک دوسرے کے مفادات کونقصان پہنچانے کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں ایران کی معاشی طاقت میں اضافہ سعودیوں کے لیے نقصا ن کے مترادف ہوگا۔ سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ خاصی ناراضی کا اظہار کیا ہے ، چنانچہ ایک حالیہ کانفرنس میں صدر اوباما عربوں کو منانے کی کوشش کرتے دکھائی دیئے۔ اگرچہ شاہ سلمان ذاتی طور پر اُس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے لیکن اُن کی طرف سے اعلان سامنے آیا کہ اُن کا ملک بھی یورینیم کو اُس سطح تک افزودہ ضرور کرے گا جتنی اُس ممکنہ ڈیل کے تحت ایران کو اجازت دی جائے گی۔ شاہ سلمان کی طرف سے اس اعلان کے بعد تمام آنکھیں یقینا پاکستان کی طرف اٹھ جائیں گی کیونکہ اس ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے سعودی عرب کے پاس دستیاب واحد ذریعہ یہی ہے۔ ہمارے لیے سعودی بھائیوں کو انکار کرنا آسان نہ ہوگا۔ گو ہم یمن جنگ میں فوجی بھیجنے سے گریز کرگئے۔ اگرچہ یورنیم کی افزودگی اور اس سے ایٹم بم بنانے کا علم سائنس کے تمام طالب ِ علم رکھتے ہیں اور اس میں کوئی پردہ داری نہیں لیکن عملی طور پر اس میں حائل انجینئرنگ کے خوفناک چیلنجز سے نمٹنا آسان کام نہیں۔
چنانچہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ریٹائرڈ، بلکہ حاضر سروس، ایٹمی سائنسدانوں اور انجینئرز کو مملکت کی طرف قطار در قطار کوچ کرتے دیکھیں۔ اس کے باوجود معاملہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس عمل کے لیے درکار بہت سے حساس مواد اور آلات پر عالمی سطح پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ جب پاکستان نے خفیہ طور پر اپنا پروگرام شروع کیا تو یہ نگرانی اتنی سخت نہیں تھی، لیکن اب مغربی طاقتوں کی، تاوقتیکہ وہ خود بوجوہ اغماض برتنے کی پالیسی رکھتی ہوں، نگاہوںسے بچ کر ایسا کرنا ممکن نہ ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سعودی عرب کو ایٹمی درجہ دے ڈالیں۔ لیکن جو بھی صورت ہو، سعودی عرب کے ساتھ جوہری تعاون کی کسی بھی پاکستانی کوشش کی ایران کی طرف سے سختی کے ساتھ مخالفت کی جائے گی۔ اور اُس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کشیدگی آجائے گی۔ فی الحال امریکیوں نے سعودی عرب اور یواے ای کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مجھے تو امریکہ اور عرب ریاستوں کے مشترکہ دفاع کا تصور ہی مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ سعودی عرب لامحالہ طور پر پاکستان کو ہی ایرانی خطرے کے مقابلے میں ایٹمی چھتری فراہم کرنے کا کہے گا۔
اگران معروضات کو خدشات کی بجائے حقائق کی نگاہ سے دیکھیں تو بظاہر عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ سب مل کر ایران کی نسبت دفاع پر پانچ گنا زیادہ خرچ کرتی ہیں ۔اس کے علاوہ ایران پر لگی کئی عشروںکی پابندیوں نے اس کی معیشت اور دفاع کو بہت کمزور کردیا ہے۔ اس کی فضائیہ کے پاس ابھی بھی وہی طیارے ہیں جو اس نے شاہ ایران کے دور میں خریدے تھے۔ اس کی فوج کے پاس جدید ٹینک موجودنہیں۔ اگرچہ اس کی نیوی کے پاس تیز رفتار چھوٹی جنگی کشتیاں ہیں لیکن ان کا بحرین کے پانیوں میں موجود پانچویں امریکی بحری بیڑے سے کیا مقابلہ؟ تاہم، جیسا کہ ہم نے شام، عراق اور اب یمن میں دیکھا کہ اگرچہ سعودی جیٹ طیارے حریفوں پر بمباری کرسکتے ہیں لیکن اس کے زمینی دستے دشمن ریاست میں قدم رکھنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی فوج کو بنیادی طور پر اندرونی باغیوں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ آئندہ منظرنامہ کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا۔