تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-05-2015

سرخیاں‘ متن اور علامہ اقبال پر دو کتابیں

اقتصادی راہداری منصوبہ متنازع بنانے سے گریز کیا جائے... آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''اقتصادی راہداری منصوبہ متنازع بنانے سے گریز کیا جائے‘‘ بلکہ پچھلے دنوں میری اور وزیراعظم کی جو دو ملاقاتیں ہوئی ہیں‘ انہیں بھی متنازعہ بنانے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ان میں جو بھی فیصلے کیے گئے وہ بہترین ملکی مفاد میں تھے جبکہ ایک دوسرے اور دیگر معززین کے خلاف کرپشن کے مقدمات کھولنا اور چلانا ملکی مفاد کے سخت خلاف ہے جس سے مفاہمت کے اصول کو بھی زک پہنچے گی جس کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہر دو فریق جہاں تک بھی ہو سکے دونوں ہاتھوں سے ملک کی خدمت کریں‘ اگرچہ اس سلسلے میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے؛ تاہم ابھی یہ اپنے نقطۂ عروج کو نہیں پہنچی اور شاید کبھی پہنچ بھی نہ پائے کیونکہ اس طرح کی خدمت کے کوئی حدود و قیود نہیں ہوتے اور اس کی تمنا قبر میں پہنچنے تک جاری رہتی ہے اور اس خدمت کے جو نمونے اور مثالیں ملک کے اندر اور باہر موجود ہیں وہ سب کو نظر بھی آ رہی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں قائد حزب اختلاف سید خورشید علی شاہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
تحریک انصاف سیاسی بھگوڑوں کا
جگتو فرنٹ ہے... چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ''تحریک انصاف‘ سیاسی بھگوڑوں کا جگتو فرنٹ ہے‘‘ اور چونکہ پرویز رشید اور عمران خان میں سیزفائر ہو گیا ہے اس لیے پرویز رشید صاحب کا کام میں نے سنبھال لیا ہے اور اپنے دوست عمران خان کی کچھ خدمت میں بھی کرنا چاہتا ہوں‘ اگرچہ خدمت کا مطلب ہماری لغت میں کچھ اور ہی ہے اور جو ہمارے منشور کا حصہ بھی ہے اور بڑے میاں صاحب کی قیادت میں اس پر مختلف پروجیکٹس کے ذریعے بھرپور طور پر عمل بھی جاری ہے‘ اور جہاں تک سیاسی بھگوڑوں کا تعلق ہے تو ماشاء اللہ ہماری جماعت میں یہ لوگ زیادہ اکثریت میں ہیں لیکن اب وہ بھگوڑے نہیں رہے بلکہ ایک جگہ ٹک کر بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ فین کلب ہے‘‘ جبکہ ہمارے فین باقاعدہ پیڈسٹل فین ہیں کیونکہ کھانے پینے کی وجہ سے ہمیں گرمی بھی زیادہ لگتی ہے اور پسینہ بھی زیادہ آتا ہے اس لیے ہوا کی ضرورت بھی زیادہ رہتی ہے۔ آپ اگلے روز کلرسیداں میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان ملک میں بادشاہت
چاہتے ہیں... مخدوم جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''عمران خان ملک میں بادشاہت چاہتے ہیں‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بینائی کمزور ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی جو بادشاہت قائم ہے وہ انہیں نظر ہی نہیں آ رہی جبکہ شاہی خاندان کا ہر فرد کسی نہ کسی سرکاری عہدے پر فائز ہے اور رعایا خوشی سے باغ باغ ہو رہی ہے اور خاکسار کے بارے میں بھی بہت جلد کوئی فرمان جاری ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں ضمنی انتخاب میں نوازلیگ کی حمایت کروں گا‘‘ اگرچہ موجودہ صورتِ حال میں اس حمایت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور ویسے بھی مجھے سینیٹر بنائے جانے کی خوشخبری ہوائوں میں گردش کر رہی ہے جس سے کبھی مستعفی ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا کیونکہ قومی اسمبلی سے استعفے ہی سے کافی عبرت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کے پاس کوئی سیاسی پروگرام نہیں ہے اور تحریک انصاف پہلی بار گھونگھٹ اتار کر میدان میں آئی ہے‘‘ حالانکہ اس بے حجابی پر اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کلیاتِ اقبال اردو و فارسی
مع اشاریہ و کشف الابیات
دو ضخیم جلدوں میں یہ کتاب جناب احمد رضا نے مرتب کی ہے جن کے شروع اور آخر میں ایک مفصل اور لاجواب اشاریہ کے علاوہ ''کشف الابیات‘‘ کے نام سے ایک کلید کا اضافہ کیا گیا ہے جس کی مدد سے شاعرِ مشرق کے ہزاروں اشعار میں سے کوئی بھی مصرع یا شعر پندرہ بیس سیکنڈز کے اندر تلاش کیا جا سکتا ہے‘ یعنی وہ کاوش اور محنت جس سے محققینِ اقبال‘ اساتذہ اور طلبہ کو واسطہ پڑتا تھا‘ احمد رضا صاحب نے اپنے ذمے لے لی ہے اور اس طرح محبانِ اقبال کی چند لمحوں میں صد فی صد درست رہنمائی ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے فلیپ احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹر جاوید اقبال‘ پروفیسر فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر محمد اسلم فرخی‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان نے تحریر کیے ہیں۔ کوئی سوا تیرہ سو صفحات پر مشتمل کلیات فارسی کی قیمت 2000 روپے اور کلیات اردو کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ یہ کتابیں ادارۂ اہل قلم لاہور نے مجلس ترقیٔ ادب لاہور کے علمی و فنی تعاون سے شائع کی ہیں۔ فارسی کلام میں ''پیامِ مشرق‘‘ اور ''زبورِعجم‘‘ کی کچھ غزلوں کی تکرار ہو گئی ہے جبکہ انہیں نوری نستعلیق کی بجائے کسی پرانی کتابت کے عکس پر چھاپا گیا ہے جس میں فارسی کلیات کے اندر ''تو‘‘ کو پیش لگا کر ''تُو‘‘ لکھا گیا ہے جبکہ پرانی فارسی میں لفظ ''تو‘‘ تو اور ''دو‘‘ کے وزن پر آتا ہے۔
آج کا مقطع
اُسے ہماری محبت پہ شک بجا تھا‘ ظفرؔ
ہمارا نامہ اعمال ہی کچھ ایسا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved