ترقی یافتہ اقوام کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ''چونچلے‘‘ ختم نہیں ہوتے۔ ہر شعبے اور ہر معاملے میں اپنے آپ کو باصلاحیت ثابت کرنے کے لیے وہ ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہم جیسے پس ماندہ اقوام کے لوگ صرف دیکھتے ہی نہیں رہ جاتے بلکہ اپنے آپ سے شرم بھی محسوس کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پتا نہیں ترقی یافتہ اقوام باقی دنیا کو آئینہ دکھانے کا فریضہ کب تک انجام دیتی رہیں گی؟ یہ تو سراسر زیادتی ہے کہ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر رات دن ملول رہتے ہیں انہیں آئینہ دکھا دکھاکر ذہن کو مزید الجھایا جائے! دوسروں سے پیچھے رہ جانے والے ویسے ہی زندگی سے بیزار رہتے ہیں۔ ایسے میں انہیں مزید بیزار کیوں کیا جائے؟ ترقی یافتہ اقوام کو اس معاملے میں کنٹرول کرنے کا کوئی ''میکینزم‘‘ ہونا ہی چاہیے!
ترقی یافتہ اقوام کی طرف سے ڈھائے جانے والے ''ظلم‘‘ کا خیال ہمیں یوں آیا کہ امریکہ میں ایک صاحب نے 94 سال کی عمر میں گریجوایشن کرکے تاریخ رقم کردی ہے۔ اور یہ کارنامہ انہوں نے محنتِ شاقہ کے ذریعے انجام دیا ہے، ہمارے ہاں کی طرح رقم خرچ کرکے تاریخ رقم نہیں کی!
مارگن ٹاؤن کے انتھونی بروٹو کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ مختلف شعبوں میں اپنا آپ منوانا چاہتے تھے مگر جب بھی وہ علم کی کائنات کا رخ کرتے تھے، پوری کائنات ان کے خلاف سازش میں جُت جاتی تھی! بروٹو نے 1939ء میں ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہ انجینئرنگ پڑھنا چاہتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں اندازہ ہوا کہ انجینئرنگ کے معاملے میں ان کے تِلوں میں تیل نہیں۔ یہ بساط لپیٹ کر انہوں نے مضمون بدلتے ہوئے جسمانی تربیت یعنی صحت و ورزش کے شعبے میں داخلہ لیا۔ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس شعبے میں بھی ان کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ اب انہوں نے صنعت و حرفت کو گلے لگایا۔ دو مضامین چھوڑ کر تیسرے کے آغوش میں سمانے پر ساتھیوں نے تمسخر بھی اڑایا مگر بروٹو نے پروا نہ کی اور ڈٹے رہے۔
مگر یہ کیا؟ ابھی بروٹو نے تعلیم کا باضابطہ آغاز کیا ہی تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے کے لیے فوج کی طرف سے بلاوا آگیا! یعنی بروٹو کی تعلیم کے خلاف سازش! اب آپ ہی سوچیے کہ ایک شخص کو گریجوایشن سے روکنے کے لیے ایک جنگ عظیم آڑے آگئی!
خیر، دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو بروٹو نے تعلیم کے کارزار میں اپنی جنگ دوبارہ شروع کیا اور 1946ء میں ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں پھر رجسٹریشن کرائی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اب تو گریجوایشن کا تاج سر پر سج کر ہی رہے گا۔ مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم تو ختم ہوگئی مگر اب گھر میں ایک ''مہا بھارت‘‘ ان کی منتظر تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ بروٹو نے باقاعدگی سے یونیورسٹی جانا اور کلاسز اٹینڈ کرنا شروع کیا تو ''وزیر داخلہ‘‘ نے رکاوٹ کھڑی کردی یعنی اہلیہ بیمار پڑگئیں! دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے سے بچ کر تعلیم پوری کی جاسکتی تھی مگر اہلیہ کو بائی پاس کرکے یونیورسٹی کی ڈگری تک پہنچنا بروٹو کے لیے کسی طور ممکن نہ تھا! اگر ایسا کرتے تو گھر میں وہ جنگ ہوتی کہ لوگ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں بھی بھول جاتے! لاچار ہوکر انہیں ایک بار پھر تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔
اہلیہ کی بیماری رفع ہوئی اور وہ صحت سے ہمکنار ہوئیں تو بروٹو نے سوچا اب نیم مردہ پڑی ہوئی ذاتی تعلیم کو بھی صحتِ کاملہ سے ہمکنار کرنے کی کچھ کوشش کی جائے! انتھونی بروٹو نے طے کرلیا تھا کہ اس زندگی میں گریجوایشن کا مرحلہ طے نہ کیا تو پھر کیا جیا! ہزار رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہیں مگر وہ ڈٹے رہے۔ ایک جنگ عظیم ختم ہوئی اور ایک ''خانہ جنگی‘‘ اپنے انجام کو پہنچی تب کہیں جاکر وہ گریجوایشن کی تیاری کے قابل ہو پائے!
17 مئی کو انتھونی بروٹو نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے 4500 نوجوان طلباء و طالبات کے ساتھ گریجویشن کی سند حاصل کی۔ وہ اس یونیورسٹی کی تاریخ کے معمر ترین گریجوایٹ ہیں۔ اور پہلی و آخری رجسٹریشن میں 75 سال کا فرق بھی یونیورسٹی کی ریکارڈ بک میں درج ہوگیا ہے۔ یعنی خدا خدا کرکے کفر کے ساتھ ساتھ ریکارڈز بھی ٹوٹ گئے! انتھونی بروٹو اپنی کامیابی پر بہت خوش ہیں اور یونیورسٹی کو بھی ان پر ناز ہے۔
مرزا تنقید بیگ نے یہ خبر سنی تو تلملا گئے۔ انہیں ایسی ہر خبر سے
سخت نفرت ہے جو تعلیم کے معاملے میں انہیں آئینہ دکھاتی ہو! بات سیدھی سی ہے کہ ان کی راہ میں دوسری جنگ عظیم آئی نہ اہلیہ کی بیماری مگر پھر بھی وہ گریجویشن نہ کرسکے! کہنے لگے: ''جس عمر میں لوگ بیٹوں اور پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں سے اپنا دل بہلاتے ہیں اور انہیں گود میں لے کر اپنے بچپن میں چلے جاتے ہیں اس عمر میں انتھونی بروٹو کو گریجوایشن کی سُوجھی۔ جہاں ہر شعبے میں ترقی ہوچکی ہو وہاں ایسے ہی چونچلے دکھائی دیا کرتے ہیں! خیر گزری کے اکبرؔ الٰہ آبادی نہ ہوئے۔ اگر یہ سب ان کے سامنے ہوتا تو چار مصرعوں کے ذریعے ایسی مار مارتے کہ بروٹو صاحب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے! کہتے ہیں انتہائی بڑھاپے میں انسان بچہ بن جاتا ہے۔ انتھونی بروٹو نے 94 سال کی عمر میں یونیورسٹی والا عہدِ شباب دہراکر بڑھاپے اور بچپن کے تال میل والا اصول غلط ثابت کردیا۔ یعنی اس عمر میں کچھ صحیح ثابت کرنے کی فکر لاحق نہیں، غلط ثابت کرنے کی دُھن سوار ہے! ہمیں ایسی 'منفی‘ سوچ سے شدید نفرت ہے۔ جو عمر پڑھنے کی تھی وہ جنگ و جدل میں گزار دی۔ اور جب شادی کی تو زندگی کو انجوائے کرنے کے بجائے پھر پڑھنے پر مائل ہوئے۔ ایسے میں اہلیہ کو تو بیمار پڑنا ہی تھا۔ وہ پتا نہیں کیا کیا ارمان لے کر آئی ہوں گی اور یہ حضرت پھر گریجوایشن کی اوکھلی میں سر دے بیٹھے! شکر ادا کرنا چاہیے کہ اہلیہ بیماری پڑیں۔ ہمارے ہاں تو ایسی صورت حال سے دوچار ہونے پر اہلیائیں وہ حالات پیدا کرتی ہیں کہ شوہر ہائِ نامدار پہلے
بسترِ علالت پر دراز ہوتے ہیں اور پھر بسترِ مرگ پر جا گرتے ہیں!‘‘
ہم نے کہا کہ 94 سال کی عمر میں گریجوایشن کرنا بجائے خود ایک بڑی کامیابی اور قابل رشک اعزاز ہے۔ اب کے اختلافِ رائے کی آڑ میں مرزا پھٹ پڑے: ''ارے کیا خاک اعزاز ہے؟ 75 سال کے فرق سے گریجوایشن کرنے پر ستائش کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اور ہم اگر کسی کلاس میں دو سال لگا دیتے تھے تو پورا خاندان ذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ تفریح بھی لیتا پھرتا تھا! اگر ہم اس عمر میں گریجوایشن کریں تو لوگ 'بڈھا گھوڑا، لال لگام‘ کی پھبتی کسیں گے۔ مگر یہی کام گورا کرے تو واہ واہ۔ یہی وہ منافقانہ رویّہ ہے جس کے باعث ہم نے آج تک گریجوایشن کرنے سے اجتناب برتا ہے!‘‘
مرزا کو ہر معاملے کی کوکھ سے اپنی مرضی کا نتیجہ یا دلیل کشید کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ قبر میں پیر لٹکائے گورے سے کچھ سیکھنے کے بجائے وہ اسے طعنے دے رہے ہیں! گوروں کی نفسی ساخت سے متعلق ہمارے ''تحفظات‘‘ اپنی جگہ، پون صدی کا وقفہ بھی جس انسان کی راہ میں حائل نہ ہوسکا وہ یقیناً اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے کچھ سیکھا جائے۔ گورے آج بھی طرح طرح کی مثالیں قائم کرکے ہمیں شرمسار کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ کس مِٹّی کے بنے ہیں کہ 94 سال کی عمر میں بھی علم کے حصول کو مقصدِ حیات بنالیتے ہیں۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ کسی نہ کسی طور دسویں کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اپنے طور پر طے کرلیتے ہیں کہ سب کچھ پڑھ لیا، اب مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یعنی کتابوں اور کاپیوں کا بوریا بستر گول کیجیے اور تعلیمی اداروں سے کہیے کہ اپنی اپنی شکل گم کرلیں! اور اس کے بعد راوی چَین ہی چَین نہ لکھے تو اور کیا کرے!