تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-05-2015

بلدیاتی الیکشن کی بہار

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کا ہنگامہ برپا ہے۔ ہر گلی کی نکڑ پرڈیڑھ لاکھ امیدواروں میں سے کوئی نہ کوئی چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھڑا آنے جانے والوں سے ووٹ کا طلب گار ہے۔ اتنے امیدواروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ صوبے میں امیدوار ووٹروں سے بڑھ گئے ہیں۔ امیدواروں کی کثرت سے تنگ آئے ہوئے مردان کے ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے : '' الیکشن کی تاریخ آنے تک گھروں کے دروازے ووٹ مانگنے والوں کی دستکوں سے ٹوٹ چکے ہوں گے، ضلع کونسل کا امیدوارجاتا ہے تو تحصیل کا آٹپکتا ہے، مسجد جائیں تو ویلیج کونسل کا جنرل کونسلر پکڑ لیتا ہے، گھر واپس ہوں تو لیبر کونسلر ی کا خواہش مند ساتھ ہولیتا ہے، گھر کی خواتین کا جینا ان امیدواروں کی گھر والیوں نے حرام کیا ہوا ہے اور رہی سہی کسرخواتین امیدوار خود آکرپوری کردیتی ہیں کہ انہیں گھر کے اندر آنے سے کون روکے ، اب تم آ گئے ہو پوچھنے کہ الیکشن کیسا چل رہا ہے‘‘۔ آخری فقرہ انہوں نے اس انداز سے ادا کیا جس میں پیار بھی تھا اور خفگی بھی۔ حجرے میںبیٹھے لوگوں نے قہقہہ لگا کر بابا کی سچ بیانی کی داد دی۔ قہقہے کی گونج تھمی تو یکایک ایک نوجوان اٹھا، بابا کے قریب آیا ، ان کا ہاتھ پکڑا اور بولا: ''میں یوتھ کی سیٹ پر کھڑا ہوں، ایک ووٹ تو مجھے دے دینا‘‘۔ نوجوان کی اس حرکت پر تو قہقہوں کا وہ طوفان اٹھا کہ حجرے کی چھت ہی اڑ گئی۔ امیدواروں کی کثرت کے بارے میں خود ایک اور امیدوار
نے بتایا کہ اب تو کسی کے گھر ووٹ کا سوال لے کر جانے سے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس گھر سے خود تو کوئی الیکشن میں نہیں کھڑا۔
صوبے میں انتخابات کی فضا اتنی خوشگوارہے کہ مخالف بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اپنی اپنی مہم چلا رہے ہیں۔ پشاور کی ایک گلی میں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے یوں لگے ہیں کہ ایک قطار تحریک انصاف کے جھنڈوں کی ہے تو دوسری اے این پی کی پھر تیسری قطار تحریک انصاف کی ہے اور چوتھی اے این پی کی۔ اسی طرح ایک جگہ دیکھا کہ جماعت اسلامی کے جھنڈوں سے پورا محلہ بھرا ہے، لیکن کچھ ہی فاصلے پر جمعیت علماء اسلام کا امیدوار اپنی قیادت کے فضائل بیان کررہا ہے۔ چار سدہ میں جماعت اسلامی کے انتخابی دفتر کے بالکل سامنے قومی وطن پارٹی کے ایم پی اے کا گھر ہے جس کا اپنا بھائی ضلع کونسل کی سیٹ پر امیدوار ہے، کوئی ایک دوسرے کو میلی نظر سے بھی نہیں دیکھتا بلکہ سب مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہیں اور ووٹ مانگنے نکل پڑتے ہیں۔ مردان کے ایک محلے میں عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کے دفتر آمنے سامنے ہیں۔ دونوں نے نوجوان امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے، دونوں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ، فضا تھوڑی سی بوجھل ہے لیکن محلے والے کبھی ایک دفتر میں چائے پیتے ہیں تو کبھی دوسرے دفتر میں قہوے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوان تھوڑی بہت مستی کرتے بھی ہیں تو اے این پی والے طرح دے جاتے ہیں۔ کبھی اے این پی والے صوبائی حکومت کے لتے لیتے ہیں تو تحریک انصاف والے کان لپیٹ لیتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں، اس نرسری کو کسی نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہو تو خیبر پختونخوا چلا آئے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے کہ ملک کے روشن مستقبل کی امید یقین میں بدلنے لگتی ہے۔ پھر یہاں جو نظام متعارف کرایا جارہا ہے وہ اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ اس میں اختیارات بہت نچلی سطح تک منتقل کیے جارہے ہیں۔ بعض لوگوں کو اس بات پر اعتراض بھی ہے کہ صوبے میں پچاس ہزار کے قریب منتخب نمائندوںکی موجودگی مسائل حل کرنے کی بجائے، خود ایک مسئلہ بن جائے گی۔ حتیٰ کہ صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی اس نظام پر تحفظات لاحق ہیں اور اتنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اپوزیشن کے کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر اشارہ کیاکہ وہ صوبائی اسمبلی میں ایسی قراردادیں لے کر آئیں جن کا سہارا لے کر سپریم کورٹ سے بلدیاتی انتخابات کے لیے کچھ اور وقت لیا جاسکے۔ ان کی سکیم کے مطابق ایک قرارداد پیش بھی ہوئی، پھر کچھ لوگ مختلف سوالات لے کر عدالت بھی پہنچے لیکن کام نہ بنا اور الیکشن کرانے پڑے۔ اب ان سے اور کچھ نہیں ہوسکا تو حیلے بہانوں سے بلدیاتی اداروں کے فنڈز کو وزیراعلیٰ کے تابع کردیا کہ جس سے ناخوش ہوں گے اس کے فنڈز روک لیں گے ۔ جماعت اسلامی اپنے طریقے سے وزیراعلیٰ کی ان کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔ اپنی حلیف جماعت کو بھی پرویز خٹک شاید اپنی طرف لے آتے لیکن جماعت کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ بلدیات کو صاف بتا دیا کہ اپنی توجہ بلدیاتی الیکشن اور بلدیاتی اداروں کی کامیابی پر مرکوز رکھیں۔ ان کی ہدایت پر وزیربلدیات خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے اور کسی نہ کسی طرح حکومت کو کھینچ کھانچ کر انتخابات کی طرف لے آئے۔
ان بلدیاتی انتخابات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ریٹرننگ افسروں کا تقرر کسی اور نے نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے کیا ہے۔ یہ ریٹرننگ افسران (آر اوز) عدلیہ کی بجائے انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور براہ راست حکومت کے ماتحت ہیں۔ ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ انتظامی افسروں کے ساتھ الیکشن کے کام میں تال میل بنا کر رکھے۔ پھر یہ بھی ہوگا کہ جب 30 مئی کو ووٹر اپنے اپنے پولنگ اسٹیشن پر جائیں گے تو انہیں بیلٹ پیپر کے کاؤنٹر فوائل پر انگوٹھا بھی نہیں لگانا پڑے گا۔ یعنی کوئی امیدوار اپنے ووٹوں کی تصدیق نادرا سے چاہے تو یہ ممکن نہیںہوگا۔ پولنگ کے بعد انتخابات کے حتمی نتائج کے لیے ووٹوں کے تھیلے سات دن کے لیے حکومت کے تابع افسروں کی تحویل میں رہیں گے، ان سات دنوں میں معاملہ مکمل طور پر تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہوگا کہ وہ جس کا تھیلا چاہے کھول کر کوئی گل کھلانا چاہے تو کھلا سکے۔ ان سارے خدشات کے باوجود صوبے میں الیکشن زور شور سے لڑا جارہا ہے۔ میں نے پشاور کے ایک مضافاتی علاقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک بزرگ امیدوار برائے ضلع کونسل سے دھاندلی کے امکانات پر بات کی تو وہ ہنس کر بولے: ''دیکھو یارا، الیکشن اعتماد کا نام ہے۔ اب تحریک انصاف والے کسی پر اعتماد نہیں کرتے نہ کریں، ہم توان پر کریں گے ، ہو سکتا ہے آہستہ آہستہ وہ بھی اپنے آپ پر، عوام پر، الیکشن کمیشن پر عدالت پر اور دستور پر اعتماد کرنا سیکھ جائیں‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved