تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-05-2015

شداد کی جنت

قرآن کریم یہ کہتا ہے: دل سخت ہو جایا کرتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں! حیات کی نشوونما کا انحصار فقط انصاف پر ہوتا ہے، فروغِ عدل پر۔
نیویارک ٹائمز کی سٹوری نے دہلا کر رکھ دیا۔ صحافتی تاریخ میں شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ بار بار رک جانا پڑا۔ بار بار غور کرنا پڑا۔ خبر ایسی ہے کہ یقین نہیں آتا۔ شواہد ایسے ہیں کہ یقین کئے بغیر چارہ ہی نہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز نے اگر جھوٹ گھڑا ہے تو Axact والوں کو کم از کم دس بلین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنا چاہئے۔ تمام الزامات کے بارے میں، ایک تفصیلی وضاحتی بیان انہیں جاری کرنا چاہیے۔
کچھ سوالات ہیں، جن کا جواب نہیں ملتا۔ کبھی کبھی چھٹی کا دن بھاری ہو جاتا ہے۔دو چھٹیاں ایک ساتھ ہوں تو اور بھی دشواری۔ جو صحافی دوست، ''سب سے بڑے‘‘ میڈیا گروپ سے وابستہ ہوئے، کیا وہ ہولناک بوریت کا شکار نہیں؟۔آخر پورا دن وہ کس طرح بتاتے ہیں؟ روزنامہ دنیا کے اجرا کا مرحلہ تھا۔ ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ اشاعت کی تاریخ مقرر کی جائے۔ یہ مطالبہ فوراً ہی مان لیا گیا۔ کون اپنا روپیہ برباد کرتا ہے۔ بابائے اقتصادیات آدم سمتھ کے بقول وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔ اس ادارے کے وسائل لا محدود کیسے ہوگئے؟ قدرت کے قوانین میں استثنیٰ کہاں ہوتا ہے اور ایسا حیران کن استثنیٰ۔
پھر یہ کہ فراغت ذہنوں کو زنگ لگاتی ہے اور سرمایہ کار سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے؟۔ دو تین گنا تنخواہ پانے والے لائق فائق اخبار نویس اکتاتے کیوں نہیں؟۔ سرمایہ کار کیوں نہیں اکتایا؟ اس سے پہلے بھی ایک سوال ہے۔ صحافیوں کو مرسڈیز اوربلٹ پروف گاڑیوں کی کیا ضرورت؟۔ مرسڈیز میں سوار ہونے کے بعد مشقت کرنے کو کس کافر کا جی چاہے گا؟
ٹی وی مالکان کا ایک وفد وزیراعظم سے ملا تھا۔ تقریباً ان تمام چیزوں کا ذکر کیا، نیویارک ٹائمز نے جن کا حوالہ دیا۔ تصدیق کرنا مشکل ہے مگر ان میں سے بعض کو یقین تھا کہ'' سب سے بڑے ‘‘میڈیا گروپ کی مشینری سمگل ہو کر آئی ہے۔ سمگل ہو کر؟ اگر آپ کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ اربوں روپے ضائع کرسکیں تو سمگلنگ کا مطلب کیا ہے؟ الزامات خوفناک ہیں۔ صرف جعلی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے چار ارب روپے سالانہ کی آمدن، اس کا مطلب امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ اور پاکستان میں ہزاروں خاندانوں کی بربادی ہے۔ حیرت ہے میں نے سوچا! یہ ایسا جرم ہے کہ تلافی بھی ممکن نہیں۔ وہ زندگیاں جو ضائع ہوگئیں۔وہ ماہ وسال جوبے ثمررہے۔ وہ گھرانے جو اجڑگئے۔ اور وہ آدمی کیونکر تلافی کرے گا ،جس کا عزم یہ ہے کہ ایک دن، وہ دنیا کا سب سے امیر آدمی بن جائے... بل گیٹس سے بھی زیادہ! بل گیٹس کو معرکے کا، ایک خیال سوجھا تھا۔ ایک چیز اس نے ایجاد کی تھی۔ جناب شعیب صدیقی کی کیا ایجاد ہے،حیرت ہے کہ اخبار نے انہیں شیخ شعیب لکھا ہے۔
پاکستان کی بدنامی ہوئی اور بہت بدنامی ۔فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی کہ جرم اگر سرزد ہوا تو کس قدر۔ مگر بدنامی کا داغ دھل نہ سکے گا۔ ساری دنیا میں ایک قوم کو رسوا کیا جا رہا ہے اور اس باب میں وہ خود بھی قصوروار ہے۔ اس کے مردان کار کا فرض کیا ہے؟ غیرمعمولی احتیاط یا پرلے درجے کی بے احتیاطی؟ مگر یہ تو ایک سوچا سمجھا منصوبہ نظرآتا ہے۔ بظاہر بہت غوروفکر اور سالہا سال کی ریاضت کے ساتھ بروئے کار آنے والا خواب۔ شداد کی جنت۔ یہ اظہار ذات اور دولت سمیٹنے کی ایک بے پناہ اور بے قابو تمنا، آدمی کو اپنی گرفت میں لے لے تو کسی اور کا کیا، وہ اپنا بھی نہیں رہتا۔ پھر غلبے کی وہ قدیم انسانی جبلت جس سے بڑھ کر تاریک راستوں پر گھسیٹ لے جانے والا جذبہ اور کوئی نہیں۔
تین برس ہوتے ہیں۔ ایک ممتاز پبلشر سے پوچھا: فلاں ارب پتی کو کیا ہوا۔ کہا: من مانی کی وہی پاگل کر دینے والی شیطانی خواہش، جو زر و جواہر کے انبار میں جنم لیتی ہے۔ بعدازاں وہ خود بھی اس میں مبتلا ہوا اور پچھتایا۔ اس نے مگر رفو کرنے کی کوشش کی؟ جامۂ صد چاک کے ساتھ یہ لوگ کیا کریں گے؟...؎
مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکالا
دبئی کی ایک تعمیراتی فرم کے جونئیر بھارتی اکائونٹنٹ کی المناک داستان تمام پہلو آشکار کرتی ہے۔ سال گزشتہ مئی کے مہینے میں ایم بی اے کی آن لائن ڈگری کیلئے تین ہزار ڈالر اس نے ادا کیے۔ بدلے میں اسے ایک سستا سا آئی پیڈ ملا۔ اس پر ایک کالج کا نشان ثبت تھا مگر کوئی کورس نہ سبق۔ اس کے ساتھ ہی مزید فیس جمع کرانے کے مطالبات ۔ پھر ایک شخص نے ،خود کو جس نے امریکی سفارت خانے کا افسر بتایا، اسے فون کیا اور یہ کہا: تمہاری انگریزی تعلیم کم ہے۔ اس نے ''گلوبل انسٹی ٹیوٹ آف انگلش لینگوئج ‘‘ کو7500 ڈالر ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ ادارہ اسی ایگزیکٹ (Axact) کمپنی کی مِلک ہے۔ ایک ہفتے کے بعد اسے امریکی وزارت خارجہ سے تصدیق شدہ ایک سرٹیفکیٹ خریدنے کا مشورہ دیا گیا، مزید7500 ڈالر۔ اس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ''دستخط‘‘ ثبت تھے۔ ستمبر میں اسے دبئی حکومت کے ایک نمائندے کا فون ملا: اگر اس نے اپنی ڈگری کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی تو ملک بدر کردیا جائے گا۔ 18000 ڈالر میں سودا طے ہوا۔ اس کا تعلق بھی اسی کمپنی سے تھا۔ اکتوبر تک وہ تیس ہزار ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔ گھر پیسے بھیجنا اس نے بند کر دیئے۔ اپنی پریشانی کو اس نے بیوی سے چھپائے رکھا جس نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ ''مجھ سے وہ پوچھتی رہی کہ میں پریشان کیوں ہوں، مگر میں کسی کو بتانہ سکتا تھا‘‘۔ فرد جرم اگر درست ہے تو ایسی کتنی ہی بے شمار کہانیاں ہوں گی۔ خون آلود داستانیں!...؎
تیری رسوائی کے ''خونِ شہدا‘‘ درپے ہے
دامنِ یار، خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
یہ ایک طویل قانونی جنگ ہوگی۔ امریکہ میں ان بے شمار کمپنیوں کے خلاف گھیرا تنگ ہو جائے گا، اخبار کے مطابق جن کا وجود کاغذی ہے۔ پاکستان سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ میں کہرام برپا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر موصول ہونے والے تبصروں کی تعداد اس سے کچھ ہی کم ہے،جتنے کہ افغانستان پر حملے کے ہنگام ہوئے۔ سوا دوسو کے مقابلے میں 178۔ ان میں سے ایک تبصرہ یہ ہے: میں نے اپنے کتّے کو ایم اے کی ڈگری دلوا دی۔تھوڑی سی مزید فیس ادا کرکے وہ ''ڈاکٹر‘‘ بھی بن سکتا ہے۔
خیال یہ ہے کہ چینل ضرور چمکے گا۔ اخبار بھی نکلے گا کہ پسپائی کا مطلب مکمل تباہی ہوگا۔سوال مگر یہ ہے کہ ساکھ تباہ ہونے اور ممکنہ طور پر قانونی کارروائی کے بعد، آمدن کے ذرائع کیا سمٹ اور سکڑ نہ جائیں گے ۔ہُن برسنا بند ہوا تو کیا پھر بھی ملک کا ''سب سے بڑا‘‘ میڈیا گروپ اسی فیاضی کا مظاہرہ کرتا رہے گا؟
جعل سازی کیلئے پاک سرزمین کا ماحول ہمیشہ سازگار تھا۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران اور بھی سازگار ہوا۔ اندازہ یہ ہے کہ کالی معیشت کا حجم سفید معیشت سے کم نہیں۔ اہل زرکا شعار یہ ہوگیا ہے کہ ناجائز روپیہ کماؤکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ''جائز‘‘ کاروبار اگر کرنا ہو تو ملک سے باہر بھیج کرہنڈی کے ذریعے واپس منگوالو۔ ملک میں 9ہزار سے زیادہ ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں اوران میں سے چند ایک ہی ایسی ہیں، دھوکہ دہی اورنوسربازی میں جو ملوث نہیں۔
آئی ایس آئی اور آئی بی کو فوراً ہی تفتیش کا آغاز کرنا ہوگا۔ شاید اب تو وہ کر چکی ہوں۔ ہمارا مزاج مگر یہ ہے کہ گندگی کو ہمیشہ قالین کے نیچے دھکیل دیا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ خود بدعنوان ہے اور بدعنوانیوں کا سرپرست۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کالی معیشت سے ملک نہیں، فقط افراد ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ ادارے کی تردید سامنے آگئی، مگر عمومی سی، سطحی سی۔ عذر لنگ ۔وضاحت ابھی باقی ہے۔ کیا وہ وضاحت کریں گے یا انتظار کریں گے کہ کسی نئی، زیادہ بڑی اور زیادہ چونکا دینے والی خبر کے شور میںرفتہ رفتہ معاملہ دب جائے۔ اس بستی میں روز ڈاکہ زنی ہے۔ امریکی عدالتوں کا مگر وہ کیا کریں گے؟ وہاں تو صدر اوباما بھی ان کی مدد نہیں کر سکتے۔
پے درپے حادثے ہیں اور پے درپے المناک واقعات۔ ہماری کھال بہت موٹی ہوگئی ہے۔ کوئی ایک مقدمہ توایسا ہو کہ کھوٹا کھرا واقعی الگ کردیا جائے۔ بے حسی معاشرے کی اجتماعی اخلاقی موت پر منتج ہوا کرتی ہے۔
قرآن کریم یہ کہتا ہے: دل سخت ہو جایا کرتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں! حیات کی نشوونما کا انحصار فقط انصاف پر ہوتا ہے، فروغِ عدل پر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved