پچھلے 20سالوں میں بھارت میں ہوئے دہشتگردانہ واقعات کی تفتیش اور حکومتی اداروں کی طرف سے ملوثین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے سوالوں کے گھرے میں رہے ہیں۔ 26 نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں ، جہاں ایک حملہ آور اجمل عامر قصاب کو موقعہ پر زندہ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، کے سوا دیگر تمام واقعات میں ملوثین یا تو گرفتار ہی نہیں ہوئے، یا ایسے افراد کو پکڑا گیا، جن کا ان معاملوں کے ساتھ دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا، یا ان کا رول اس حد تک سطحی تھا، کہ لاعلمی میں انہوں نے کسی کو کار یا سکوٹر پر لفٹ دی تھی، یا کسی پراپرٹی ڈیلر کے پاس لے جاکر ان کو مکان کرایہ پر دلانے میں مد د کی تھی۔ 2000ء میں دہلی کے لال قلعہ اور 2001ء میں پارلیمنٹ پر حملوں میں کچھ اسی طرح کے افراد پر مقدمات چلائے گئے۔مگر2002ء میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی تفتیش نے تو سبھی ریکارڈوں کو مات دے دی ہے اور تفتیشی ایجنسیوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ اس حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری کی حال ہی میں شا ئع کتاب''گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے ‘‘ نے عیا ں کیا ہے کہ کس طرح بے قصور مسلم نوجوان دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں قید و بند کی زندگی گزار ر ہے ہیں۔
ستمبر 2002ء کو دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی اس عبادت گاہ پر دھاوا بول کر 32 افراد کو ہلاک کیا۔ کمانڈوز نے دونوں حملہ آوروں کو 24 گھنٹے تک چلنے والے ایک اعصاب شکن آپریشن کے بعد ہلاک کیا۔ تقریباً ایک سال تک اس کیس کی تفتیش اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ نے کی۔مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ایک سال کے بعد اس کیس کو گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا جس نے ایک ہفتہ کے اندر ہی مفتی منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ مفتی صاحب جمعیت علماء ہند کے ایک سرکردہ کارکن ہیں اور گرفتاری سے قبل 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے ایک ریلیف کیمپ کے انچارج تھے۔نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر متعلقین کو 2006ء کو موت کی سزا سنائی جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر پچھلے سال 2014ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کئے۔
مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں دردناک واقعات کی تفصیل دی ہے، کہ کس طرح ان کو اکشر دھام مندر کے دہشت گردانہ واقعہ میں فریم کیا گیا۔ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا، کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ مفتی صاحب بیان کرتے ہیں:'' اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے دوبارہ میری سرین پر نہایت ہی جنون اور پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساوٗ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرے والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا ۔ پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، جب وہ تھک جاتا تھا ،توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دے کر کہتا اور مارو‘ رک کیوںگئے۔ آخر کار میں بے ہوش ہوگیا۔ پیروں کے تلوے بالکل ہرے ہوگئے تھے، ہاتھوں اور پیروں میں ورم آگیا تھا، چلنا تو درکنار، پیروں پر بھی کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘ مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40 د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہے، کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کس طرح دوران انٹیروگیشن ملزم کو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈا داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعے پٹرول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔
پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فرانزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کے ہینڈرائٹنگ اور ان خطوظ کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی ، کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے، کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے، اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ، کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچٖڑ میں لت پت تھیں، اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے اور ان حملہ آور وںکے جسموں میں 46 گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔ مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔
اس کتاب کی رونمائی بھی کچھ کم ڈرامائی اندز میں نہیں ہوئی۔ اس کی اشاعت اور اس کے اجرا پر گجرات انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی تھی ۔ گزشتہ 16اپریل کو جمعیت علماء گجرات کی جانب سے احمد آباد (دریاپور) میں اجراء کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔لیکن عین وقت پر جبکہ جمعیت کے صدر مولانا سید ارشدمدنی تقریب میں شرکت کے لیے احمد آباد پہنچ چکے تھے ، ضلع انتظامیہ نے تقریب پر پابندی عائد کر دی۔ بعد میں پچھلے ہفتہ اس کتاب کا اجرا دارالحکومت نئی دہلی میں کیا گیا۔یہ کتاب عدلیہ اور میڈیا کیلئے بھی ایک سبق ہے۔ جب دہشت گردی کے معاملہ میں کوئی گرفتار ی عمل میں آتی ہے تو میڈیا بطور خاص الیکٹرانک میڈیا اپنی ٹی آر پی میں اضافہ کرنے کی ہوڑ میں ان بے گناہوں کا میڈیا ٹرائل چلاتا ہے اور دن رات دہشت گردی کا ڈھول بجایا جاتا ہے لیکن جب کوئی مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام سے باعزت بری ہوتاہے توسب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کوئی بھی ایک لائن کی خبر دکھانا پسند نہیں کرتا ۔
دہشت گردی کی یہ کہانی جس میں 32 بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں، مفتی منصوری کے الزامات سے بری ہونے سے ختم نہیں ہوسکتی ۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے، اور اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی۔ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی۔سوامی نارائن فرقہ جو اکشر دھام مندر کے متعلقین ہیں کے ساتھ انصاف ابھی کہا ں ہوا ہے۔ گجرات پولیس نے تو ان کو بھی سرا سر دھوکہ دیا ہے۔ جھوٹ کے سہارے بے گناہ افراد کو اپنی تفتیش کی خوراک بنا کر میڈل اور ترقیاںتو حاصل کی جاسکتی ہیں، مگر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ بے قصور زائرین کے قاتل اور اس واقعہ کی پلاننگ کے ملزمان اب بھی کیفر کردار کو نہیں پہنچے ہیں۔انصاف کا تقاضا ہے کہ اس واقعہ اور دیگر ایسے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہو، تاکہ دہشت گردانہ واقعات پر یقینی طورپر لگام لگائی جاسکے۔