تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-05-2015

کسی معجزے کا امکان معدوم ہے

پرسوں ملتان کے حلقہ پی پی 196 میں ضمنی الیکشن ہے۔ بظاہر یہ صوبائی حلقہ ہے اور بہت زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل نہیں ہے لیکن اس صوبائی حلقے میں تین لوگوں کی عزت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ شاہ محمود قریشی کی‘ رانا محمودالحسن کی اور وحید ارائیں کی۔ اس ''عزت‘‘ سے مراد ہے کہ ہر سہ اشخاص کی جتنی بھی عزت ہے وہ دائو پر لگی ہوئی تصور کی جائے۔ اس حلقے میں الیکشن تو دو دن بعد ہے مگر جہاں تک میرا اندازہ ہے اس حلقے میں شاہ محمود قریشی ہار رہے ہیں۔
حلقہ پی پی 196 ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 150 کے نیچے والا صوبائی حلقہ ہے اور اس قومی حلقہ سے شاہ محمود قریشی ایم این اے ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں شاہ محمود قریشی دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ ملتان کے حلقہ این اے 148 سے اور حلقہ این اے 150 سے۔ حلقہ این اے 148 ملتان شہر سے جڑا ہوا حلقہ ہے لیکن اس میں بہت سا دیہاتی علاقہ بھی شامل ہے۔ یہ شاہ محمود قریشی کا آبائی حلقہ ہے۔ آبائی سے مراد یہ نہیں کہ یہاں سے ان کے آبائو اجداد الیکشن لڑتے رہے ہیں بلکہ یہ شاہ محمود قریشی کا اپنا پرانا حلقہ ہے جہاں سے وہ ہمیشہ الیکشن لڑتے ہیں۔ شاہ محمود نے یہاں سے پہلا الیکشن 1985ء میں لڑا لیکن تب وہ قومی اسمبلی کے بجائے صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوئے تھے۔ یہ غیر جماعتی انتخابات تھے۔ بعد میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ دوسری بار وہ 1988ء میں صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے طور پر کابینہ میں شامل رہے۔ تیسری بار وہ 1990ء میں صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور نوازشریف کی کابینہ میں وزیرخزانہ رہے۔ 1993ء میں وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ وہ اس حلقہ سے 1993ء میں پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
1997ء کے انتخابات میں وہ اس حلقہ سے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں ہارگئے۔ 2000ء سے 2002ء تک شاہ محمود قریشی ضلع ناظم ملتان رہے۔ 2002ء میں اور پھر 2008ء میں وہ اسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوئے۔ اس حساب سے یہ حلقہ یعنی این اے 148 ان کا پرانا حلقہ تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ اپنے پرانے حلقے سے بھی امیدوار تھے اور ملتان شہر کے حلقہ 150 سے بھی۔ وہ پہلی بار کسی شہری حلقے سے امیدوار تھے اور اس امیدواری کے پیچھے ایک خوف بھی تھا اور ایک امید بھی۔ خوف یہ تھا کہ وہ اپنے پرانے حلقے سے کہیں ہار نہ جائیں اور امید یہ تھی کہ شہروں میں اور خصوصاً ملتان شہر میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو سامنے رکھیں تو اس شہری حلقے سے شاہ محمود قریشی کے جیتنے کے امکانات ان کے پرانے حلقے کی نسبت بہت زیادہ روشن تھے۔ اس خوف اور امید نے انہیں حلقہ این اے 150 سے الیکشن لڑنے پرمجبور کردیا۔ نتیجہ وہی نکلا جس کا ڈر تھا یعنی شاہ محمود قریشی اپنے پرانے حلقے سے جہاں سے وہ گزشتہ اٹھائیس سال سے الیکشن لڑ رہے تھے‘ ہار گئے اور حلقہ این اے 150 سے جہاں سے وہ پہلی بار الیکشن لڑ رہے تھے‘ جیت گئے۔ اپنے آبائی حلقہ سے وہ نسبتاً نووارد امیدوار سے ہار گئے۔ اس حلقہ سے شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی‘ عبدالغفار ڈوگر مسلم لیگ ن اور علی موسیٰ گیلانی پیپلزپارٹی سے امیدوار تھے۔ شاہ محمود قریشی نے اس حلقہ سے پی ٹی آئی جوائن کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ ضمنی الیکشن میں یہاں سے پیپلزپارٹی کے امیدوار اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا چھوٹا بیٹا علی موسیٰ گیلانی امیدوار تھا۔
اگر اس حلقہ میں شاہ محمود اور دیگر امیدواروں کے گزشتہ تین انتخابات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے 2008ء میں یہاں سے اٹھاسی ہزار ووٹ لئے۔ 2012ء میں یہاں ضمنی انتخاب ہوا۔ یہ سیٹ شاہ محمود قریشی کے استعفے سے خالی ہوئی تھی۔ یہاں سے علی موسیٰ گیلانی ترانوے ہزار ووٹ لے کرمسلم لیگ ن کے امیدوار عبدالغفار ڈوگر سے پچاس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت گیا۔ 2013ء کے الیکشن میں شاہ محمود قریشی‘ 2012ء کے ضمنی انتخابات میں بیالیس ہزار ووٹ لینے والے غفار ڈوگر سے ہار گئے۔ غفار ڈوگر نے اکیاسی ہزار اور شاہ محمود قریشی نے چونسٹھ ہزار ووٹ لئے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور والد کی وزارت عظمیٰ کے زیرسایہ ترانوے ہزار ووٹ لینے والے علی موسیٰ گیلانی کو پچاس ہزار ووٹ ملے۔ یہاں پر عبدالغفار ڈوگر نے شاہ محمود کی ''منجی ٹھوک‘‘ کر فارغ کردیا۔
حلقہ این اے 150 ملتان III سے شاہ محمود قریشی نے بیانوے ہزار ووٹ لئے‘ مسلم لیگ ن کے امیدوار اور اسی حلقے سے دوبارہ جیتنے والے رانا محمودالحسن نے اناسی ہزار ووٹ لئے۔ قومی اسمبلی کے اس حلقہ کے نیچے دو صوبائی سیٹیں پی پی 195 اور پی پی 196 تھیں۔ پی پی 195 سے پی ٹی آئی کا امیدوار جاوید انصاری مسلم لیگ ن کے امیدوار عامر سعید انصاری سے تقریباً نو ہزار ووٹوں سے جیت گیا جبکہ پی پی 196 پر مسلم لیگ ن کے امیدوار وحید ارائیں نے پی ٹی آئی کے امیدوار رانا عبدالجبار کو چار ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ اب یہ سیٹ وحید ارائیں کے نااہل ہونے سے خالی ہوئی ہے۔ اس کی نااہلی کی درخواست پی ٹی آئی کے ہارنے والے امیدوار رانا عبدالجبار نے دائر کی تھی اور دو سال کی مسلسل بھاگ دوڑ اور محنت کے بعد وحید ارائیں کو نااہل قراردے دیا گیاجبکہ اس کی اس فیصلے کے خلاف اپیل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے خارج کردی تھی۔ ملتان کے شہری حلقہ پی پی 196 سے جیتنے والا وحید ارائیں صوبائی وزیرجیل خانہ جات تھا۔ ملتان شہر سے پی ٹی آئی نے دو قومی اور دو صوبائی سیٹیں جیتی تھیں۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جاوید ہاشمی نے اور دوسری شاہ محمود نے جیتی تھی۔
رانا محمودالحسن 2013ء میں مسلم لیگ کا امیدوار تھا۔ دو مرتبہ اسی حلقہ سے الیکشن جیتنے والے رانا محمودالحسن کے خلاف حلقہ کی فضا خاصی ناخوشگوار تھی۔ لوگوں سے ہمہ وقت تعلق رکھنے کے باوجود اس بار لوگ رانا محمودالحسن سے تنگ آ کر شاہ محمود کے ساتھ چل رہے تھے۔ رانا محمودالحسن کی برادری کے لوگوں اور خصوصاً اس کے بھائی کے بارے میں حلقہ کے عوام میں خاصے منفی جذبات پائے جاتے تھے۔ دیگر کئی الزامات کے علاوہ بنیادی الزام قبضہ گروپوں کی سرپرستی تھا اور اس میں حقیقت بھی تھی۔ میں بعض واقعات سے ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ یہ بات صرف افواہ نہیں تھی۔ اس حوالے سے شاہ محمود کو ایک قدرتی امداد حاصل ہوگئی اور یوں شاہ محمود یہ الیکشن جیت گئے۔
الیکشن جیت کر شاہ محمود ملتان سے عمومی طور پر اور اپنے حلقے سے خصوصی طور پر غائب ہوگئے۔ حلقہ 150 مئی 2013ء کے بعد لاوارث پڑا تھا۔ شاہ محمود قریشی کو بڑی سیاست سے ہی فرصت نہیں تھی۔ پارٹی اجلاس‘ سازشیں‘ پارٹی کے اندر اپنے گروپ کی دیکھ بھال‘ جاوید ہاشمی کے خلاف کارروائیاں‘ دھرنے اور دیگر مصروفیات۔ جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف سے چھٹی کے بعد پہلے نمبر پر براجمان ہونے کا شوق‘ بزعم خود عالمی سطح کے لیڈر کے طور پر مصروفیات اور دیگر لیڈروں کو دائیں بائیں کرنے کی کاوشوں میں مصروف شاہ محمود قریشی کے لئے حلقے کے لئے ایک منٹ کا وقت بھی نہیں تھا۔ اب کی بار حلقے کی فضا ان کے لئے انتہائی ناموافق ہے۔ جاوید ہاشمی کی خالی کردہ نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی فتح کو شاہ محمود اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عامر ڈوگر حلقے میں موجود اپنے اور لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کے حوالے سے انتخابی سیاست کے لئے نہایت موزوں امیدوار تھا اور شہر میں اپنے سیاسی خاندان کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتا تھا‘ اس لئے اس کی جیت میں بظاہر شاہ محمود قریشی کا اس کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں تھا کہ اسے تحریک انصاف میں لانے کا فریضہ انہوں نے سرانجام دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی پی 196 میں تین لوگوں کی عزت دائو پر لگی ہوئی ہے؛شاہ محمو‘ رانا محمودالحسن اور وحید ارائیں کی ۔
اگر رانا محمودالحسن ہار گیا تو پہلے قومی اسمبلی سے فارغ ہونے والا رانا محمود صوبائی سیٹ پر ہارنے کے بعد سیاست سے فارغ ہو جائے گا۔ وحید ارائیں اس صورت میں میاں صاحبان کی نظروں سے گر جائے گا کہ اس نے انتخابی مہم میں دل سے رانا محمودالحسن کی حمایت نہیں کی اور پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست کی صورت میں شاہ محمود کی جتنی بھی وقعت ہے کم از کم ملتان کی مقامی سیاست کے حوالے سے صفر ہو جائے گی اور گمان غالب ہے کہ ایسا ہونے جا رہا ہے۔ 2013ء میں شاہ محمود یہ الیکشن نہیں جیتے تھے بلکہ رانا محمودالحسن یہ الیکشن ہارا تھا۔ اب کی بار رانا محمودالحسن یہ الیکشن نہیں جیتے گا بلکہ شاہ محمود قریشی ہارے گا اور اچھے خاصے مارجن سے۔ رانا عبدالجبار تو صرف قربانی کا بکرا بنے گا۔
پی ٹی آئی میں اس الیکشن کے حوالے سے شاہ محمود اور عامر ڈوگر کے خلاف اندرونی لڑائی شدت سے جاری ہے۔ اس لڑائی کے طفیل یہ مشکل الیکشن رانا محمودالحسن کیلئے آسان ہوتا جا رہا ہے۔ عمران کا ملتان کا حالیہ جلسہ بھی ویسا ہرگز نہیں تھا جیسا عامر ڈوگر اور جاوید ہاشمی کے الیکشن سے قبل عمران خان کا سابق جلسہ ہوا تھا۔ فی الحال صورتحال یہی ہے کہ شاہ محمود قریشی اینڈ کمپنی کی ہوا اُکھڑی ہوئی ہے۔ اگر کوئی معجزہ ہوگیا تو اور بات ہے لیکن فی الحال کسی معجزے کا امکان بھی خاصا معدوم ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved