تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-05-2015

بس ایک اشارہ چاہیے

پاکستانی آئی ٹی کمپنی کے نیویارک ٹائمز میں سامنے آنے والے سکینڈل کے بعد جس طرح کی پھرتیاں وفاقی حکومت نے دکھائی ہیں اس کے بعد رشک ہونے لگا ہے۔ ہماری ایف آئی اے بھی ایف بی آئی بن گئی ہے۔ سکینڈل سامنے آتے ہی اس کمپنی کے دفاتر پر چھاپے مار کر گرفتاریاں کیں اور دفاتر سیل کر دیے ہیں۔ 
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے تعلیم کے نام پر فراڈ اور جعلی ڈگریوں کی فروخت سنگین جرم ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی قبیح حرکت لیکن ایف آئی اے پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ کیا وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب انہیں اوپر سے اشارہ ملے اور وہ ایکشن میں آئیں؟ اپنی طرف سے وہ کچھ نہیں کریں گے چاہے ملک کو جو چاہے لوٹتا رہے؟ 
کیا یہ وہی آیف آئی اے نہیں جس کے ڈی جی ایف آئی اے نے وزیراعظم آفس سے ایک فون پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف جاری انکوائری کے افسران کو نہ صرف راتوں رات تبدیل کیا بلکہ کیس کو کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا گیا کیونکہ گیلانی صاحب نے ایک ملاقات میں نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ ان کی جان چھڑائی جائے۔ چوہدری نثار کو اس کا پتہ بھی نہیں چلنے دیا گیا۔ ایک ماہ بعد جب پتہ چلا تو چوہدری نثار ڈی جی ایف آئی اے پر برس پڑے اور ایسے برسے کہ پورے میڈیا کو اندر کی خبریں ریلیز کی گئیں کہ چوہدری صاحب نے ڈی جی ایف ائی اے کا کیا حشر کیا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر عاصم حسین جب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے معامالات چلا رہے تھے تو ان کے دور میں جس طرح ناقص میڈیکل کالجوں کو تسلیم کر کے ڈگریاں دینے کا اختیار دیا گیا اور اس ملک کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تب بھی ایف آئی اے سوتی رہی کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسین زرداری صاحب کے دوست تھے۔ باقی چھوڑیں ذوالفقار مرزا کہتے ہیں کہ ایک عاصم حسین کو گرفتار کر کے تھوڑا سا رگڑا لگائیں تو دیکھیں کیسے وہ اربوں روپے اگل دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ رگڑا لگائے کون؟ جب ایف آئی اے اور نیب جیسی باڑ ہی کھیت کے دشمنوں کے ساتھ مل چکی ہے۔ 
رحمن ملک کے دور میں سیف سٹی پراجیکٹ سامنے آیا ۔ پہلے ایک سو چوالیس ملین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا تو پتہ چلا اس میں چوبیس ملین ڈالر کا کمشن تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو اس کی لاگت ایک سو بیس ملین ڈالر کی گئی ۔ بات یہیں نہیں رکی۔ چین سے ناقص سکینرز منگوائے گئے جو پڑے پڑے زنگ آلود ہو گئے۔ اسی پر بس نہ ہوئی‘ اس چینی کمپنی کو چینی بنک سے ہی کمرشل قرضہ لے کر اس میں سے ستر ملین ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی گئی جو وہ لے کر چلتی بنی اور ایک ٹکے کا کام نہ ہوا۔ مجھے خود چیئرمین نیب قمرالزماں چوہدری نے بتایا تھا جب وہ سیکرٹری داخلہ تھے کہ کوئی یہ بات کیوں نہیں کرتا کہ اس چینی کمپنی کو ستر ملین ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کیسے کی گئی تھی اور کس نے کرائی تھی؟ اب وہ چیئرمین نیب ہیں۔ اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ ذرا پتہ تو کر کے بتائیں کہ وہ ادائیگی کس نے کرائی تھی کیونکہ نیب کے پاس وہ سکینڈل پانچ برس سے پڑا ہے‘ تو قمرالزماں چوہدری کچھ نہیں بولتے... اور نہ ہی بولیں گے۔ 
ایف آئی اے اور نیب انجم عقیل سکینڈل پر بھی خاموش ہیں جس نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کو چار ارب روپے کا دن دیہاڑے چونا لگایا اور عدالت میں اپنا جرم تسلیم کرنے کے باوجود مزے کر رہا ہے۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس کا ٹرائل کرتا کیونکہ اس کی پشت پر چوہدری نثار علی خان تھے جو اس وقت وزیرداخلہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایل این جی سکینڈل میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ انکوائری ہوئی۔ جرم ثابت ہوئے۔ آج بھی ملزمان ٹی وی چینلز پر آپ کو جمہوریت کے فوائد گنواتے نظر اتے ہیں۔چار ارب روپے کا این سی ایل سکینڈل جس میں چار ریٹائرڈ فوجی ملوث تھے وہ بھی دفن ہوگیا۔ 
فوجی فرٹیلائزر کا سکینڈل سامنے آیا۔ اس کے ریٹائرڈ جرنیلوں نے کھاد مہنگی کر کے کسانوں کو لوٹا ۔ چار ارب روپے کا جرمانہ ہوا۔ جرمانہ ادا نہ کیا ۔ عدالت سے 'سٹے‘ لے لیا۔ کسانوں کو لوٹ کر ڈائریکٹرز برازیل تشریف لے گئے جہاں بحری کشتی کرائے پر لی گئی اور اس پر ریٹائرڈ فوجی افسران، سویلین افسران اور ان کے خاندان کے لوگوں کو سمندر میں لے جایا گیا۔ کسانوں کو لوٹنے والوں نے وہاں اپنا اجلاس منعقد کیا ۔ جو کچھ ٹکٹوں اور قیام و طعام اور ٹی اے ڈی اے وغیرہ پر خرچ ہوا‘ وہ ایک لمبی داستان ہے۔ سب کچھ اس سے خرچ ہورہا تھا جو بقول مسابقتی کمشن آف پاکستان کسانوں کو مہنگی کھاد بیچ کر کمایا گیا تھا۔ سکینڈل سامنے آیا تو نیب نے کارروائی شروع کی۔ کسی دن سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری سچ بولنے کے موڈ میں ہوں تو قوم کو بتادیں کہ چند برس قبل جی ایچ کیو سے کس نے فون کر کے کہا تھا کہ سر اس سکینڈل کی فائل بند کر دیں۔بدنامی ہورہی ہے ۔ بخاری صاحب کو تکلیف نہیں دیتے۔ چلیں میں ہی بتادیتا ہوں ۔ ہم سب کے فیورٹ جنرل نے انہیں فون کیا تھا جن کا نام تاریخ میں لکھنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سب کچھ ہضم۔ 
ایک اور سن لیں۔ چوہدری نثار نے خود پوری قوم کو بتایا کہ رحمن ملک نے دو ہزار سرکاری اور سفارتی پاسپورٹس کا اتوار بازار کھول لیا تھا ۔ دل کھول کر یہ غیرقانونی کام کیا گیا ۔ رحمن ملک دور میں سرکاری پاسپورٹس بیچے گئے۔ ملک کی عزت نیلام ہوتی رہی۔ بقول چوہدری نثار علی خان ایسے ایسے لوگوں کو بھی رحمن ملک دور میں سفارتی اور سرکاری پاسپورٹس جاری ہوئے کہ نام بتائیں تو شرم سے سر جھک جائیں۔ اب انہی رحمن ملک صاحب کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا چیئرمین لگایا گیا ہے۔ اب وہ ایف آئی اے کو بلا کر اس کا احتساب کیا کریں گے۔ 
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ای سی سی کے اجلاس میں ڈاکٹر عاصم حسین کی وزارت کے خلاف ایل این جی کے کنٹریکٹ میں ہونیو الی بے ضابطگیوں پر انکوائری کا حکم دیا تو آج تک پتہ نہیں چلا کہ وہ انکوائری کہاں گئی‘ بلکہ کچھ دنوں کے بعد بے چارے ڈاکٹر حفیظ شیخ ہی وزیر خزانہ نہ رہے۔ سنا ہے شیخ صاحب آج تک پچھتاتے ہیں کہ وہ اپنے سے بڑے مگر مچھ پر کیوں ہاتھ ڈال بیٹھے تھے جو ان سے بیالیس ارب روپے ایل این جی ڈیل کی منظوری چاہتے تھے۔ سلیم مانڈوی والا کو لایا گیا جن کے بارے میں اسلام آباد میں مذاق بن گیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت کے آخری دنوں میں تو مانڈوی والا نے ''منڈی‘‘ ہی کھول لی تھی۔ ایسی ایسی داستانیں اسلام آباد کے ایوانوں میں ابھریں اور دم توڑ گئیں کہ اب تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ ملک کیسے اتنے بڑے پیمانے پر ہونیو الی کرپشن کو برداشت کر گیا ہے اور کوئی آسمان نہیں گرتا۔ کسی کونے سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔
ایف آئی اے اس وقت بھی خاموش رہتی ہے جب اس کے اپنے باس وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان فرماتے ہیں کہ چوہدری اعتزاز احسن سیاست کو کرپشن کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔ پھر کیا ہوا؟ وزیراعظم انہی اعتزاز احسن صاحب سے معافی مانگتے ہیں اور ایف آئی اے اسے سیاستدانوں کا گھریلو جھگڑا قرار دے کر سوئی رہتی ہے۔ 
سپریم کورٹ ایف آئی اے کو کہتی ہے کہ وہ آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں ان سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سے رقومات لی تھیں ۔ عدالت میں بیگ صاحب اور درانی صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ سیاستدانوں کو کرپٹ کر کے اپنی ڈیوٹی نبھا رہے تھے کیونکہ اس کے احکامات انہیں ایوان صدر سے غلام اسحاق خان نے دیے تھے۔ کیا معصومیت ہے! کتنے قانون پسند تھے جنرل بیگ اور جنرل درانی جو غلام اسحاق کو ناں نہ کرسکے۔ کتنا ظلم ہوا ان بے چاروں پر کہ عدالت نے ان کے اس جواز کو نہ مانا اور جی ایچ کیو کو ان کے خلاف کورٹ مارشل کا حکم دیا جو آج تک نہیں ہوا۔ 
یہی ایف آئی اے کمشن بنا کر بھول ہی گئی۔ دو برس گزر گئے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بنائے گئے انکوائری کمشن کا کیا بنا؟ کسی سے تفتیش کی؟ کسی کو گرفتار کیا؟ میاں نواز شریف سے پوچھ گچھ؟ شہباز شریف سے سوال و جواب؟ 
نیب میں اسحاق ڈار نے لکھ کر دیا کہ وہ میاں نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ کرتے رہے اور آج وہ اس ملک کے خزانہ کے وزیر ہیں۔ جب سرے محل کا سکینڈل آیا تھا تو زرداری صاحب حسب معمول مکر گئے کہ سرے محل ان کا ہے۔ چپکے سے اسی سرے محل کو 2004ء میں چار ملین پونڈ میں بیچ کر کھا گئے۔
ایف آئی اے حکمرانوں کے گھر کی لونڈی بن کر خاموش رہتی ہے۔ اشارہ مل جائے تو اس سے بہتر دنیا کی کوئی ایجنسی نہیں۔ اشارہ اگر وزیراعظم ہائوس سے ملے تو ایف آئی اے اپنے وزیرداخلہ کو بتائے بغیر ہی یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کی انکوائری کراچی سے اسلام آباد لے آتی ہے تاکہ اسے فائلوں میں ختم کر دیا جائے۔ نہ کرنا ہو تو دن دیہاڑے چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز ایک دوسرے کی کرپشن کے ثبوت اٹھائے پھریں‘ کچھ نہیں کرے گی۔ ذوالفقار مرزا چلاتے رہیں‘ سکینڈلز کی تفصیلات بتاتے رہیں مگر اسے دو دوستوں کا ذاتی جھگڑا سمجھ کر پورا ملک تماشا دیکھتا رہے گا۔ 
نیویارک ٹائمز کا شکریہ۔ اس کی وجہ سے ہمیں پتہ چل گیا کہ اس ملک میں بھی ایف آئی اے نام کا کوئی ادارہ بھی موجود ہے، جو چند گھنٹوں میں اس فراڈ میں ملوث کمپنی کے درجنوں ملازمیں کو گرفتار اور دفاتر کو یوں سیل کر سکتا ہے کہ ایف بی آئی بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آئے۔ شرط ایک ہے۔ بس ایک اشارہ چاہیے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved