٭ 500 سے زائد ٹوبیکو شاپس پر شیشہ اور منشیات میں استعمال ہونے والی اشیاء کی کھلے عام فروخت۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس مبینہ طور پر جیب گرم کرنے میں مصروف۔ زیادہ تر شاپس پولیس دفاتر کے قریب۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پوش علاقوں میں فلیٹس کرایہ پر لے کر شیشہ سموکنگ کرتے ہیں۔
٭ شہر میں 5000 سے زائد جادو ٹونے کے ڈیرے۔ کبھی کسی ادارے نے کارروائی کی نہ تنظیموں نے آواز اٹھائی۔ جعلی عاملوں کا زیادہ شکار خواتین۔ متعدد عزت بھی گنوا بیٹھیں۔ تعویذوں کو زعفران سے لکھنے کے لیے بھاری رقم طلب کی جاتی ہے۔ حکومت کا منظور شدہ عامل بتا کر پرائز بانڈ کا نمبر دینے کا دھندا بھی کرتے ہیں۔ بعض فراڈیوں نے ضرورتمندوں کو ورغلانے کے لیے ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔
٭ شاہراہوں اور گلی محلوں میں ملاوٹ شدہ کھلا پٹرول سرعام فروخت۔ پٹرول بوتلوں اور گیلنوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ گاڑیوں کے انجن تباہ ہو رہے ہیں۔ ضلعی حکومت ممنوعہ کاروبار روکنے میں ناکام۔
٭ 69 میں سے 65 چینی ریلوے انجن خراب۔ ریلوے انجنوں کی فزیبلٹی سٹڈی کرانے کا فیصلہ۔ انجن 2002ء سے 2004ء تک مرحلہ وار پاکستان پہنچے۔ شروع میں مرمت بھی کی گئی۔ دس سال بھی نہ چل سکے۔ قابل استعمال سپیئر پارٹس نکال کر باقی کو سکریپ میں فروخت کرنے کی بھی تجویز۔
٭ انتظامیہ کی غفلت۔ پارکس ڈیٹ پوائنٹ بن گئے۔ فیملیز سیرو تفریح سے کترانے لگیں۔ رات گئے تک جوڑے محفوظ مقامات پر پناہ لیے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ مٹھی گرم ہونے کے باعث ان کی چوکیداری کرتی ہے۔ جناح باغ کا پہلا نمبر‘ نیشنل اور جلو پارک میں بھی جوڑوں کی کھلے عام موج مستیاں۔
٭ فائر بریگیڈ نے 3 منٹ کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا۔ آلات ناکافی‘ ٹول بکس کی جالی نہ تھی۔ نوزل کو اینٹیں مار کر توڑا گیا۔ دہشت گردی سے لڑنے والوں کے پاس آگ بجھانے کے آلات نہیں۔ میٹرو بس‘ سولر انرجی‘ فلائی اوور بنانے والی حکومت نے ریسکیو ادارے کو اپ گریڈ نہیں کیا۔ نامعلوم افراد آگ بجھانے کے بہانے گھر سے زیورات لے گئے‘ فون کی گھنٹیاں بجتی رہیں‘ فائر بریگیڈ والے خاموش رہے۔
٭ بصیرپور چوکی کے پیچھے نامعلوم افراد نے 3 گدھوں کی کھالیں اُتار لیں۔
٭ بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری۔ شہریوں کو پانی کی قلت کا بھی سامنا۔ شب معراج کے موقع پر بھی لاہور‘ گجرات‘ گجرانوالہ اور سرائے عالمگیر میں لوڈشیڈنگ میں کمی نہ ہو سکی۔
٭ ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں 68 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 30 ہزار کرنے کا فیصلہ۔
٭ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کے چہیتے 77 افراد 951 ایکڑ اراضی پر قابض۔ 37 افراد کو ٹیوب ویل‘ 40 کو نہر سے سیراب ہونے والی زمین الاٹ کی گئی۔ 35 سے 50 ہزار روپے سالانہ فی ایکڑ وصول کیے جاتے ہیں۔ زمین پٹے پر دینے کے حوالے سے کوئی قانون نہیں۔
٭ گیس پر 145 ارب کے ٹیکس کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔
٭ ترقیاتی سکیموں کے بارے میں بوگس معلومات فراہم‘ 7 محکموں کی کارکردگی ناقص۔ ترقیاتی سکیموں پر آج تک 55 فیصد خرچ ہوئے۔
٭ موٹر سائیکل 15‘ کار 30 روپے گھنٹہ‘ ہسپتالوں میں پارکنگ مافیا کی من مانیاں۔
٭ چڑیا گھر میں جانور گرمی سے بے حال‘ اکثر پنجروں کے کولر خراب‘ پنجروں کے اوپر شیڈ بھی نہیں لگائے جا سکے۔
٭ وفاقی حکومت کا تمباکو مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ۔
٭ حکومتی علاج کے اعلان پر عملدرآمد نہ ہوا۔ شاکر شجاع آبادی گھر واپس۔ آئندہ فنڈز جاری ہونے تک علاج کی سمری نہیں بھیجیں گے‘ ڈاکٹرز۔
٭پاک چین اقتصادی راہداری کے اصل راستے کی دستاویز کہاں ہے۔ اصلی روٹ کی کوئی دستاویز نہیں۔ کسی کے پاس ہے تو پارلیمانی کمیٹی میں پیش کرے۔ ظاہر شاہ
٭ صدر دھاندلی کا جائزہ لینے کے لیے آرڈیننس جاری کیوں نہیں کر سکتے؟ لاہور ہائیکورٹ۔
٭ پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کے کروڑوں ڈالر فراڈ میں ملوث۔ نیویارک ٹائمز نے پول کھول دیا۔ دنیا بھر میں ڈپلومے سے لے کر ڈاکٹریٹ تک کی ڈگری آن لائن بیچی جاتی ہے۔ جعلی ڈگریوں کی تصدیقی اسناد پر جان کیری کے دستخط ہیں۔ 2009ء میں ایگزیکٹ کو عدالت سے 9 لاکھ ڈالر جرمانہ ہوا۔
٭ لاہور ہائیکورٹ: نوازشریف سمیت 10 فریقوں کی طلبی کے لیے اشتہار جاری۔
٭ حکومت راہداری روٹ تبدیل کر کے منصوبہ متنازع بنا رہی ہے۔ بیوروکریسی کی تشکیل میں سندھ اور بلوچستان سے زیادتی ہو رہی ہے... خورشید شاہ
٭ ارکان پنجاب اسمبلی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کرنے لگے۔
٭ عام انتخابات میں 63 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے‘ سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کا اعتراف۔
آج کا مطلع
نظر کا پھیر ہے یا مال ہی کچھ ایسا تھا
کہ ہم تو بھول گئے چال ہی، کچھ ایسا تھا