تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     20-05-2015

معیشت کا استحکام کیسے؟

اقوام اور افراد کی زندگی میں امن و سکون کے بعد رزق کی بڑی اہمیت ہے۔ انسانی معاشروں میں جد وجہد کا ایک بڑا مقصد حصول رزق رہا ہے۔ رزق کی فراوانی جہاں انسان کی جسمانی اور طبعی ضروریات کو پورا کرنے کا سبب ہے وہاں معاشرے میں متمول افراد کو ہمیشہ نمایاں اہمیت دی جاتی ہے۔ رزق کی فراوانی دیکھ کر لوگ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت کا تعین بھی کرتے ہیں ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوںکو بھی رزق سے نواز دیتے ہیں اور کئی مرتبہ کسی حکمت کے پیش نظر اسے اپنے مخلص بندوں پرکشادہ نہیں فرماتے۔
فرعون ، ہامان، شداد اور قارون اللہ تعالیٰ کے نافرمان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو فراواں رزق عطا کر رکھا تھا۔ قارون کے سرمائے کو دیکھ کر تو لوگوں کی اکثریت میں اس کے مال جیسے مال کی تمنا کرنا شروع ہو گئی ۔ جب پر وردگار ِعالم کا عذاب آیا تو اس نے غافل لوگوں کی آنکھیںکھول دیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پناہ طلب کرنے لگے۔
فرعون نے بھی اپنے مال اور اقتدار کی چمک دمک سے قوم کو پھسلائے رکھا اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہ کرنے دیا۔ نتیجتاً اقتدار اورسرمایہ پرست لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے۔ 
نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرنے والوں میں بھی بہت سے نمایاں سرمایہ دار شامل تھے۔ انہوں نے اپنے مال کی وجہ سے گھمنڈ کیا اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو فراموش کر دیا۔ ان کا مال اور دولت ان کی تباہی کاسبب بن گیا اور دنیا و آخرت کی ناکامی ان کا مقدر ٹھہری ۔ ابو لہب مکہ کا سردار اور بہت بڑا سرمایہ دار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ لہب میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ابو لہب کا مال ودولت اس کے کسی کام نہیں آئے گا اور جہنم کے دہکتے انگارے اس کا نصیب ٹھہریں گے۔ما ل و دولت کی فراوانی نے جہاں بہت سے لوگوں کو تباہی کے راستے پر چلایا وہاں اسی مال ودولت کے ذریعے صاحبِ ثروت لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے تونگری عطا فرمائی تھی۔ آپ ؓ نے اپنے مال سے اپنے شوہر نامدار حضرت رسول اللہ ﷺ کی خوب خدمت کی اور اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے اپنا مال خرچ کرنے پر تیار رہیں۔
حضرت عثمانؓ نے غریب اور مسکین مسلمانوں کے لیے تجوری کا منہ کھول دیا۔ جب بھی اسلام کو ضرورت پڑی آپؓ نے پورے جذبے اور خلوص سے مال خرچ کیا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ؓ نے 700 اونٹ مع ساز و سامان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خرچ کرکے نبی کریم ﷺ کی زبان ِمبارک سے سات مرتبہ جنت کی بشارت حاصل کی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی امیر صحابی تھے اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ حضرت خدیجۃؓ الکبریٰ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عثمان غنیؓؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اوردیگر امیر صحابہ کرامؓ کا طرزعمل ہمیں سمجھاتا ہے کہ مال ودولت کمانا کوئی عیب نہیں بشرطیکہ انسان اپنے مال پر سانپ بن کر نہ بیٹھا رہے۔ مال و دولت کے ذریعے اگر انسان اپنی جائز ضروریات اورخواہشات کو پورا کرتا اور معاشرے کے محروم و مجبور اور دکھی طبقات کے کام آتا ہے تو یہ اس کی دنیوی واخروی نجات کا سبب بن سکتا ہے۔ رزق اور سرمائے کے درست استعمال کی نیت رکھنے والے افراد کے لیے قرآن و سنت نے بہت سے نسخے تجویزکیے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے رزق میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ پختہ ایمان : اگر انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت 96 میں واضح فرما دیا کہ ''اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ اختیار کر لیتے تو ہم ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کھو ل دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا چنانچہ ہم نے ان کے کیے کے سبب ان کو پکڑ لیا‘‘۔ یہ آیت بتلا رہی ہے کہ انسان کے پختہ ایمان کے نتیجے میں آسمان سے برکات کا نزول ہوتا ہے اور زمین سے بھی برکات کے دروازے کھل جاتے ہیں جس سے اقوام اور افراد کے رزق میں کسی قسم کی کمی باقی نہیں رہ سکتی ۔
2۔ تقویٰ اور خشیت الٰہی: دنیا میں انواع و اقسام کی چیزیں موجود ہیں جو انسان کو بہت مرغوب ہیں۔ یہ تمام پسندیدہ چیزیں انسان کے لیے حلال نہیں ہیں ؛ چنانچہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ سورہ اعلیٰ کی آیت 14میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:'' تحقیق وہ کامیاب ہوا جس نے پاکیزگی اختیارکی‘‘۔ اور سورہ بقرہ کی آیت 189میں ارشاد ہوا:''اوراللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ ان کامیابیوں میں سے ایک حصہ رزق کی فراوانی بھی ہے۔اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں یوں کیا:''اور جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بناتے ہیں اوراس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا ‘‘۔
3۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل : اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے خوف کو دل میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا بھی انسان کے رزق میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت 3 میں ارشاد فرمایا:'' اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرے گا، پس اللہ اس کے لیے کافی ہوجائے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے مقصد کو پورا کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیزکا مقدر طے کر رکھا ہے‘‘۔
4۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل: جو شخص کھلے دل سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے بھی رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو فراموش کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت 66 میں ارشاد فرمایا:''اوروہ اگر تورات،انجیل اور اپنے پروردگار کی طرف سے اپنی طرف اترنے والے (قرآن ) پر عمل کرتے تو اپنے اوپر اور نیچے سے کھاتے‘‘۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے آسمان و زمین سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔
5: اللہ تعالیٰ سے بخشش اور مغفر ت کو طلب کرنا: جب انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں اور سورہ شوریٰ کی آیت 30 کے مطابق ''جو مصیبت بھی انسان کی زندگی میں آتی ہے اس کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے‘‘۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ چھوڑکر اس سے مغفر ت اوربخشش کو طلب کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور اس کی ساری تنگیاں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے رزق میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتاہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح کی آیت نمبر10،11 ،12میں یوں بیان فرمایا:''اوراپنے رب سے استغفار کرو، وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ وہ تمہارے اوپر فراواں بارشوں کو نازل فرمائے گا، تمہارے مالوں اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغات اور دریاؤںکو رواں فرمادے گا‘‘۔
6۔ پرخلوص دعا: قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنے لیے خلوصِ دل سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم اور دکھ دور فرما کر اس کی خواہشات اورتمناؤں کو پورا فرما دیتے ہیں۔
7۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا : جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بدل ضرور عطا فرماتے ہیں ۔ سورہ سباء کی آیت 39 میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا:'' اور تم جوکچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کا بدل دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے‘‘۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج ، عمرہ اور نکاح کرنے والوں کے رزق میں بھی اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتے ہیں۔ رزق حلال کے لیے کوشاں لوگوںکو قرآن وسنت کی ان تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہوان پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور رزق کے دروازے کھول کر ان کی محرومیوں کا ازالہ فرمائیں گے۔ انشاء اللہ ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved