تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     20-05-2015

اللہ ہی حافظ ہے

پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں غریب آدمی کو دائیںگردے کا علاج کرانے کیلئے بایاںگردہ فروخت کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران اندازہ ہوا‘ اگر آپ عام پاکستانی ہیں تو آپ کو سہانے خواب دیکھنا تو دُور کی بات‘بیمار ہونے کا بھی حق نہیں۔
ایک ڈاکٹر گزشتہ دنوں امریکہ سے آئے۔ کہنے لگے: ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر بیس لاکھ افراد کی آبادی کے لئے چار ہزار بیڈز کا ہسپتال موجود ہونا چاہیے۔ڈبلیو ایچ او والے آ کر دیکھیں اور صرف لاہور کی بات کریں تو اس کی ایک کروڑ کی آبادی کے لئے دل کا صرف ایک ہسپتال ہے۔ پنجاب کارڈیالوجی جہاں سٹنٹ ڈلوانے کے لئے آپ کو ایک سے ڈیڑھ برس اور بائی پاس کرانے کے لئے تین سے چار برس کا وقت ملتا ہے۔ اتنا وقت اگر آپ ادویات کے سہارے گزار گئے اور آپ کی قسمت ہوئی تو آپ بچ جائیں گے وگرنہ انتظارکی سُولی تو لٹکنے کے لئے ہے ہی۔ یہ تو بڑے مریضوں کی بات ہے۔ جو بچے دل کے سوراخ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘ ان کا آپریشن جلد از جلد ہونا چاہیے لیکن آپ پنجاب کارڈیالوجی جا کر خود دیکھ لیں‘ان بچوں کو بھی چار چار چھ چھ سال کی تاریخیں ملی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد بھی انہیں کم از کم دو سے تین لاکھ روپے کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ چلیں پیسے تو بعد کی بات ہے‘ اصل بات باری کی ہے۔ باری آئے گی تو آپریشن ہو گا اور آپریشن ہو گا تو جان بچے گی۔ لیکن یہ مسئلہ نہ حکمرانوں کا ہے نہ اشرافیہ کا۔ اسی لئے تو شریف برادران کے تیسرے دور حکومت میں بھی سارا زور سڑکوں اور میٹرو بسوں پر لگ رہا ہے۔ لاہور میں جو ٹھوکر پر اورنج ٹرین چلائی جانی ہے اتنی رقم سے پورے ملک میں چار ہزار بیڈز کے چالیس جدیدہسپتال بن سکتے ہیں۔ فی الوقت ٹھوکر سے مینار 
پاکستان تک بسیں بھی چل رہی ہیں اور لوگ ان میں سفر بھی کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کا مقابلہ اورنج ٹرین سے نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک آدمی جس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہو اور وہ دل‘ جگر یا معدے کا مریض ہو اور علاج کرانا چاہتا ہو تو کیا اورنج یا بلیو ٹرین اس کے دردوں کا علاج کر سکے گی؟ ایک بیمار آدمی میٹرو بس میں بیٹھتا ہے تو اسے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ سفر میں راحت نصیب ہوئی۔ لیکن جیسے ہی وہ جنرل ہسپتال کے سٹیشن پر اترتا ہے اور ہسپتال میں داخل ہوتا ہے‘ اس کی ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔ اس ہسپتال کا توسیعی منصوبہ چودھری پرویز الٰہی کے ہاتھ سے شروع ہوا تھا۔ یہ عمارت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وجہ کیا ہے کہ اس کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ اس منصوبے کی تختی چودھری پرویز الٰہی نے لگائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ یہ پودا جو چودھری پرویز الٰہی نے لگایا تھا‘ اگر میاں شہباز شریف اس کو پانی اور کھاد ڈالیں گے تو فائدہ کس کو ہو گا؟ غریب مریضوں کی دُعائیں کس کو ملیں گی؟ یہی حال ملتان اور فیصل آباد کے ہسپتالوں کا ہے۔ باقی سارے کاموں کے لئے فنڈز بھی نکل آتے ہیں اور سو سو دنوں کے اندر میگا پراجیکٹس بھی مکمل ہو جاتے ہیں لیکن جہاں عام لوگوں کے بھلے کی بات آ جائے‘ وہاں انا آڑے آ جاتی ہے۔ میں تو اتنا سمجھ سکا ہوں کہ اگر آپ نے اس ملک میں رہنا ہے تو آپ کو ہر قسم کے حادثے کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔ خدانخواستہ آپ کو کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو جاتی 
ہے یا آپ کو فوری آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے‘ تو اگر تو آپ کے پاس بیچنے کو جائیداد‘ گاڑی یا زیور موجود ہے تو آپ خوش قسمت ہیں۔ پھر آپ کسی نہ کسی طرح پرائیویٹ سطح پر علاج بھی کرا لیں گے اور اگر مشیت الٰہی ہوئی تو آپ نئی زندگی بھی دیکھ لیں گے لیکن خدانخواستہ کہیں آگ لگ گئی اور آپ نے آگ بجھانے والے ادارے کو فون کر دیا تو یہ آپ کی قسمت ہے کہ آگ بجھانے والی گاڑی وقت پر پہنچتی ہے یا نہیں‘ اس میں پانی ہوتا ہے یا نہیں۔ رہے حکمران تو ان کے پاس کرنے کے اور بہت سے کام ہیں۔ آپ کا کام یہی ہے کہ خاموشی سے ووٹ دیتے رہیں اور دوبارہ ان سے نہ پوچھیں کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا۔ وہ آپ سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کریں‘ آپ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں۔ اگر یہ سومیگاواٹ کے شمسی پلانٹ کا افتتاح کر کے آپ کو یہ نوید سنائیں کہ اب لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی تو آپ یہ سچ مان لیں۔ آپ اُن سے یہ نہ پوچھیں کہ حضور‘ بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کے منصوبے تو دنیا بھر میں متروک ہوتے جا رہے ہیں‘ یہ صرف گھروں اور عمارتوں کے لئے کامیاب ہیں‘ آپ کیوں شروع کر رہے ہیں؟انہیں یہ بھی نہ کہیں کہ جسے آپ سو میگا واٹ کہہ رہے ہیں وہ کرنٹ ڈی سی وولٹ میں منتقل ہو کر اصل میں پچاسی میگاواٹ رہ جائے گا اور بادلوں‘بارشوں اور ملک کے موسمی حالات کا جائزہ لیا جائے تو بعض ماہرین کے مطابق یہ سو میگا واٹ اوسطاً بیس سے پچیس میگا واٹ بجلی مہیا کرے گا لیکن ظاہر ہے اس کی لاگت اور قیمت عوام کی جیب سے پورے سو میگا واٹ کی ادا کی جا رہی ہو گی ۔ آپ یہ سارے سوال ان سے نہ پوچھیں ‘ اب آپ حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہیں‘ جدھر وہ آپ کو ہانکتے رہیں اُدھر چلتے جائیے۔ یہ سب آپ کے ساتھ اس وقت تک ہو گا جب تک آپ کو مخلص اور کمٹڈ سیاستدان میسر نہیں آتے یا موجودہ سیاستدان اپنا قبلہ درست نہیں کر لیتے۔ 
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما چودھری محمد سرور والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کے لئے گھر تشریف لائے۔ ان سے عجیب قصہ سنا۔ فرماتے ہیں۔حلقہ پی پی 237سے نون لیگ کے لئے نعیم بھابھہ الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ چودھری سرور کہتے ہیں میں نے اس سلسلے میں شریف برادران سے بات کی کہ وہ ان کی جیت کے لئے اپنی جان لگا دیں گے‘ اگر آپ اوکے کرتے ہیں تو ہم نعیم بھابھہ کو نون لیگ کے لئے ٹکٹ دے دیتے ہیں۔ چودھری صاحب کے مطابق انہوں نے ہاں کر دی جس کے بعد چودھری سرور نے نعیم بھابھہ کو گرین سگنل دے دیا۔ برطانیہ اور یورپ میں اپنے حلقہ اثر کو یہاں تک کہہ دیا کہ آکر نعیم بھابھہ کی جیت کے لئے جان لڑا دو۔ کچھ دن ہی گزرے تھے کہ چودھری صاحب کی ملاقات دوبارہ چھوٹے میاں صاحب سے ہوئی۔ ان کا موڈ بدل چکا تھا۔ کہنے لگے نعیم بھابھہ موزوں امیدوار نہیں‘ اس سے پوچھ لو اسے ضلع کی چیئرمینی وغیرہ دے دیتے ہیں‘ لیکن ٹکٹ نہیں ملے گا۔ چودھری سرور کہتے ہیں میں ہکا بکا رہ گیا۔ چھوٹے میاں صاحب سے کہا کہ میں اس سے کمٹمنٹ کر چکا ہوں‘ کیسے یو ٹرن لے سکتا ہوں۔ ضلعی چیئرمینی کا میں پوچھ لیتا ہوں لیکن اگر وہ نہ مانا تو پھر میں تو اُسی کا ساتھ دوں گا چاہے وہ آزاد اُمیدوار ہی کھڑا ہو۔ چودھری سرور کہتے ہیں کہ نعیم بھابھہ چیئرمینی پر نہ مانا جس پر انہوں نے اسے آزاد امیدوار کھڑا ہونے کا مشورہ دیا اور دیگر تگڑے اُمیدواروں کو بھی نعیم کے حق میں قائل کر لیا۔ محترمہ تہمینہ دولتانہ نے نعیم بھابھہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا اور افضل کھچی کو ٹکٹ دلوانا وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ آخر کار پارٹی نے مجبوراً افضل کھچی کو ٹکٹ جاری کر دیا مگر نعیم بھابھہ پارٹی کے فیصلے سے بغاوت کر کے کھڑا ہو گیا۔ مسلم لیگ کے ووٹروں نے بھی اس فیصلے کو ناپسند کیا اور نعیم بھابھہ کو ووٹ دیئے چنانچہ وہ آزاد حیثیت میں بھی کامیاب ہو گیا اور خود تہمینہ دولتانہ ہار گئیں۔ یہ چھوٹی سی مثال ظاہر کرتی ہے کہ اگر تو آپ کے سیاستدان اپنی کمٹمنٹ پر قائم رہنے والے ہیں‘ اگر تو آپ کے پاس چودھری سرور جیسے کمٹڈ سیاستدان موجود ہیں تو پھر تو آپ کو یہ ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا نظر آئے گا لیکن اگر سیاستدان زرداری صاحب کی طرح وعدوں کے بارے میں یہ کہتے رہے کہ وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘ یہ الیکشن میں کئے گئے وعدوں سے صاف مکرتے رہے اور ساری توجہ اپنی تجوریاں بھرنے میں لگاتے رہے تو پھر آپ کا ‘ ہمارا اور اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved