تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-05-2015

دوسری بار کی گنجائش نہیں

اگر آپ اسلام آباد کے رہائشی نہیں‘حال میں تبادلہ ہونے پر آپ آئے ہیں‘ تو بہتر ہو گاکہ وہاںگھر ڈھونڈنے سے پہلے قبر کی جگہ ڈھونڈلیں۔ اگر آپ یہ تدبیر کرنے سے پہلے اچانک مر گئے‘ تو آپ کی میت کے ساتھ خوفناک سلوک کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے دیگر افراد خاندان اسلام آبادآگئے ہیں‘ تو آپ کی موت کے صدمے سے انہیں اتنا دکھ نہیں پہنچے گا‘ جتنا دکھ انہیں قبر کی تلاش میں اٹھانا پڑے گا۔ اسلام آبادمیں صرف دو سرکاری قبرستان ہیں۔ چند سال پہلے کی بات ہے‘ وہاں مرنے والے کو آسانی سے قبر مل جاتی تھی۔ مگر اب یہ سہولت باقی نہیں رہی۔ عارضی طور پہ اسلام آباد میں رہنے والوں کے گھر میں اچانک کوئی موت ہو جائے‘ تو مرحوم کے لئے قبر تلاش کرنا خاندان کے زندہ رہنے والے احباب کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوگا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آبادکے ایک رہائشی کامران اطہر کو چند ہفتے پہلے اپنے چچا کی موت کے بعد ایک ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا‘ جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ مسئلہ تھا قبر کے لئے دو گز زمین حاصل کرنے کا۔ ان کے چچا ایک بنک آفیسر تھے اور وہ بھی ان کی طرح چند برس پہلے ہی کوئٹہ سے ہجرت کر کے اسلام آباد آئے تھے۔ کامران خود بھی سرکاری بنک میں افسر ہیں۔ گھر میں فوتیدگی کے بعد انہیں اندازہ نہیں تھا کہ پہلے کونسا کام کرنا چاہیے؟ روایتی طور پر پہلے کفن اور نماز جنازہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے‘ اس کے بعد میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ کامران نے کفن اور نماز جنازہ کا اہتمام کرنے کے بعد‘ اطمینان سے پہلے ایک قبرستان کا رخ کیا اور پھر دوسرے کا۔ اسلام آباد میں کوئی تیسرا قبرستان موجود نہیں۔ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں قبر کی جگہ ڈھونڈنا مشکل نہیں ہوتا۔ وہاں ساٹھ ستر سالوں کی پرانی قبریں موجود رہتی ہیں اور گورکن کے ساتھ سودے بازی کر کے‘ آسانی سے قبر کی جگہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ طریق کار پرانا ہے۔ عام طور سے تیس چالیس سال پرانی قبر کی جگہ پر دوسری قبر تیار کر لینا
زیادہ مشکل نہیںہوتا۔ کیونکہ وہاں صرف ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں‘ جنہیں قبر کھودتے ہوئے نکال کے علیحدہ رکھ لیا جاتا ہے۔ نئی قبر تیارہو جائے‘ تو ہڈیاں کھودی گئی قبر کے ایک طرف رکھ دی جاتی ہیں اور نئی میت احترام کے ساتھ اندر رکھ دی جاتی ہے۔ دفن ہونے والے کی قسمت اچھی ہو‘تو اسے تیس چالیس سال ایک ہی قبر میں رہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسے مردے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ جو زیادہ خوش نصیب ہوں‘ وہ اپنی قبر میں پچاس ساٹھ سال بھی رہ سکتے ہیں۔ جن کی قسمت اچھی نہ ہو‘ انہیں دس پندرہ سال کے بعد ہی بے لحد ہونا پڑتا ہے۔ اس کی جگہ کوئی نیا مردہ آ جاتا ہے۔ البتہ جنہیں طویل عرصہ قبر میں رہنے کا موقع مل جائے‘ ان کے بارے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ بیس پچیس سال کے بعد وہ مٹی کی غذا بن کر اپنی قبر سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ صرف ہڈیاں پڑی رہ جاتی ہیں‘ جنہیں جمع کر کے نئی قبر کے کونے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ پاکستانی جو باقی دنیا میں نہ گئے ہوں‘ اس عمل کو اپنے مردے کی بے حرمتی تصور کرتے ہوں گے۔ مگر اسلامی روایت کے مطابق وہی درست ہے‘ جو ہم بوجھل اور دکھی دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ یعنی پہلی قبر کے اندر طویل عرصے کے بعد دوسرا مردہ دفنا دینا۔ اگر آپ مکہ یا مدینہ جائیں‘ تو آپ کو ہزاروں سال پہلے بسائے گئے ان شہروں میں کوئی بڑا قبرستان نظر نہیں آئے گا۔ ایک شہر میں ایک ہی قبرستان ہے اور اس کی جگہ بھی بہت مختصر ہے۔میں نے مکہ مکرمہ کا قبرستان دیکھا‘ وہ پہاڑی کے نیچے گہرائی میں ہے۔ اتر کے قریب گیا تو اس وقت ایک نئے مرحوم کی تدفین ہو رہی تھی۔ قبر پر مٹی ڈال کے اسے بند نہیں کیا جاتا بلکہ بڑے بڑے پتھر سے ڈھک دیا جاتا ہے اور نیا مردہ آنے پر پتھر قبر کے اوپر سے اٹھا کے نیا مردہ داخل کر کے ‘قبر دوبارہ ڈھک دی جاتی ہے۔ نئے مردے کو دفنانے کے لئے ایک دو سال سے زیادہ کاانتظار نہیں کیا جاتا۔ اس لئے صدیوں پرانے شہر مکہ مکرمہ کا قبرستان اتنی ہی جگہ میں واقع ہے‘ جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ میں نے کبھی اس کی جستجو نہیں کی کہ مردے کو دفنانے کا اسلامی طریقہ کیا ہے؟ صرف آنکھوں سے دیکھ کر قیاس کر لیا کہ یہی طریقہ مناسب ہو گا۔ اگر غلط ہوتا‘ تو اہل مکہ اس پر کیوں عمل کرتے؟ مکہ مکرمہ اورمدینہ منور ہ کے دونوں قبرستانوں میں آپ کو کسی نامور صحابیؓ ‘ خلیفہؓ اور عالمان دین کی قبر نہیں ملے گی۔ کسی قبر پہ کتبہ ہی نہیں ہوتا‘ جسے دیکھ کر یہ پہچانا جا سکے کہ یہاںکون دفن ہے؟ صرف روضہ رسولﷺ کی وجہ سے نبی کریمﷺ کے مرقد مبارک کوجالی کے باہر سے دیکھا جا سکتا ہے اور رش ہو تو جالی کے قریب جانے والوں کو چھڑیاں بھی پڑتی ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ روضہ رسولﷺ کے اندر جانے کا موقع عطا فرمایا‘ جو میری زندگی کے حسین ترین تجربات ہیں۔
دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ قبروں کی جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ بڑے اور گنجان آباد شہروں میں ہے۔ جبکہ مضافاتی علاقوں میں اور کچھ ملے نہ ملے‘ قبر کی جگہ آسانی سے مل جاتی ہے۔ یورپ میں اس مسئلے کا حل عرصہ پہلے نکال لیا گیا تھا۔ وہاں جو لوگ گھروں سے دور جا کر قبریں بناتے ہیں‘ انہیں لوح مزار نصیب ہو جاتی ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ نئے مشینی نظام سے استفادہ کرتے ہیں۔ شہر میں مختلف محلوں کے اندر مردے کو ''فارغ‘‘ کرنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ اپنے مرحوم عزیز رشتے دار کی میت لے کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ الوداعی دعائیں پڑھنے کے بعد میت وہاں کے عملے کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ وہ اسے مشین کے ایک طرف رکھتے ہیں اور دوسری طرف تھوڑی سی راکھ برآمد ہوتی ہے‘ جسے اکٹھا کر کے ایک ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے اور لواحقین وہ ڈبہ لے کر گھر آ جاتے ہیں اور کسی بھی قریبی جگہ پر دفنا کر لوح مزار لگا دی جاتی ہے۔ بعض لوگ اس راکھ کو بھی دریا یا ندی میں بہا دیتے ہیں۔ یہی ہندوئوں کا طریقہ ہے۔ وہ بھی اپنے مردوں کو جلا کے مٹی کے ایک برتن میں راکھ بھرتے ہیں اور اسے دریائے گنگا پر لے جا کر پانی میں بہا دیتے ہیں۔ جنہیں گنگا تک پہنچنا نصیب نہ ہو ‘وہ راکھ قریبی دریا میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے‘ کسی مسلمان ملک میں یہ دوسرا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا۔ البتہ یورپ میں رہنے والے کچھ مسلمان یہی مشینی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ معروف شاعر ن م راشد کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو اسی طرح مشین میں ڈالا گیا تھا‘ جسے بے خبر لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انہیںہندوئوں کی طرح آگ میں ڈال کر جلایا گیا۔ صرف عربوں کا طریقہ قابل عمل ہے۔ مگر دوسرے ملکوں کے مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ آبادی بڑھ جانے کے بعد مردوں کو دفنانے کے لئے ایسے طریقے اختیار کرنا ضروری ہوتا جائے گا ‘ ورنہ قبرستانوں میں نیا مردہ دفنانے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ بی بی سی کی جس رپورٹ کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ اس میں کامران اطہر کے چچا کو شہر سے 28 کلومیٹر دور لے جا کر دفنانا پڑا تھا۔ سی ڈی اے کہتی ہے کہ اسلام آباد کے اندر جو دو قبرستان بنائے گئے تھے‘ ان میں مزید گنجائش نہیں رہ گئی۔ اگر ایسا ہی رہا‘ تو مردوں کی تدفین سے پہلے ان کے اہل خاندان کو شناختی دستاویزات لانا پڑیں گی۔ اب یہ ہوتا ہے کہ اگر مرحوم کی رہائش اسلام آباد کی تھی‘ تو اسے سیکٹر کے مطابق جگہ دے دی جاتی ہے۔ ورنہ معذرت۔ ایسے مردے کو شہر سے باہر لے جا کر مضافات میں دفنانا پڑتا ہے۔ دارالحکومت کے بہت سے علاقے نجی سوسائٹیوں نے تعمیر کئے ہیں۔ سیکٹر ای الیون‘ انہی میں سے ایک ہے جسے کم از کم پانچ کوآپریٹو سوسائٹیوں نے تعمیر کیا ہے۔ ان سوسائٹیوں کے عہدیدار بتاتے ہیں کہ جب ہم نے یہ سیکٹر تعمیر کیا تھا‘ تو قبرستانوں کے لئے جگہ چھوڑی تھی۔ مگر اب وہ صرف نقشوں میں ملتے ہیں۔ زمین پر کسی قبرستان کا وجود نہیں۔ جہاں قبرستان تھے‘ وہاں دکانیں بنا لی گئی ہیں۔ عین پاکستانی مزاج اور عادات کے مطابق جس خاندان کا فرد عارضی طور پر اسلام آباد میں رہائش کے دوران فوت ہو گیا ہو‘ اسے دفنانے کے لئے کسی جاننے والے کا شناختی کارڈ دکھا کر قبر کی جگہ لے لی جاتی ہے۔ابھی تک تو قبرستانوں میں اہلکاروں کو اس ''کارروائی‘‘ کا پوری طرح اندازہ نہیں ہوا۔ مگر یہ سلسلہ جاری رہا‘ تو ہو سکتا ہے وہاں قبرستانوں میں کمپیوٹر رکھ دیئے جائیں اورشناختی کارڈ دکھا کر دفنائے گئے مردے کا ریکارڈ محفوظ کر لیاجائے تاکہ جو مردہ نئے شناختی کارڈ کے ساتھ ناجائز طریقے سے قبر میں گھس جائے‘ ریکارڈ سے اس کا سراغ لگایا جا سکے اور اگر وہ پہلے سے دفنایا جا چکا ہو گا تو بتا دیا جائے گا کہ یہ حضرت ایک مرتبہ دفن ہو چکے ہیں۔ دوسری بار کی گنجائش نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved