تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     14-05-2015

سرِراہ چلتے چلتے

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا 65 فیصد ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جن کی عمر تیس سال کے لگ بھگ ہے۔ بھاری سرمایہ کاری اور روزگار کی فراہمی کے حوالے سے مختلف سوچ رکھنے والے سیاست دانوں کی طرف سے مچایا گیا شور اپنی جگہ پر‘ لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ حال ہی میں امریکہ سے پاکستان کی سیاحت کو آنے والے ایک صاحب نے مختلف افراد سے بات چیت کرتے ہوئے جب زمینی حقائق کی جانچ کرنا چاہی تو ایسا منظر سامنے آیا جو ہمارے میڈیا کی آنکھ سے بوجوہ اوجھل رہتا ہے۔
بائیس سالہ عبدالرحمن پیسے کے اعتبار سے ایک رکشہ ڈرائیور ہے۔ رکشہ اُس کا اپنا نہیں، لیکن وہ والدین اور چھ بہن بھائیوں پر مشتمل کنبے کا واحد کفیل ہے۔ امریکہ سے آنے والے صاحب، زین، کی ملاقات اس رکشہ ڈرائیور سے پشاور کینٹ کے نزدیک باڑا گیٹ پر اُس وقت ہوئی جب وہ بس سٹاپ تک جانے کے لیے اُس کے رکشے میں بیٹھے۔ اس دوران اُن کے درمیان ہلکی پھلکی گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ جب زین نے عبدالرحمن سے پوچھا کہ اس نے تعلیم حاصل کیوں نہ کی تو اُس کا جواب تھا کہ اس کے خاندان کے پاس وسائل کی کمی تھی‘ اُس کے والد کی صحت اچھی نہ تھی؛ چنانچہ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے اپنے خاندان کی کفالت کرنا اُس کی ذمہ داری تھی۔ اُس نے بتایا کہ اُس کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو سکول جاتا ہے لیکن اُس نے اپنی چھوٹی بہنوں اور ان کی تعلیم کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ غالباً وہ سکول نہیں جاتی ہوں گی۔ اس علاقے کے روایتی کلچر میں خواتین کی تعلیم ایک مشکل امر ہے۔ جب پوچھا کہ وہ کتنے روپے روزانہ کما لیتا ہے‘ تو اُس نے بتایا کہ اوسطاً بارہ سو سے پندرہ سو روپے تک۔ اس میں سے پانچ سو روپے رکشہ کا یومیہ کرایہ ہے جبکہ چار سو کے قریب کا پٹرول صرف ہو جاتا ہے، باقی رقم، تین سے چار سو روپے، وہ گھر لے جاتا ہے؛ تاہم کوئی اچھا دن ہو تو وہ آٹھ سو تک کما لیتا ہے، لیکن قسمت کی یہ مہربانی کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ وہ صبح چھ بجے سے رات اٹھ بجے تک کام کرتا ہے اور اُسے پورے ہفتے میں کسی دن چھٹی نہیں ہوتی۔ جب زین نے اُس سے اس کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو عبدالرحمن کا جواب تھا کہ فی الحال اس کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ طاقت کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ کر سکے۔ اُس کے لہجے سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔ زین کا کہنا ہے کہ اُس نے پورے سفر کے دوران اُس رکشہ ڈرائیور کو ایک لمحے کے لیے بھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غربت ایک الگ چیز ہے لیکن اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی ایک الگ اور انتہائی خوفناک معاملہ ہے۔ بس سٹاپ تک کرایہ تین سو روپے بنتا تھا لیکن زین نے اُسے ایک ہزار کا نوٹ دے کر کہا کہ باقی پیسے وہ رکھ لے۔ عبدالرحمن کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے اور لبوں پر مسکراہٹ ابھر آئی۔ زین نے سوچا کہ اس انتہائی دولت مند افراد کے ملک کے یہ لوگ کتنے سادہ ہیں کہ صرف سات سو روپے ان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر سکتے ہیں تو پھر اس دھرتی پر اداسی کی لہر کیوں؟
زین کی دوسری ملاقات ایک ٹیکسی ڈرائیور سے تھی جس نے اُسے اسلام آباد میں ایک بس کمپنی کے سٹاپ سے لیا۔ وہاں اُس روز شدید بارش ہو رہی تھی۔ کھدی ہوئی سڑکوں اور بارش کے پانی کے باعث گاڑی چلانا مشکل تھا۔ دوران گفتگو زین نے محسوس کیا کہ وہ پریشان ہے۔ پتہ چلا کہ اُس کی بیٹی بیمار ہے لیکن اُس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اسلام آباد میں سرکاری شفا خانوں کا حال ملک کے کسی بھی شہر سے زیادہ خراب ہے۔ اُس کی تنخواہ بارہ ہزار ماہانہ تھی جبکہ کام کے اوقات مقرر نہیں تھے۔ اس کی ملازمت کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ اُسے کسی بھی روز کہا جا سکتا تھا کہ کل سے کام پر نہ آئے جبکہ اپنے خاندان اور بیماری بچی کی کفالت کی ذمہ داری اُس کے کندھوں پر تھی۔ ڈرائیور نے زین کو بتایا کہ اُس کے پاس ہیوی ڈیوٹی لائنس ہے اور وہ بڑی بس بھی چلا سکتا ہے لیکن اس کے لیے اُسے دو ماہ کی خصوصی ٹریننگ درکار ہے۔ اگر اُسے وہ ملازمت مل جائے تو وہ اس بس کمپنی سے پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ لے سکتا ہے اور پھر اُس کے کام کے اوقات بھی طے شدہ ہوں گے؛ تاہم ان دو ماہ کے لیے اُسے پچیس ہزار روپے درکار ہوں گے۔ زین نے اُسے مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دیا تاکہ وہ اچھی زندگی گزار سکے۔ جب اُس نے پوچھا کہ وہ اُسے یہ رقم کب اور کیسے واپس کرے گا‘ تو زین نے اُسے بتایا کہ اسے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، اگر وہ زندگی میں کسی اور پریشان حال شخص کو پائے تو اس کی مدد کر دے اور سمجھ لے کہ قرض ادا ہو گیا۔
سرِ راہ چلتے چلتے جس تیسرے شخص سے زین کی ملاقات ہوئی اور ایک اور بیس سالہ ڈرائیور زاہد خان تھا۔ پاڑاچنار (کرم ایجنسی) سے تعلق رکھنے والے اُس خوبصورت نوجوان سے زین کی ملاقات پشاور میں ہوئی۔ زاہد کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔ اب وہ پشاور میں گاڑی چلاتا ہے۔ اس نے قرض پر رقم لے کر ایک خستہ حال گاڑی خریدی‘ جو کسی طور پر چل رہی تھی۔ انتہائی جارحانہ انداز میں گاڑی چلانے والا زاہد بھی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے؛ چنانچہ اُسے زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ ہر روز کم و بیش ساڑھے چار سو روپے کما لیتا ہے۔ زین نے اُسے بھی بھاری ٹپ دی اور اس کے چہرے پر ایک میٹھی مسکراہٹ بکھر گئی۔
اب آپ اس تصویر کو دوسرے انداز سے دیکھیں کہ اس ملک کی اشرافیہ کس طرح ٹیکس چوری کر کے، بدعنوانی اور قرضے ہڑپ کر کے ملکی وسائل لوٹتی ہے اور ان حرکات پر کسی کو ذرہ بھر شرمندگی نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ کو بھی ضرب عضب کا فیز نمبر دو سمجھنا چاہیے کیونکہ ہمارے مسائل صرف ایک بندوق بردار شخص کو سزا دینے تک محدود نہیں‘ بلکہ ہمیں وہ تمام ڈھانچہ ختم کرنا ہے جو اس شخص کو بندوق تھمانے پر مجبور کرتا ہے۔ نواز شریف، زرداری اور عمران خان عظیم الشان محلات میں رہتے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ اُن کے پاس ملکی آبادی کا 65 فیصد نوجوانوں کو دینے کے کیا ہے؟ کیا وہ انہیں تعلیم، روزگار اور جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں؟ یاد رکھیں، ایک دن آنے والا ہے جب یہ نوجوان اپنی آنکھوں میں مایوسی کے اندھیرے لیے کسی مسیحا کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ان کا ہاتھ اپنے رہنمائوں کے گریبان تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اگر جمہوریت اکثریت کی آواز کا نام ہے تو ملک کی 65 فیصد آبادی اپنے کہنہ مشق رہنمائوں سے کچھ کہہ رہی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اب ملک میں دیر تک نہ دہشت گردی باقی رہے گی اور نہ ہی بدعنوانی۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ ہم بھی اپنی مقامی ''بہار‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved