تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     21-05-2015

امریکہ اور خلیج فارس

کیا امریکہ کا علاقائی اثرورسوخ ختم ہورہا ہے؟اس سوال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوبامہ نے حال ہی میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر خلیج کے چھ عرب ممالک (سعودی عرب،کویت،قطر،بحرین،متحدہ عرب امارات اور مسقط و عمان)کی سربراہی کانفرنس بلائی تھی۔ جس کا مقصد خلیجی ممالک میں عدم تحفظ کے اْن خدشات کو دور کرنا تھا جو وہ (بقول مغربی میڈیا)ایک طاقتور ایران سے محسوس کرتے ہیں۔
مغربی ذرائع کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان مجوزہ جوہری سمجھوتے کیلئے حال ہی میں ہونے والی بات چیت کی کامیابی کے بعد ان خدشات میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے اور وہ اس سلسلے میں امریکی پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔ان خدشات کو دور کرنے اور ان چھ خلیجی عرب ممالک کو ایران کی طرف سے کسی بھی ممکنہ خطرے کے خلاف یقین دہانی کرانے کیلئے امریکی صدر اوباما نے یہ سربراہی کانفرنس بلائی تھی۔لیکن صرف کویت اور قطر کے امیر اس کانفرنس میں شریک ہوئے باقی چار ممالک کی نمائندگی یا تو ان کے وزرائے خارجہ،ولی عہد یا وزرائے اعظم کر رہے تھے۔سعودی عرب کے فرماں روانے کانفرنس سے صرف ایک دن پہلے شرکت سے معذوری ظاہر کر دی۔اسی طرح بحرین کے امیر نے سربراہی کانفرنس میں شرکت کی بجائے ایک ہارس شو دیکھنے اور ملکہ الزبتھ کے ساتھ ملاقات کو ترجیح دی۔
مبصرین کے مطابق ان دو اہم خلیجی ممالک کے سربراہان کی عدم شرکت کا مقصد امریکہ کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کیلئے امریکہ پر انحصار کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اس کیلئے وہ آزادانہ طور پر اقدام کرنے کا حق رکھتے ہیں۔خلیجی ممالک کی یہ سوچ یمن کی موجودہ خانہ جنگی میں سعودی عرب اور متحدہ امارات کی قیادت میں فوجی مداخلت سے ظاہر ہورہی ہے۔جہاں امریکہ کی طرف سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے سعودی عرب اور متحدہ امارات،آٹھ دیگر عرب ممالک کو ساتھ لے کر عملی طور پر جنگ میں کود پڑے ہیں۔
کانفرنس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق امریکہ نے خلیجی ممالک کے دفاع کیلئے ''آہنی گارنٹی‘‘ دینے کا اعلان کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ امریکہ خلیجی ممالک کو کسی بھی بیرونی خطرے سے بچانے کیلئے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے طاقتورعسکری قوت ہے۔اور اس قوت کا ایک بڑا حصہ بحری جہازوں،طیارہ بردار جہازوں،آبدوزوں اور میرین دستوں کی شکل میں خلیج اور اس کے اردگرد سمندروں میں مقیم ہے۔اسے امریکہ کسی وقت بھی پوری طاقت سے استعمال کر سکتا ہے۔لیکن اس کا ٹارگٹ کون ہے؟ ایران؟ اس کا تو کوئی جواز نہیں کیونکہ ایران کی طرف سے کسی بھی خلیجی ملک کی آزادی،خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے خلاف کارروائی کا اعلان نہیں کیاگیا۔غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایران کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثرورسوخ کو غلط انداز میں پیش کیاگیا ہے۔خود جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود ایران کی اسلامی انقلابی حکومت نے کبھی کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا۔اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کے تحت ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ عراق، شام، لبنان، سعودی عرب اور بحرین میں شیعہ آبادی کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنے پائوں پھیلارہا ہے۔لیکن اس امر کے کوئی شواہد موجود نہیںکہ ایران نے مذہب کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہو۔ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ یمن میں حوثی قبائل کو ہتھیار سپلائی کررہا ہے۔لیکن آج تک یہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔بلکہ آزاد اور غیر جانبدار ذرائع کے مطابق ایران نے حوثی قبائل کو صدر منصور ہادی کی حکومت کو گرانے سے منع کیا تھا۔ یمن کے موجودہ بحران کو حل کرنے کیلئے ایران ایک سے زیادہ مرتبہ بات چیت کا راستہ تجویز کر چکا ہے۔اس سے یمن میں ہی نہیں بلکہ خلیج فارس کے پورے خطے میں ایران کے پْر امن عزائم کا ثبوت ملتا ہے۔
امریکہ ‘ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق خلیجی ممالک کو جدید ترین اسلحہ کی سپلائی اور طاقت کے استعمال کی یقین دہانی کروا کے تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ خلیجی ممالک کی سلامتی کو کسی بیرونی طاقت سے خطرہ ہے۔حالانکہ خلیج کے ان ممالک کو بیرونی نہیں بلکہ اندرونی طور پر زیادہ خطرہ ہے۔اس خطے کے اردگرد جہاں سیاسی اور سماجی تبدیلی کی تیز ہوائیں چل رہی ہیں،خلیجی ممالک صدیوں کے جمود کا شکار ہیں۔ان میں موروثی‘ شخصی اور مطلق العنان حکومتیں قائم ہیں جنہوں نے اپنے عوام کو بنیادی جمہوری حقوق اور سیاسی عمل میں شرکت کے مواقع سے محروم کر رکھا ہے۔صرف کویت اور بحرین میںمحدود پیمانے پر جمہوری حقوق اور لوگوں کو چنائو میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔لیکن کویت میں ایک تو پارلیمنٹ کا حلقہ نیابت بہت محدود ہے اور دوسرے یہ ایک بالکل بے اختیار ادارہ ہے۔اور آئے دن یہاں سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔بحرین میں اکثریتی شیعہ آبادی کو سْنی مسلک کے مالک حکمران خاندان سے لاتعداد شکایتں ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق سے ہے۔لیکن ان شکایتوں کو دور کرنے کی بجائے اس وقت ان تمام خلیجی ممالک میں حکومتی پالیسی یہ ہے کہ اختلاف رائے کو سختی سے دبادیا جائے،تبدیلی کا راستہ بند کردیا جائے اور عوام کو اْن کے سیاسی،سماجی اور معاشی حقوق دینے کی بجائے اْن کو بزور طاقت خاموش کردیا جائے۔
لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔دنیا کے دیگر حصوں کے علاوہ خود خلیج کے قرب و جوار میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،خلیج کی عرب ریاستیں اْن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔
اس بات کا احساس خلیجی ممالک کے حکمران خاندانوں کو بھی ہے اور وہ تبدیلی کے اس عمل کے راستے میں بند باندھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ اس مقصد کیلئے اْن کا پورا ساتھ دے رہا ہے اور بجائے اس کے کہ سیاسی اصلاحات کے پروگرام پر عمل درآمد کر کے خلیجی ممالک کی حکومتوں کو عوام کے مسائل کے بارے میں زیادہ حساس اور جواب دہ بنایا جائے''بیرونی خطرے‘‘کی گھنٹی بجائی جارہی ہے۔
ایسا کرنے سے دراصل امریکہ کے دواہم مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ایک تو اس بہانے اْسے خلیج اور اس کے اردگرد سمندروں میں اپنی بحری اور فضائی فوجوں کو متعین کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے اور دوسری طرف اْسے خلیجی ممالک کو انتہائی مہنگے داموں اپنا اسلحہ اور ہتھیار بیچنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
اول الذکر کے ذریعے امریکہ کو خلیج میں ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے وسیع خطے پر اپنی فوجی گرفت مضبوط کرنے میں آسانی حاصل ہوتی ہے اور مہنگے داموں اسلحہ کی فروخت سے اْسے اپنی بحران میں گھری ہوئی معیشت کو سہارا دینے اور اپنے ہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
خلیج کے دفاع اور استحکام کے نام پر امریکہ کی یہ پالیسی نئی نہیں ہے۔1970ء کی دہائی میں جب سابقہ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ اور محاذ آرائی زوروں پر تھی،امریکہ نے تیل کے کنوئوں پر سوویت قبضے کے خطرے کا الارم بجا کر کھربوں ڈالر کا اسلحہ ایران (سابق شاہ کے دور میں)اور سعودی عرب کے ہاتھ بیچا تھا۔اْس وقت بھی امریکی معیشت ویت نام کی جنگ پر اْٹھنے والے اخراجات اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث سخت دبائو کا شکار تھی۔امریکی معیشت کو اس دبائو سے نجات دلانے کیلئے امریکہ نے خلیجی ممالک کے ہاتھ مہنگے داموں اسلحہ فروخت کر کے کھربوں ڈالر کمائے۔اس وقت بھی امریکی معیشت عراق اور افغانستان کی جنگوں کی وجہ سے سخت دبائو میں ہے اور 2007-08ء کے عالمی مالی بحران کے اثرات ابھی باقی ہیں،امریکہ بیرونی (مطلب ایران)کی طرف سے خطرے کے نام پر خلیجی ممالک کو جدید ترین ہتھیار جن میں مہنگا میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ہے،بیچ کر اپنی معیشت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔
لیکن یہ ہتھیار خلیجی ممالک کے دفاع،امن اور سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ان ممالک کو کسی بڑے خلفشار سے بچانے کیلئے جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ بنیادی اور دور رس سیاسی اور سماجی اصلاحات کے پیکج پر عمل درآمد ہے تاکہ ان ممالک کے عوام سیاسی عمل میں شریک ہو کر ایک مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved