تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-05-2015

ایک سیمینار کی رُوداد

کہتے ہیں گیدڑ کی شامت آئے تو وہ گائوں کا رُخ کرتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک گیدڑ کو جنگل میں پڑا اخبار کا پھٹا ہوا ٹکڑا ملا تو اس نے اپنے ہم جنسوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ چلو گائوں کی سیر کرتے ہیں! ''اور‘ کتے؟‘‘ ایک گیدڑ نے سوال کیا۔ ''وہ کچھ نہیں کہیں گے۔ میرے پاس یہ پرمٹ جو موجود ہے‘‘ اس نے وہ کاغذ لہراتے ہوئے کہا۔ چنانچہ وہ سب مل کر چل پڑے۔ ابھی گائوں سے ذرا فاصلے پر ہی تھے کہ کتوں نے آ لیا۔ سبھی الٹے پائوں بھاگے۔ اُن کا لیڈر سب سے آگے تھا‘ جس پر ایک گیدڑ چیخ کر بولا: ''انہیں پرمٹ دکھائو!‘‘ ''کم بختو‘ قدموں پر زور دو‘ یہ سبھی ان پڑھ ہیں!‘‘ لیڈر نے بھاگتے ہوئے جواب دیا۔
شامتِ اعمال‘ کہ ذوالقرنین میاں کو یونیورسٹی آنے کا وعدہ دے بیٹھا؛ چنانچہ انہوں نے صبح نو بجے ہی آدمی بھیج دیا۔ جو صاحب لینے کے لیے آئے‘ گاڑی ان کی اپنی تھی‘ چھوٹی چھوٹی داڑھی‘ لباس اور وضع قطع سے سٹاف ہی کے کوئی رکن لگتے تھے۔ میں نے ان سے نجی یونیورسٹی کے انتظامی امور کے بارے میں سوال پوچھنا شروع کردیئے۔ پہلے تو وہ الٹے سیدھے جواب دیتے رہے‘ پھر تنگ آ کر بولے: ''میں یہاں پڑھتا ہوں!‘‘ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ دونوں کی حالت قابل رحم تھی!
میں نے جب ان سے پوچھا کہ یونیورسٹی کہاں پر ہے تو بولے کہ قذافی سٹیڈیم کے قرب و جوار میں۔ جب منزلِ مقصود پر پہنچے تو
قذافی سٹیڈیم تو کہیں نظر نہ آیا البتہ قرب و جوار ضرور موجود تھا جہاں اس یونیورسٹی کی خوبصورت عمارت واقع ہے۔ اپنے استقبال کی کہانی سے یاد آیا کہ جن دنوں ہمارے شاعر دوست مرتضیٰ برلاس رحیم یار خان میں ڈپٹی کمشنر تھے تو وہاں سے اُن پر ایک کتاب بعنوان ''مرتضیٰ برلاس‘ فن اور شخصیت‘‘ چھپی‘ تو انہی دنوں موصوف نے وہاں ایک مشاعرہ کروایا جس میں یہ خاکسار بھی مدعو تھا۔ آپ مشاعرہ گاہ میں تاخیر سے پہنچے۔ لیکن جب ان کی انٹری ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ راہداری پر چپڑاسی‘ کلرک‘ پٹواری‘ گرداور اور تحصیلدار وغیرہ دو رویہ کھڑے تھے اور ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس وقت جو بُکے پیش کیا گیا اس میں گلاب کے پھول بھی تھے جن کی پتیاں نکال کر مجھ پر نچھاور وغیرہ کی جا سکتی تھیں لیکن کسی کو اس کا خیال ہی نہ آیا‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے!
کوئی دو گھنٹے کی تقریب تھی جس دوران مجھ سے شاعری اور کالم نویسی کے بارے میں سوال بھی کیے گئے حالانکہ شعر کہنے‘ کالم لکھنے اور ان پر سوالات کے جواب دینے میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ اپنے بارے میں کچھ بتایئے۔ یہ مسئلہ میرے لیے سب سے مشکل اور ناپسندیدہ رہا ہے جس دوران ایسا لگتا ہے کہ آپ رفتہ رفتہ اپنے کپڑے اُتار رہے ہیں۔ اس سے یاد آیا کہ ایک حسینہ ساحل سمندر پر نہانے کے لیے گئی۔ فالتو کپڑے اُتار کر پانی میں داخل ہونے کو تھی کہ ڈیوٹی پر کھڑے چوکیدار نے آگے بڑھ کر اُسے روک دیا اور کہا کہ یہ شارکوں کا علاقہ ہے اس لیے یہاں نہانا منع ہے۔ اس پر موصوفہ بولیں: ''تم نے مجھے اس وقت منع کیوں نہیں کیا جب میں کپڑے اُتار رہی تھی؟‘‘ اس پر چوکیدار بولا ''یہاں نہانا منع ہے‘ کپڑے اُتارنا نہیں!‘‘
چائے کے وقفے اور فوٹو سیشن کے دوران مہمان اور میزبان سبھی گھل مل گئے‘ جیسے ہمارے لیڈر عوام میں گھل مل جاتے ہیں اور جو باقاعدہ خبر بن جاتی ہے۔ ایک خاتون سے اس کے تدریسی تجربے کے بارے پوچھا تو وہ بولیں کہ میں یہاں پڑھ رہی ہوں! ایک لڑکی سے جب سوال کیا کہ یہاں آپ کا کون سا سال ہے تو بولیں کہ چوتھا سال ہے میں جب سے یہاں پڑھا رہی ہوں۔ میں نے سوچا‘ سکولوں کی طرح کالجوں اور یونیورسٹی میں بھی طلبہ کے لیے یونیفارم ضروری ہونا چاہیے؛ تاکہ اساتذہ اور ان میں امتیاز قائم کیا جا سکے۔ ایک خاتون نے اپنا نام (غالباً) کاملہ احمد بتایا جس پر میں نے کہا کہ یہ نام مجھے بار بار بتانا پڑے گا کہ نام تو مجھے یاد ہی نہیں رہتے۔ ایک بی بی نے بتایا کہ وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں جس پر ہم کافی دیر تک مرعوب رہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ منقول ہے کہ ایک گویا گلے میں دو میڈل ڈالے پھرا کرتا تھا‘ ایک بڑا اور ایک چھوٹا۔ کسی نے اس بارے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ چھوٹا میڈل مجھے ایک گانا گانے پر ملا تھا۔ اور دوسرا؟ پوچھنے پر بتایا کہ یہ مجھے ایک گانا بند کرنے پر ملا تھا! ایک بزرگ سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں پہچان نہیں سکا۔ کسی ملاقات کی یاد دلا رہے تھے۔ مجھ سے ایک آدھ سال بڑے ہی ہوں گے لیکن کہہ رہے تھے کہ بچپن سے آپ کو پڑھ رہا ہوں! سائوتھ ایشیا یونیورسٹی میں یہ رونق میلہ دیکھا تو گورنمنٹ کالج کا زمانہ یاد آیا اور اداس کر گیا۔ واپسی پر یہ غزل اُتر رہی تھی۔ ابھی کچی پکی سی ہے‘ بہرحال پیش خدمت ہے:
ویسا بھی لگا بہت
ایسا بھی لگا بہت
تھا بُرا وقت جب وہ
اچھا بھی لگا بہت
دل تھا وہ مجسم‘ لیکن
دنیا بھی لگا بہت
سیدھا تھا اور اندر سے
ٹیڑھا بھی لگا بہت
غیروں کا غیر بھی تھا جو
اپنا بھی لگا بہت
دریا نظر آنے والا
صحرا بھی لگا بہت
سیراب وہ جتنا بھی ہو
پیاسا بھی لگا بہت
اتنا ہی غنیمت سمجھو
جیسا بھی لگا بہت
پُرکار ہے خوب، ظفرؔ، جو
سادہ بھی لگا بہت
آج کا مطلع
کشتی ہوس ہوائوں کے رُخ پر اُتار دے
کھوئے ہوئوں سے مل‘ یہ دلدّر اُتار دے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved