آج ملتان میں صاف اور شفاف الیکشن کا ٹریلر پیش کیا گیا۔ میں تو اپنی جگہ مطمئن ہوں کہ اگر عام انتخابات اسی طرز پر ہوئے تو ہارنے والا جتنا چاہے روئے دھوئے‘ وہ سچا کبھی نہیں ہوسکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ کیا کہہ سکتا ہے؟ جعلی ووٹو ں کی شکایت کرے گا۔ حکومت نے وہ مان کر نہیں دینا۔ الیکشن کمیشن جن قواعد و ضوابط کی بات کرتا ہے‘انہیںنہ وہ تسلیم کرے گا اور نہ ہی الیکشن ٹربیونل۔ ناجائز ہرانے کے طریقے کیا ہوتے ہیں؟ شناخت کے بغیرووٹ ڈالنے کی سہولتوں کی فراہمی۔ نادرا کے چیئرمین نے آج تو الیکشن کمیشن میں معاملہ ہی صاف کر دیا۔انہوں نے شکایت کی کہ ہمیں انگوٹھوں کے نشان لگانے کے لئے مقناطیسی سیاہی نہیں ملی۔ مجھے نہیں معلوم کمیشن میںان سے پوچھا گیا یا نہیں؟پھر آپ نے غیر مقناطیسی سیاہی کیوں استعمال کی؟مگر وہ تو ٹھان کر آئے تھے کہ کسی بھی کوتاہی کو تسلیم نہیں کرنا۔انہوں نے فرمایا کہ بہت سے ووٹوں پر انگوٹھے کے نشان کی سیاہی درست نہیں تھی۔ وہ پہچان میں ہی نہیں آرہے تھے۔سنا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر آپ نے وہ سیاہی استعمال ہی کیوں کی؟ اس پر کیا کمال کی ماہرانہ رائے دی گئی کہ اس سیاہی کے استعمال سے فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انگوٹھا اسی شخص کا ہے‘ جس نے شناختی کارڈ پر لگا رکھا ہے۔ قصہ ہی تمام ہوا۔جب انگوٹھا ہی نہیں پہچانا جائے گاتو اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہی بات چیئرمین نادرا نے کہی۔ ان سے یہ دریافت کون کرتا؟جب بیلٹ پیپر پر لگائے ہوئے انگوٹھے کی پہچان ہی ممکن نہیں تو بیلٹ پیپر پر یہ خانہ رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر شناختی کارڈ پر انگوٹھے کا نشان کیوں لگایا جاتا ہے؟ جب انگوٹھے کے نشان سے پہچان ہی نہیں ہونی تو شناختی کارڈ والے انگوٹھے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ ذاتی طور پر تو مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں۔ ستر سال تک کی عمر کا آدمی انگوٹھا لگائے تو اس کی پہچان ہو سکتی ہے۔ میں انگوٹھا لگائوں تو پہچان ممکن نہیں کیونکہ میرے انگوٹھے کی لکیریں دھندلی پڑ چکی ہیں۔اللہ اللہ خیر سلا۔ جس کا جی چاہے میرے شناختی کارڈ پر جا کر ووٹ ڈال دے۔ اطمینان سے بیلٹ پیپر پر انگوٹھا لگائے اور ووٹر بن کے اپنی پسند کے امیدوار کی قسمت چمکا دے۔
جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی کارروائی کا نتیجہ خواہ کچھ نکلے‘ کام بہت دلچسپ ہے۔ عمران خان اپنے ایک دو وکیلوں کے ساتھ وہاں جاتے ہیں اور شیر کے بچے کارروائی کے دوران‘ ہال میں کھڑے گھورتے رہتے ہیں اور جب بیان دینے والے کا وقت ختم ہوتا ہے‘ تو وہ باہر نکلتے ہی سڑک پر آکے مجمع لگاتے ہیں اور پھر بتانا شروع کرتے ہیں کہ آج عمران خان کے کس وکیل نے کیا بونگی ماری؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ جو شخص‘ عمران خان کی حمایت میں بول رہا ہو‘ وہ سچا کیسے ہو سکتا ہے؟ ماڈل ٹائون فائرنگ کیس پر جوڈیشل کمیشن نے لمبی چوڑی کارروائیاں کر کے متعدد گواہوں اور مجرموں کے بیانات لے کر ایک ججمنٹ لکھی۔ حکومت نے انصاف فراہم کرنے کے لئے اپنی اتھارٹی کا استعمال کر کے اس ججمنٹ کو بڑے غور سے پڑھا اور فیصلہ کیا کہ اس میں نہ تو کسی گواہ نے سچ بولا ہے اور نہ ہی جوڈیشل ٹیم نے۔ انہوں نے کسی کی وزارت کا یا وزارت اعلیٰ کا خیال ہی نہیں کیا کہ عزت دار عہدیداروں پرغلط فیصلے کا الزام لگ رہا ہے۔ چنانچہ طے پایا کہ اس رپورٹ کو باہر کی ہوا ہی نہ لگنے دی جائے ۔ یہ اور بات ہے کہ ''دنیا ٹی وی ‘‘ کے دبنگ اینکر کامران شاہد نے اپنے پروگرام میں اس ججمنٹ کے اہم حصے سنا ڈالے۔ اس پر رانا ثنا اللہ خان جو بڑے ٹھنڈے مزاج کے حامل ہیں اورغصہ کرنا پسند نہیں کرتے‘ اس روز خدا جانے انہیں کیا ہوا کہ رانا صاحب نے نیم پختہ غصہ ظاہر کرتے ہوئے‘کامران کو ڈانٹا کہ جب یہ ججمنٹ کہیں سنائی ہی نہیں گئی تو آپ کے پاس کہاں سے آگئی؟ جو باتیں آپ نے کہی ہیں‘رپورٹ میں تو وہ موجود ہی نہیں۔اس پر کامران نے پوچھا کہ جب رپورٹ کسی کے پاس گئی ہی نہیں‘تو آپ نے کہاں سے پڑھ لی؟ اور اگر آپ پڑھ سکتے ہیں تو مان لیجئے ‘میں نے بھی پڑھ رکھی ہے۔لیکن رانا صاحب کے اعتمادا ور لہجے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ رپورٹ انہوں نے پڑھ رکھی ہے لیکن وہ''اصل رپورٹ‘‘کے منتظر تھے۔ اب وہ رپورٹ حکومت کے لئے زود ہضم ہے۔ جسے مرضی پڑھ کے سنا دو۔ کیا مجال ہے اس کے اندر پولیس یا حکومت کی کوئی زیادتی نظر آئے۔ صرف ایک مسئلہ حل نہیں ہو سکا کہ گولیاں کس نے چلائی تھیں؟ اس رپورٹ میں پولیس کو جتنا معصوم اور سادہ لوح ثابت کیا گیا ہے‘اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کو تو گولیاں چلانا ہی نہیں آتیں۔ ان کے ہاتھوں سے ہلاکتیں کیسے ہو گئیں؟طاہر القادری کی عوامی تحریک کے کارکن البتہ بندوقوں کے بغیر گولیاں چلا سکتے ہیں۔ ان کے لیڈر نے ضرور کوئی وظیفہ سکھا رکھا ہے کہ وہ چٹکیوں سے اپنے اور حملہ آور کے بندے ماردیتے ہیں۔ایسی معجزاتی حکومت ‘پاکستان میں کم ہی آئی ہے۔یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں گولیاں چلا کر عورتوں‘بچوں اور طالب علموں کو اندھا دھند مار دیا لیکن ان کے صاحبزادے آج بھی اس پر مصر ہیں کہ ان کے والد محترم نے دوران اقتدار کبھی کوئی زیادتی نہیں کی۔ ضیا الحق نے مزدوروں اور طالب علموں کو چوراہوں پہ کھڑے کر کے درے مار دئیے۔ پھانسیاں دے دیں لیکن انہیں آج بھی مردِ مومن مرد حق کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیاسی افق پر نمودار ہونے والے سب سے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹوکو اس نے پھانسی لگا دی لیکن اس مقدمے کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیا تھا۔ کس میں ہمت تھی اسے غلط قرار دیتا؟ موجودہ حکمران جنرل ضیاالحق کے زیر سایہ سیاست میں اترے تھے اور اترتے ہی جا رہے ہیں۔ضیا الحق نے گنتی میں بہت تھوڑی پھانسیاں دی تھیں۔ ان کے شاگردوں نے گزشتہ دو سال میں جتنی پھانسیاںلگا دی ہیں‘ استاد اپنے دس سالہ دور اقتدار میں نہیں لگا سکا۔ مگر اس کی لگائی ایک ہی پھانسی ساری پھانسیوں پر بھاری ہے۔ مگر ان کا کمال یہ ہے کہ جس پارٹی کو ضیاالحق نے ایک پھانسی کے ذریعے لیڈر سے محروم کر دیا تھا‘ اس پارٹی کو موجودہ حکمرانوں نے ہنرمندی سے درہم برہم کر ڈالا ہے۔ بے نظیربھٹو کو گولیوں سے شہید کیا گیا اورسب سے زیادہ غمزدہ جناب نوازشریف تھے۔ پارٹی کے غیرمستقل چیئرمین جناب آصف زرداری بڑے خوش قسمت انسان ہیں کہ براستہ شادی سیاست میں آئے۔ رنڈوے ہوئے تو چیئرمین بن گئے۔ اب نوازشریف کودام محبت میں ایسا گھیرا ہے کہ وہ پنجاب کے سوا کسی دوسرے صوبے کا رخ ہی نہیں کرتے اور صاف و شفاف الیکشن کرانے میں وہ رائیونڈ برادران کے استاد ثابت ہو رہے ہیں۔ جو کام دونوں بھائیوں نے پنجاب میں کیا‘ وہی کام زرداری صاحب نے زیادہ چابک دستی سے کیا۔ لیکن ان پر کوئی الزام نہیںلگا رہا۔ دھاندلی کے سارے الزام رائیونڈ برادران برداشت کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہاتھ کی جتنی صفائی زرداری صاحب نے سندھ کے الیکشن میں دکھائی ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ن لیگ کے کامیاب امیدواروں نے جو مقدمے ٹربیونل میں بھگتے ہیں اور بھگتتے پھر رہے ہیں‘ ان کا عشر عشیر بھی سندھ میں زرداری صاحب کے کسی نمائندے کو نہیں بھگتنا پڑا۔
اب جوڈیشل کمیشن میں جو کچھ دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفاف الیکشن کے جو معرکے 2013ء کے انتخابات میں ن لیگ نے انجام دیئے ہیں‘ ان میں سب کچھ تھا مگر زرداری جیسی مہارت نہیں تھی۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔جو کارروائیاں ٹربیونلز اور جوڈیشل کمیشن میں دیکھی جا رہی ہیں‘ انہیں دیکھ کر مکمل اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن اگر موجود حکمرانوں کے زمانے میں ہوئے‘ تو انتہائی صاف‘ شفاف‘ صاف ستھرے اور سرف میں دھلے ہوں گے اور ان انتخابی نتائج کو چھت پر پھیلانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ انہیں ایسی مشینوں میں دھویا جائے گا‘ جن کے اندر ہی نتائج صاف شفاف ہو جائیں گے۔ عمران کی جعلی مقبولیت اب ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ عدالتوں سے انہیں وہی انصاف ملے گا جو ان دنوں مل رہا ہے۔ ان کے حامی ووٹ ضرور ڈالنے آئیں گے مگر گنتی شیر کے نشان والوں کی ہو گی اور ظاہر ہے ووٹوں کی تعداد کا پتہ گنتی سے چلتا ہے اور ''سچ‘‘ کو سچ ثابت کرنا عزیز م زعیم قادری کے دائیں ہاتھ کا کام ہے اور ہر اچھا کام دائیں ہاتھ سے ہی کرنا چاہیے۔