تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-05-2015

انتہا پسندی

سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنے گورنر سے کہا تھا: انسانوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا‘ کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے؟ مگر یہ بات مذہبی اور اشتراکی ملّا کی سمجھ میں کیسے آئے؟
شعیب شیخ اگر نہیں سمجھ رہے تو قابل فہم ہے مگر ان کے ادارے سے وابستہ جہاندیدہ اخبار نویسوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ ایگزیکٹ کے باب میں بحث اب جاری رہے گی۔ صرف اس لیے نہیں کہ مبینہ طور پر ایک ادارہ‘ تاریخی جعل سازی کا مرتکب ہوا بلکہ اس لیے بھی کہ معاملے کا تعلق ایسی چیزوں سے ہے‘ معاشرہ جن پر اذیت کا شکار ہے۔ قانون کی حکمرانی کا سورج ڈوب چکا۔ جرائم عام ہیں اور بازپرس کرنے والا کوئی نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ متوازی طور پر میڈیا آزاد ہے۔ جبر کے طویل مہ و سال کے بعد یہ آزادی اپنے ساتھ غیر ذمہ داری کی حد تک بے باکی لے کر آئی ہے۔ یہ زکوٹا جن زبانِ حال سے ہمہ وقت یہ سوال کرتا رہتا ہے: ''اب میں کیا کروں‘ اب میں کس کو کھائوں‘‘۔ اگر عسکری قیادت اور سیاسی لیڈر شپ اس سے محفوظ نہیں تو اور کون رہ سکتا ہے؟ ایسے ایسے لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی گمان تک نہ کر سکتا تھا اور ابھی نجانے کتنے ہوں گے۔
بے مہار آزادی نے لکھنے اور بولنے والوں کو پاگل کردیا ہے۔ بعض اوقات تو ذمہ دار اور معتبر سمجھنے جانے والے بھی جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب نے سندھ میں لائبریریوں کی تباہی پر ایک عدد مرثیہ لکھا ہے۔ حیرت انگیز طور پر مسلم سندھ میں کتب خانوں کی بربادی کا رشتہ انہوں نے مصر میں اولین مسلم یلغار کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہ تاثر دیا کہ چونکہ جناب سعد بن ابی وقاصؓ کے لشکر نے سکندریہ میں ایک
لائبریری نذر آتش کردی تھی؛ لہٰذا مسلم برصغیر سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ مثال ہے۔ چودہ صدیوں کے بعد کیونکر یہ متعین کیا جا سکتا ہے کہ واقعے کی نوعیت کیا تھی۔ فرض کیجیے‘ ایسا ہوا ہو۔ آخرکار وہ انسان تھے‘ فرشتے نہیں۔ مگر اس سے یہ نتیجہ کیونکر اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان کتابوں سے نفرت کرتے ہیں۔ مصر کی تسخیر کے ڈیڑھ صدی بعد سپین فتح ہوا۔ اپنے عروج پر یہ تعلیمی اداروں‘ لائبریریوں‘ آبِ رواں‘ گلستانوں‘ سیرگاہوں اور قابل فخر عدالتوں کی تہذیب تھی۔ آج تک یورپ میں‘ جس کی تحسین کی جاتی ہے۔ پیرس اور لندن کے بازار جب کیچڑ سے بھرے رہتے۔ معزز فرانسیسی خواتین شانزے لیزے میں جب اپنے مہنگے ملبوس بچانے کے لیے انہیں ٹخنوں سے اوپر اٹھانے پر مجبور ہوا کرتیں‘ قرطبہ کے گلی کوچے‘ سارے عالم میں اجلے پن کی ایک دمکتی ہوئی مثال تھے۔ مسلمانوں کا عبرتناک زوال تو پچھلی تین چار صدیوں کی کہانی ہے۔ سولہویں صدی میں‘ تین عظیم مملکتیں اسی کرہ خاک پر قائم تھیں۔ برصغیر میں جلال الدین اکبر‘ ایران میں شاہ اسمٰعیل صفوی اور ترکی میں سلیمان کی حکمرانی‘ مغرب جسے آج بھی سلیمان ذی شان (Magnificent) لکھتا ہے۔
صلاح الدین پر لکھی گئی‘ ہیرالڈلیم کی کتاب‘ اس کی بہترین تصنیفات میں سے ایک نہیں؛ باایں ہمہ یروشلم کی تسخیر کا منظر بیان کرتے ہوئے‘ نادرِ روزگار نثر نگار کے قلم کا جادو جاگ اٹھتا ہے۔ وہ یاد دلاتا ہے کہ صلیبی لشکروں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو گھوڑوں کے ٹخنے لہو میں ڈوب گئے تھے۔ بالکل برعکس صلاح الدین نے عیسائیوں پر فقط دس دینار فی کس ادا کرنے کی شرط عائد کی۔ ان میں سے جو نہ کر سکے‘ ان کی ادائیگی خود اس نے اور اس کے امرا نے اپنی جیب سے کی جبکہ شہر کا پادری سونے کے انبار گدھوں پر لاد کے لے گیا۔ "Not a king, he was a saint"وہ لکھتا ہے... بادشاہ نہیں‘ وہ ایک ولی اللہ تھا۔ پھر وہ قرار دیتا ہے کہ تاریخ انسانی میں ایسا واقعہ اس سے پہلے رونما نہ ہوا تھا۔ کیوں نہیں‘ مسلمانوں کے اولین عہد میں فتح مکہ اور اس کے بعد کئی بار ہوا۔ بلاد شام اور ایران ہی نہیں‘ مصر میں بھی مقامی آبادی نے ان فاتحین کا خیر مقدم کیا‘ جن کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان تھے اور جو الفت کے پرچم لہراتے ہوئے آئے۔ یہی سبب تھا کہ وہ سب مسلمان ہو گئے۔ وہاں بھی‘ جہاں ان کے لشکر نہیں‘ تاجر پہنچے تھے ملایا انڈونیشیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم معاشرے کا زوال‘ علم کے زوال سے ہوا۔ جب غورو فکر اور تحقیق و جستجو کی بجائے‘ وہ مقلد محض بن گئے۔ ماضی میں زندہ رہنے لگے اور خود کو انہوں نے ملّا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسلام میں الگ سے مذہبی طبقے کا کوئی وجود نہ تھا۔ سیدنا علیؓ ابن ابی طالب کے عہد تک ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی اور سختی سے کی جاتی‘ جو خود کو مذہبی رہنمائی کے منصب پر فائز کر کے جذبات کا استحصال کرنے کے آرزو مند ہوتے۔ بعدازاں بھی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
جب انکل سام کے ہاتھ پر ایمان لانے والا ایک سابق اشتراکی ملّا‘ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ سے وحشی تھے تو اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ ہونا تو چاہیے کہ اسے نظرانداز کردیا جائے۔ اس کی بات کا جواب دیا جائے مگر اس کے ساتھ الجھنے سے گریز کیا جائے۔ قرآن مجید یہ کہتا ہے ''جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو‘‘ یعنی وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اپنی راہ لیتے ہیں‘‘۔
ہمارا معاشرہ مگر انتہا پسندی کا شکار ہے اور معاف کرنے کی صلاحیت اس نے تقریباً مکمل طورپر کھو دی ہے۔ یہ ملّا کے سبب بھی ہے اور اس کے حریف انقلابیوں کے طفیل بھی۔ بائیں بازو کے فرزند جو پیغمبرانہ جلال سے گفتگو کرتے اور اپنے سوا سب کو حقیر سمجھتے ہیں۔ کٹھ ملّا کی طرح وہ بھی رسوا ہونے کے لیے بروئے کار آتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا واقعہ‘ ایک نہایت ہی موزوں مثال ہے۔ پڑھنے لکھنے سے بے نیاز‘ وہ ساٹھ کے عشرے میں ابھرنے والا ایک طالب علم لیڈر ہے۔ مدارس کو اس نے جہالت کی یونیورسٹیاں کہا۔ اسے اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو اپنے آقائوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی‘ جنہوں نے اس ملک کو چراگاہ بنا دیا ہے۔ دوسروں کے باب میں وہ بڑے حق گو ہیں۔ معاملے کا یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ علمائِ کرام نے اسے کافر‘ زندیق‘ ملحد‘ حتیٰ کہ قادیانی قرار دے ڈالا۔ اس نے ایک غلط بات کہی۔ زیادہ صحیح الفاظ میں اس کا انداز اور لہجہ نادرست تھا وگرنہ کوئی ہوش مند ان مدارس سے شاد ہے۔ مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ وہ قادیانی ہے؟ ملحد اور زندیق ہے؟ آپ کو یہ فیصلہ صادر کرنے کا حق کس نے دیا؟ عدالتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ اس طرح کے تنازعات نمٹائیں۔ جس قدر اور جتنی تردید ضروری تھی‘ کردی جاتی مگر پھانسی دینے کا مطالبہ؟ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: الفتنۃ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے‘ مگر ان علمائِ کرام کو یہ بات یاد دلانے کی جسارت کون کرے؟ قانون نافذ کرنے کے ادارے کُند ہو چکے۔ جن حکمرانوں کی وجہ سے یہ ملک اس حال کو پہنچا‘ ان میں سے ایک جنرل محمد ضیاء الحق تھے مگر فیلڈ مارشل ایوب خان؟ جنرل ذوالفقار علی خان‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف؟ بائیں بازو کے دانشوروں کا بس نہیں چلتا ورنہ جنرل ضیاء الحق کو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک بنی نوع انسان کے تمام زخموں کا ذمہ دار ٹھہرا دیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں‘ جنہوں نے میاں محمد نوازشریف کے ہاتھ پر صمیم قلب سے بیعت کی اور اس پر قائم ہیں مگر ان کے مربی جنرل محمد ضیاء الحق سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ اسباب معلوم! ایگزیکٹ کی بات بیچ میں رہ گئی‘ خیر یار زندہ صحبت باقی۔
اللہ نے تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق دیا ہے۔ مسلم معاشرے میں جب تک اسلام کی روح کارفرما تھی‘ اس آزادی کا اسے دل و جان سے اقرار اور احترام تھا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنے گورنر سے کہا تھا: انسانوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا‘ کب سے تم انہیں غلام بنانے لگے؟ مگر یہ بات مذہبی اور اشتراکی ملّا کی سمجھ میں کیسے آئے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved