تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-05-2015

دو الیکشن کمیشن؟

کیا اس ملک میں دو الیکشن کمیشن ہیں؟۔یہ سوال ہی کچھ عجیب سالگتا ہے لیکن سامنے آنے والے حقائق کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں تو کسی بھی قسم کا شک نہیں رہ جاتا۔ بلکہ اب تو یقین سا ہونے لگا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا ہے اور شاید ایسا کرنے والوں کو یقین تھا کہ ہمیں کسی نے نہیں پوچھنا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو جاری کئے جانے والے نوٹس سب کے سامنے ہیں، جن کے تحت وہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخاب کے دوران اس صوبے میں جہاں ان کی پارٹی کی حکومت ہے، کسی بھی قسم کی کنویسنگ اور جلسے اور جلوس کیلئے نہیں جا سکتے بلکہ یہ ہوا کہ ان کے جلسوں کاا علان کر دیا گیا، الیکشن کمیشن کے نوٹس پر ان کے یہ جلسے منسوخ کر دیئے گئے لیکن کل 21 مئی کو ملتان میں پی پی196 کا جو ضمنی الیکشن ہوا، اس میں ایک نہایت ہی حیران کن بات دیکھنے میں آئی کہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے جو امیدوار ملتان کے اس صوبائی ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے وہ چند روز پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم سے ملتان میں ڈی سی، ڈی پی او اور دوسرے چند افراد کے ہمراہ خصوصی کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن نا مزد کر دیے گئے۔ کیا اس سے ملتان کی انتظامیہ کو یہ بتا نا چاہتی تھی کہ دیکھو ملتان میں صرف اس شخص کی حکومت ہے جو اس وقت آپ کے سامنے صوبائی امیدوار کی حیثیت سے ووٹ مانگ رہا ہے۔
5 مئی 2015ء کو جاری ہونے والے وزیر اعلیٰ ڈائریکٹو میں لکھا ہے کہ'' وزیر پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے حکم سے ملتان میں چھ افراد پر مشتمل ایک چیف منسٹر سپیشل ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے ممبران میں اختر، وحید ارائیں( سابق رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر جیل خانہ جات پنجاب جو دو شناختی کارڈ رکھنے کی وجہ سے عدلیہ سے نا اہل ہو چکے ہیں اور جن کی خالی کی جانے والی صوبائی نشست پر کل ضمنی الیکشن ہوا)، پنجاب اسمبلی کے اس ضمنی الیکشن میں خالی نشست کے لئے مسلم لیگ نواز کے امیدوار رانا محمود الحسن، ڈی سی او ملتان، ڈی پی او ملتان اور تحصیل میونسپل آفیسر ملتان شامل ہوں گے‘‘۔ پنجاب کی اس ضمنی نشست کیلئے سرکاری مسلم لیگ کے امیدوار کا نام شامل کر نا اور وہ بھی ضمنی الیکشن سے صرف پندرہ دن پہلے کیا حیران کن نہیں؟۔ کیا وزیر اعلیٰ کو علم نہیں کہ جسے میں اپنے نام سے قائم کی گئی سپیشل ایڈوائزری کمیٹی میں شامل کر رہا ہوں وہ ضمنی الیکشن میں میرا امیدوار بھی ہے؟ کیا اس سپیشل ڈائریکٹو سے ملتان کی پولیس اور انتظامیہ کو یہ بتا نا مقصود تھا کہ اس شخص‘ جسے مسلم لیگ نواز نے اپنی سپیشل ایڈوائزری کمیٹی میں شامل کیا، کی مرضی کے بغیر اگر کچھ بھی کیا اور اگر اس کی جانب سے جاری کئے جانے والے کسی بھی حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو تم سب کی خیر نہیں؟ کیا یہ نوٹیفکیشن کسی کو بھی نظر نہیں آیا؟ اس قدر اہم نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کی نظروں سے اوجھل کیوں رہا؟ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو پا بند کر دیا کہ وہ مردان میں کسی بھی ترقیا تی کام کیلئے کوئی فنڈ جاری نہیں کر سکتے لیکن کیا ان کو یہ حکم خاص نظر نہیں آیا جس کے تحت پولیس ، انتظامیہ اور ٹی ایم اے ملتان کو پابند کر دیا گیا کہ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والے حکمران جماعت کے امیدوار کی تابعداری کریں، اس کے کہنے پر چلیں اور اس کیلئے کام کریں؟ اب کوئی عام آدمی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ملتان کی انتظامیہ کی کارکردگی اور اہلیت کا نگران اس شخص کو بنا دیا گیا ہے جو ضمنی انتخاب میں خود امیدوار تھا؟۔ کیا اس سے یہ مطلب لیا جائے کہ ا س ملک میں دو الیکشن کمیشن ہیں؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ تحریک انصاف کیلئے الیکشن
کمیشن کے قوانین اور ہیں اور ان کی مخالف جماعتوں کیلئے قواعد و اصول کچھ اور؟ کیا الیکشن کمیشن کو یہ ایک سیدھی اور عام سی بات بھی نظر نہیں آئی کہ ملتان کا حاکم ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اور پوری سرکاری مشینری اپنی نوکری اور آئندہ کے بہتر مستقبل کیلئے اس کے ہر حکم کی بے چون وچرا تعمیل کرتے نظر آئی۔ جس حلقے میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہو وہاں پر کسی بھی قسم کی پوسٹنگ ٹرانسفر پر پابندی لگا دی جاتی ہے لیکن پنجاب کے حاکم کی ایڈوائزری کمیٹی میں ضمنی الیکشن کے انعقاد سے صرف پندرہ دن پہلے اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا کسی کو یہ نظر نہیں آیا کہ پنجاب بھر میں تمام قومی اور صوبائی حلقوں میں ترقیا تی کام جاری ہیں اور یہ اس وقت کیا گیا جب چند ماہ بعد بلدیاتی اداروں نے وجود میں آ کر عوام کے ان مسائل کو حل کرنا ہے اور یہ گلیاں ، نالیاں بنانا قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا کام نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری میں آتاہے۔اور یہ سب کچھ چوری چھپے نہیں بلکہ پنجاب بھر میں جگہ جگہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے لگائے جانے والے بینرز اور ہورڈنگز کی صورت میں نظر آ رہا تھا، جن میںمتعلقہ حلقوں کے حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے ترقیا تی
کام کرانے پر ان کا شکریہ ادا کیا جا رہا تھا، اگر آپ پنجاب کے دور دراز مقامات پر لگے ہوئے یہ بینرز اور ہورڈنگز نہیں دیکھ سکتے تو لاہور کی ہر سڑک پر جگہ جگہ یہ بینرز سب کو نظر آ جائیں گے۔
یہ خصوصی نو ٹیفکیشن سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کسی رکن کو ابھی تک یہ نظر نہ آیا ہو؟۔ قانون سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہئے۔ اگر آپ کو خیبر پختونخوا میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں تو یہ اچھی بات، ایسا ہی ہونا چاہئے اور کسی کا بھی لحاظ نہیں کرنا چاہئے لیکن دوسری آنکھ سے بھی کام لینا چاہئے ۔
جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو ہو سکتا ہے کہ ملتان کے ضمنی الیکشن کا رزلٹ آ چکا ہو اور اگر مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی کامیابی کا اعلان کر دیا جاتا ہے تو کیا الیکشن کمیشن ان کے نام کے ساتھ ا س ملک کے عوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ کامیاب ہونے والا مسلم لیگ نواز کا امیدوار ملتان میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی سپیشل ایڈوائزری کمیٹی کا رکن بھی تھا اور ملتان کے تمام پولیس تھانوں، انتظامیہ اور اہلکاروں کو ملتان میں کسی بھی کام کیلئے ان کی نگرانی میں دے دیا گیا تھا؟ کیا انتخابات کی زبان میں اسے '' پری پول رگنگ‘‘ کے نام سے نہیں پکارا جاتا؟ کیا یہ سب پری پول رگنگ الیکشن کمیشن کی مرضی اور نگرانی میں کی جا رہی ہے؟ شاید اسی لیے 5 مئی کو جاری ہونے والے اس ڈائریکٹو کو Urgent مارک کیا گیا تھا!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved