جب سے انسان نے زندگی بسر کرنے کا اجتماعی ڈھنگ اپنایا ہے تب سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کسی کو آگے بڑھنے سے روکیے، وہ آگے بڑھ کر رہتا ہے۔ اگر کسی کی صلاحیتوں کے آگے بند باندھیے تو صلاحیتیں دوچند ہوکر رہتی ہیں۔ یہ نکتہ کم لوگ ہی سمجھ پاتے ہیں کہ کسی کو آگے بڑھانے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیجیے۔ یہ رکاوٹیں اس کی ہمت اور لگن کے لیے مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ رکاوٹیں قدرت کی طرف سے ہونی چاہئیں! انسانوں کے ہاتھوں رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے عام طور پر اپنے حوصلے کا گراف خاصی نچلی سطح پر پاتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ 2005ء میں برطانیہ میں ایک بچے کو سکول کی انتظامیہ نے صلاحیتوں کے اظہار سے روکا تو اس پر شہرت اور کامیابی کی دنیا کا دروازہ کھل گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ 16 سالہ جیک کیٹر کو موسیقی سے خاص دلچسپی تھی اور وہ کمپوٹر گیمز میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ ان دونوں ''قباحتوں‘‘ سے جیک کیٹر کو محفوظ رکھنے کے لیے سکول کی انتظامیہ نے پہلے تو اسے منع کیا مگر جب وہ باز نہ آیا تو انتظامیہ نے سکول کے کمپیوٹر سسٹم کو محفوظ بنانے پر توجہ دی تاکہ کوئی اس میں داخل نہ ہوسکے۔
جیک کیٹر کے لیے تو بڑی الجھن کھڑی ہوگئی۔ سوال یہ تھا کہ اب سکول کے سسٹم میں جاکر موسیقی اور گیمز سے کس طور محظوظ ہوا جائے۔ اس نے سسٹم میں سیندھ لگانے کا فیصلہ کیا۔ ہیکنگ کی بنیادی تربیت لے کر وہ سکول کے سسٹم میں داخل ہوا۔ کمپیوٹر کی شناخت چھپانے والی ویب سائٹ میں چند خامیاں سامنے آنے پر جیک کیٹر نے اپنی ویب سائٹ بنانے کا سوچا اور چند ہی گھنٹوں میں یہ کارنامہ بھی انجام دے ڈالا۔ ایم ایچ اے کے نام سے بنائی جانے والی اس ویب سائٹ کی مدد سے وہ چند ہی ماہ میں ماہانہ 15 ہزار پاؤنڈ تک کمانے لگا۔ 2009ء میں جیک کیٹر نے تعلیم کا بوریا بستر لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور پورا وقت ویب سائٹ کو دینے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ویب سائٹ کے لاکھوں یوزرز ہوگئے۔ کامیابی کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ عالمی سوفٹ ویئر گروپ اے وی جی نے اس ویب سائٹ کو چار کروڑ پاؤنڈ میں خرید لیا۔
دیکھا آپ نے رکاوٹیںکھڑی کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ بڑے میاں صاحب نے بھی یہی کیا تھا۔ اگر وہ عمران خان کو ابتدا ہی میں قابو کرلیتے تو نوبت دھرنوں تک ہرگز نہ پہنچتی۔ عمران خان کو یا تو ن لیگ کا حصہ بنایا جاسکتا تھا یا پھر ابتدائی مرحلے میں انہیں آزادانہ کام کرنے دیا جاتا تو کچھ نہ ہوتا۔ بات اس وقت بگڑی جب ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اسی چیز نے عمران خان کے جذبے کو مہمیز لگائی اور پھر تحریکِ انصاف نے ن لیگ سے ''انصاف‘‘ کرنا شروع کیا!
اس دنیا کی یہی ریت ہے۔ بہت سے لوگ گدھوں کی طرح سر جھکائے کام کرتے رہتے ہیں اور اپنی شبانہ روز محنت سے دکان، دفتر، فیکٹری یا ادارے کو ترقی سے ہمکنار کرنے میں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرتے ہیں مگر آجر ان کی صلاحیتوں کی قدر کرتے ہیں نہ ان کی لگن کو سراہتے ہیں۔ یہی نہیں‘ الٹا انہیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ صلاحیت ہوتی تو کہیں اور نہ کھپ چکے ہوتے! یہ صورت حال کسی ایک یا چند خاص شعبوں تک محدود نہیں، تقریباً ہر شعبے میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میڈیا میں بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی کسی ادارے میں دو ڈھائی سال بھی ٹِکا رہے تو لوگ طعنہ زن ہوتے ہیں کہ اگر کچھ آتا تو کہیں سے آفر نہ آگئی ہوتی!
نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے؟ جب کوئی طعنے سنتے سنتے تھک جاتا ہے تو اپنے خول سے باہر آتا ہے اور پھر اس پر بہتر امکانات کی دنیا کی طرف جانے والا راستہ منکشف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر مائل ہوتے ہیں تو منزلیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ پھر انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ کسی ادارے میں کوئی دل و جان سے کام کر رہا ہوتا ہے مگر اسے خاطر خواہ یا کماحقہ معاوضہ نہیں ملتا۔ اس کے نتیجے میں بد دلی پیدا ہوتی ہے۔ نتیجہ؟ تنگ آکر وہ ملازمت بدلتا ہے یا پھر اپنا کام شروع کردیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس پر ترقی و خوش حالی کے نئے دریچے کھلتے ہیں اور سابق آجر کے نصیب میں کفِ افسوس ملنا رہ جاتا ہے!
کسی کی صلاحیتوں کی قدر نہ کرنا بھی اسے آگے بڑھنے سے روکنے یعنی اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسا ہی عمل ہے۔ غالبؔ نے اسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے ؎
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
کسی بھی شعبے میں پائی جانے والی رکاوٹ انسان کو آگے بڑھانے کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ نالے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کیجیے تو وہ مجبور ہوکر چڑھ جاتا ہے۔ یہی حال صلاحیتوں کا بھی ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اظہار کی راہ ڈھونڈ نکالتی ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اب تک اس مقام پر نہیں پہنچا کہ کسی کو اس کی صلاحیتوں اور لگن کی بنیاد پر کام سونپے۔ آج بھی صرف تعلقات کام آتے ہیں۔ ہر شعبے میں انتہائی باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے مگر باصلاحیت افراد کی خدمات سے مستفید ہونے کے بجائے آجر انہیں ملازمت دیتے ہیں جو کسی کے حوالے سے آئے ہوں۔ کمتر صلاحیتوں والے لوگ ادارے کو کچھ دیں گے تو کیا، الٹا ادارے کی کارکردگی کو گہن لگا دیتے ہیں۔ مگر آجر پھر بھی اپنی روش ترک نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی کھل کر کام کرے۔ سارا زور صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق کام کیا جائے اور جو کچھ وہ کہیں اسی پر عمل کیا جائے۔ یعنی اپنا دماغ بروئے کار لانے سے گریز کیا جائے۔ جب کسی کو دماغ لڑانے یعنی کھل کر اور بہتر انداز سے کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو وہ کوئی اور طریقہ ڈھونڈتا ہے، راہ بدل لیتا ہے۔ اور پھر جب وہ نئی راہ پر چلتے ہوئے زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تب آجر کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تو بیش قیمت ہیرے سے محروم ہوگیا... اور جن سے وہ کام لے رہا ہے وہ ذرا بلند درجے کے کنکروں کے سوا کچھ نہیں! اسلاف نے یوں ہی تو نہیں کہا کہ آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر! جو ہیرے کو نہ پہچانے اور اس کی چمک دمک سے مستفید ہونے پر ذرا بھی توجہ نہ دے اس کے نصیب میں صرف کنکر رہ جاتے ہیں۔ تب کہیں جاکر آدمی آدمی انتر کا اندازہ ہوتا ہے!
پاکستانی معاشرہ ہر شعبے میں ایک ہی روش پر گامزن ہے۔ یہ کہ اگر کسی میں صلاحیت دکھائی دے تو اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیجیے تاکہ صلاحیتوں کا اظہار ممکن نہ ہو، انہیں بروئے کار نہ لایا جاسکے۔ کام کرنے والے ہر شخص کو مجبور کیا جاتا ہے کہ رکاوٹیں عبور کرنے کے لیے نالوں کی صورت چڑھ جائے۔ صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ نہیں ہے کہ ان کے اظہار کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ ترقی یافتہ معاشروں نے اپنے باصلاحیت لوگوں کو کام کرنے کا موزوں ترین ماحول فراہم کرنے کی روش اپنالی ہے اور اس کے مثبت نتائج کا مشاہدہ بھی کر ہی رہے ہیں۔
دنیا کا کوئی بھی نجومی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پاکستانی معاشرہ اس روش کو کب تک ترک کر پائے گا! اور جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک ہیروں کی قدر دانی نہیں ہوگی اور کنکروں کو سَر پر بٹھانے کی روایت پر پوری ''دیانت‘‘ اور ''لگن‘‘ سے عمل ہوتا رہے گا! دنیا چاہے کچھ بھی کرلے، ہمیں تو اپنی تمام ''تابندہ روایات‘‘ جان سے پیاری ہیں!