تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     24-05-2015

خوشونت سنگھ عظیم مگر متنازع شخصیت

بطور لکھاری تاریخ دان ناولسٹ اور جرنلسٹ خوشونت سنگھ کی عظمت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ موصوف نے درجنوں کتابیں لکھیں۔ نیشنل ہیرالڈ اور ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے۔ پاکستان میں اکثر اخبارات کی اشاعت ہزاروں میں ہوتی ہے تو بھارت میں عام ڈیلی پیپر لاکھوں میں چھپتا ہے۔ بڑی آبادی اور تعلیم دونوں ہی وسیع سرکولیشن کی وجہ ہیں۔ مگر خوشونت سنگھ عام ایڈیٹر نہ تھے۔ ان کی ادارت میں السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔سردار جی بارڈر کے دونوں جانب بہت معروف اور پاپولر رائٹر تھے۔ پیدائش خوشاب کی تھی‘ پاکستان سے محبت کرتے تھے‘ اولڈ راوین تھے‘ لاہور کے گرویدہ تھے‘ عمر کی سنچری مکمل کرتے کرتے رہ گئے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ہوا تو ایک سیشن سردار جی کے لیے مختص کیا گیا۔ بولنے والوں میں ان کے صاحبزادے راحل سنگھ بھی تھے۔ میں ایک عرصہ سے خوشونت سنگھ کو پڑھ رہا ہوں لہٰذا سب مصروفیات چھوڑ چھاڑ کے مارگلہ ہوٹل گیا۔ اس سیشن میں پاکستان کی طرف سے اعتزاز احسن اور امینہ سید شریک ہوئے جبکہ انڈیا سے راہول سنگھ کے علاوہ اشوک چوپڑا اور یران نادل شامل تھے۔ نظامت آصف نورانی نے کی اور بہت ہی اچھے انداز میں کی۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کا یہ تیسرا سالانہ فنکشن تھا اور اس کی مقبولیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ فیسٹیول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تقریروں کی بجائے ڈائیلاگ کو زیادہ اہمیت حاصل ہے سامعین کو سوالات کرنے کا موقع بھی دل کھول کر دیا جاتا ہے۔
خوشونت سنگھ بہت باغ و بہار شخصیت تھے۔ سنتا سنگھ بنتا سنگھ والے لطیفے انہیں درجنوں یاد تھے۔ انگریزی زبان پر خوب عبور حاصل تھا۔ لچھے دار زبان طنزو مزاح کی کاٹ سے بھر پور، جو بھی پڑھتا لطف اندوز ہوتا۔ خواتین کی محفل میں ان کا خوب دل لگتا تھا۔ اس حوالے سے یار لوگوں نے کئی کہانیاں بھی بنا لیں۔ خوشونت سنگھ ایسی کہانیوں سے بڑے محظوظ ہوتے تھے ‘ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے آپ کو بدنام دیکھ وہ خوش ہوتے تھے۔ راہول سنگھ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ کے والد اتنے ہی ''بُرے مرد‘‘ تھے جتنا ان کے بارے میں مشہور ہے؟ راہول نے جواب دیا کہ حقیقت اس سے مختلف تھی''شاید میرے پتا جی میری والدہ سے ڈرتے تھے، لہٰذا وہ بطور خاوند وفا شعار تھے۔‘‘
اپنے اوپر ہنسنے اور اپنا مذاق اڑانے کا ملکہ بھی کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ خوشونت سنگھ کی خواہش تھی کہ موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ جو کچھ ہم نے ساری عمر دھرتی سے حاصل کیا ہے وہ دھرتی ہی میں دفن ہونا چاہیے، مگر ان کی یہ دلی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اپنی قبر کا کتبہ وہ کئی سال پہلے لکھ چکے تھے۔ میں نے انگریزی سے ترجمہ کرتے وقت کوشش کی ہے کہ متن کا مطلب پوری طرح ادا ہو جائے، ملاحظہ فرمائیے:
''یہاں وہ شخص دفن ہے جس نے نہ خدا کو چھوڑا اور نہ انسان کو۔ یہ وہ شخص ہے جس نے مذاق مذاق میں لوگوں کے بارے میں بری باتیں لکھیں لہٰذا اس کی موت پر رو کر اپنے آنسو ضائع نہ کریں، شکر ہے یہ فضول شخص مر گیا ہے‘‘۔
کوئی دو سال پہلے انٹرنیٹ پر خوشونت سنگھ کے تحریر کردہ طویل العمری کے نسخے کا فی مقبول ہوئے تھے۔ ان میں منظم زندگی ‘ ورزش‘ سادہ خوراک، باقاعدگی سے مالش اور مناسب مالی آسودگی شامل تھے ۔ اس ضمن میں راہول سنگھ سے پوچھا گیا کہ وہ وفات سے کتنی دیر پہلے اپنے والد کو ملے اور اس وقت سردار جی کیا کر رہے تھے؟ راہول نے جواب دیا کہ میں صبح کے وقت گولف کھیلنے جا رہا تھا، جانے سے پہلے میں باپو جی سے ملا اور وہ کراس ورڈ یعنی معمّہ حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دو گھنٹے بعد مجھے اطلاع ملی کہ وہ انتقال کر گئے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی وفات سے چند ماہ پہلے تک وہ اخباروں کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے۔ ان کے کالم بیک وقت دنیا کے کئی اخباروں میں چھپتے تھے۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ خوشونت سنگھ انڈیا اور پاکستان دونوں سے محبت کرتے تھے اور یہ محبت اس قدر خالص تھی کہ وہ دونوں ملکوں کی ایک ہی جذبے سے وکالت کر سکتے تھے۔ اس بات کی دلیل کے طور پر کہنے لگے کہ 1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے ہزاروں قیدی انڈیا کی جیلوں میں تھے۔ خوشونت سنگھ بار بار یہ کہتے رہے کہ ان قیدیوں کو جلدازجلد پاکستان بھیجا جائے۔ اندرا گاندھی کو یہ بات زیادہ اچھی نہ لگتی تھی۔ دہلی میں کوئی تقریب تھی، وزیر اعظم اندرا گاندھی اور خوشونت سنگھ دونوں موجود تھے کہ سردار جی نے پاکستانی جنگی قیدیوں کا مسئلہ پھر اٹھا دیا۔ مسز گاندھی نے کہا کہ یہ تقریب اس موضوع کے لیے مناسب موقع نہیں ہے۔ سردار جی نے جواب دیا:''پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی بات کرنے کے لیے ہر موقع مناسب ہے‘‘۔
خوشونت سنگھ جمہوریت کے بڑے داعی تھے۔ مگر نجانے انہیں کیا ہوا1975ء میں مسز اندرا گاندھی نے ایمر جنسی لگائی تو سردار جی نے ان کی حمایت کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ملک کے طول و عرض میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں لوگوں کے ہجوم بے قابو ہو کر املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، صورت حال عام قوانین سے قابو میں نہیں آ رہی، لہٰذا حکومت کو حق حاصل ہے کہ لاء اینڈ آرڈر بحال کرنے کی غرض سے سخت سے سخت قانون بنائے ۔ دوسری بات جس نے مجھے مایوس کیا وہ یہ تھی کہ سردار جی اسرائیل کے مداح اور دوست تھے۔ انہوں نے 1970ء میں اسرائیل کا دورہ کیا اور بڑے متاثر ہوئے۔ 1990ء کی دہائی میں جب انڈیا اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات استوار ہوئے تو خوشونت سنگھ کو انڈیا اسرائیل فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کا صدر بنایا گیا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ عدل و انصاف کا داعی شخص اسرائیل کا اتنا بڑا حمایتی کیسے ہو سکتا ہے۔ 
کچھ سال پہلے کی بات ہے، میں دہلی گیا ہوا تھا۔ میرے میزبان کے خوشونت سنگھ سے بڑے دوستانہ تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو دعوتوں پر بلاتے رہتے تھے۔ میرے میزبان کا کہنا تھا کہ ڈنر کے بعد اگر کسی خاتون کو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہو تو سردار جی لفٹ پیش کرنے والوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
کوئی پچیس سال پہلے خوشونت سنگھ کا ناول دہلی آیا تو فوراً ہٹ ہوگیا۔ میں اس وقت ریاض میں تھا اور وہاں وہ ناول دستیاب نہ تھا۔ ایک دوست کو دہلی فون کر کے ناول منگوایا اور پڑھا، دلچسپ تو بہت تھا لیکن کچھ حصے فحاشی کے زمرے میں ضرور آتے تھے۔
راہول سنگھ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے والد دہریے تھے؟ جواب ملا کہ خوشونت سنگھ کو دہریہ کہنا غلط ہو گا؛ البتہ خدا کے وجود کے بارے میں وہ شک کا اظہار کئی مرتبہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ ایک اچھا انسان بننے کے لیے مذہبی ہونا ضروری نہیں۔ آج بھی ان کی کئی کتابوں کی آمدنی خوشونت سنگھ فائونڈیشن کو جاتی ہے اور اس سے غریب لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مالی مدد ہوتی ہے۔
خوشونت سنگھ کو خوشاب میں اپنے گائوں ہڈالی سے بے پناہ محبت تھی۔ لاہور میں ان کے دوست فقیر اعجاز وفات کے بعد دہلی گئے تو فیملی نے سردار جی کی راکھ کا ایک حصہ انہیں دیا۔ وہ راکھ لے کر ہڈالی گئے، اسے سیمنٹ میں ملا کر ان کے پرانے سکول کی دیوارپر تختی چسپاں کی گئی۔ متن کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:''سردار خوشونت سنگھ کی یاد میں جو کہ ایک سکھ تھے، سکالر تھے اور ہڈالی کے فرزند تھے ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved