راہداری منصوبے پر خدشات
دور کرنے کے لیے اجلاس منعقد
کیا جائے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''راہداری منصوبے پر خدشات دور کرنے کے لیے اجلاس کا اہتمام کیا جائے‘‘ بلکہ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ ایک کمیشن مقرر کر دیا جائے جس کی رپورٹ آنے سے پہلے پہلے کچھ جانثار اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکیں‘ بلکہ انہیں تاکید کردی جائے کہ خفیہ روٹ پر واقع اقتصادی زونز کے اردگرد زیادہ سے زیادہ زمینیں جلد از جلد خرید لیں جو کہ سراسر جائز ہے کیونکہ آئین پاکستان میں زمینیں خریدنے پر کوئی قدغن نہیں ہے جبکہ اس اختراع کا سہرا بھی ہمارے سر سجایا جانا چاہیے کیونکہ یہ عاجزانہ اقدام بھی ہماری ہی درخشندہ روایات کا حصہ ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دیا میر پراجیکٹ کی اراضی کی خریداری میں مبینہ بے قاعدگیوں کی انکوائری کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے‘‘ اگرچہ اس طرح کی کمیٹی صرف سپیکر ہی تشکیل دے سکتے ہیں لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ سارا کام مل جل کر ہی سرانجام دیا جا رہا ہے جس کی بہترین مثال اپوزیشن کا کردار ہے کہ اپوزیشن بھی ہے اور حکومت کے ساتھ شانہ بہ شانہ ہو کر چل بھی رہی ہے۔ آپ اگلے روز کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
دورِ آمریت میں وسائل کو بے دردی
سے لوٹا گیا... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''دورِ آمریت میں وسائل کو بیدردی سے لوٹا گیا‘‘ جبکہ جمہوری ادوار میں یہ کام انتہائی دردمندی کے ساتھ کیا گیا اور ساری جمع پونجی بیرون ملک بینکوں میں امانتاً رکھوا دی گئی تاکہ بوقت ضرورت عوام کے کام آ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں نے ایسی تباہی مچائی کہ نسلوں کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا‘‘ جبکہ ہماری گوناگوں خدمات سے قوم پہلے ہی جانبر ہونے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے اس لیے دھرنوں کی نہ کوئی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں کی سیاست کا خمیازہ قوم کو اب بھی بھگتنا پڑ رہا ہے‘‘ حالانکہ وہ اس قابل ہی نہیں رہی تھی کہ اب مزید نقصان برداشت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''گزشتہ دورِ آمریت میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بے تحاشا لوٹ مار کی گئی‘‘ چنانچہ اس قومی روایت کو زندہ رکھنے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے اور زیادہ تر توجہ میگاپراجیکٹس پر ہی دی جا رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا جا سکے اور کسی کو پتا بھی نہ چلے اور پردہ داری کی روایت بھی برقرار رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں انجینئرز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تشدد سے کشمیریوں کی آواز دبائی
نہیں جا سکتی... زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''تشدد سے کشمیریوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی‘‘ کیونکہ جب سارا کام تشدد کے بغیر بھی
سرانجام دیا جا سکتا ہے تو تشدد کی کیا ضرورت ہے‘ جیسا کہ اپنے دور میں ہم نے عوام کی آواز تشدد سے نہیں بلکہ پیار محبت سے دبائے رکھی تھی اور ہمارے ایک وزیراعظم ایم بی بی ایس ہونے کی حیثیت میں لوگوں کے علاج معالجے پر بھی توجہ دے رہے تھے کیونکہ یہ بھی ماشاء اللہ خاکسار کی مفاہمتی پالیسی ہی کا ایک حصہ تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے‘ بھائی چارے کی فضا میں بہتر طور پر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارت کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوگا‘‘ جس طرح کرپشن وغیرہ کے الزامات سے ہماری آواز کو دبایا نہیں جا سکا بلکہ یہ مزید بلند آہنگ ہوتی گئی کیونکہ معیشت کی ترقی کے لیے پیسے کی گردش انتہائی ضروری ہے جس کا سلسلہ بیرون ملکی بینکوں تک پہنچتا ہے اور دنیا حیران رہ جاتی ہے جبکہ دنیا کو جتنا حیران ماشاء اللہ ہم نے کیا ہے‘ موجودہ حکومت کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں کر سکا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم سے ملاقات کر رہے تھے۔
ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں برداشت نہیں کریں گے... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے چیئرمین بلاول بھٹو
زرداری نے کہا ہے کہ ''ضیاء کی باقیات کو پارٹی میں برداشت نہیں کریں گے‘‘ اگرچہ ہماری اپنی باقیات اِدھر اُدھر ہوتی جا رہی ہیں اور باقی صرف چند نیک نام بزرگ ہی رہ گئے ہیں جن کے ساتھ مل کر بابا کی طرف سے کام کرنے کو کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ اپنا کام پورے احسن طریقے سے سرانجام دے چکے ہیں لیکن ابھی مزید بھی عاقبت سنوارنے کا ارادہ رکھتے ہیں چنانچہ امید ہے کہ ان کے سایۂ شفقت میں پارٹی بہت پھولے پھلے گی کیونکہ ان کی پاکبازی کی دھاک پوری قوم پر بیٹھ چکی ہے اور اٹھنے کا نام نہیں لے رہی جس کے نتیجے میں یقینِ واثق ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی جو نہایت زریں الفاظ میں خصوصاً پنجاب بھر میں رقم کی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ضیاء کی باقیات کو کلیدی ذمہ داریاں نہیں دینی چاہئیں‘‘ البتہ دیگر ذمہ داریوں کی بات اور ہے کیونکہ آخر انہوں نے بھی کل کو ہماری باقیات میں تبدیل ہونا ہے اور پارٹی کا نام روشن کرتے رہنا ہے جو اگرچہ پہلے ہی کافی حد تک روشن ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
اب کہیں تمغہ رسوائی ملا اُس کے طفیل
شہر میں ورنہ ظفرؔ آپ کی عزت کیا تھی