تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-05-2015

انعام تو یہی تھا

چیمبرلین نے میونخ میں عاجزی و انکساری کے ساتھ ہٹلر کے سامنے سر جھکا دیا ، اسے چیکوسلواکیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجا زت دے دی اور کہا کہ جنگ روکنے کی یہی قیمت تھی۔ جرمن فوجیں چیکو سلواکیہ میں داخل ہو رہی تھیں ؛ اگرچہ یہ خطرناک حد تک تباہ کن کام تھا لیکن چیمبر لین نے یہ اس پرانی کہانی کی طرح کیا جس میں تباہی کی طرف جانے والی سڑک کی تعمیر اچھے ارادوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ سابق سی سی پی او فیصل آباد نے بھی تحریک انصاف کے کارکن حق نوازکے قاتلوں کے سامنے اسی طرح سر جھکا دیا جیسے چیمبر لین نے میونخ میں ہٹلر کے سامنے سر جھکایا تھا۔ اس کے بعد انہیں اوایس ڈی بنا دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت فیصل آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اراکین اسمبلی نے یہ کہہ کر وزیر اعلیٰ کو چونکا دیا کہ ان کی اور ان کے خاندان کی زندگیوں کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے وہاں موجود پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کی سخت سرزنش کی اور استفسار کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے کہا: جناب فیصل آباد میں امن و امان کی سنگین صورت حال اور بھتہ خوری میں بے تحاشا اضافے کی وجہ یہاںکی ایک سیاسی شخصیت اور دہشت گردوں کے معاون بننے والے چند پولیس افسران ہیں۔ پھر انہوں نے حافظ آباد سے پکڑے جانے والے دہشت گرد اور بھتہ خور علی زاہدکمانڈو کے اعترافات وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھ دیے۔ وزیر اعلیٰ نے جب ان سے طاقتور سیاسی شخصیت کا نام پوچھا تو سب خاموش ہو گئے۔ پھر اچانک عابد شیر علی نے ایک چٹ پر اس سیا سی شخصیت ، ایس پی اور ڈی ایس پی کے نام لکھ کر میاں شہباز شریف کے حوالے کر دیے۔ 
حالات چاہے کسی بھی طرف سے، کسی بھی شکل میں سامنے آئیں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کرلینا غلط تھاکہ چھ ماہ قبل ایک بے گناہ نوجوان حق نوازکا خون ناحق ضرور رنگ لائے گا۔ اگر اختیارات اور فرض کی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی حاکم یہ سمجھتا ہے کہ کسی انسان کے قتل پر اس کی خاموشی اﷲ کے حضور پیش نہیں ہوگی تو یہ اس کی بھول ہوتی ہے۔ اگر ایک عام پاکستانی حق نواز شہید کے قتل کے مجرموںکو قانون کے سامنے بے بس کر دیا جاتا تو ہونا یہی تھا جو آج چپکے سے ہوا۔۔۔۔۔یعنی فیصل آباد کے متعلقہ پولیس افسرکو او ایس ڈی بنا دیا جاتا یا اس کا تبادلہ کسی عام جگہ کر دیا جاتا۔ اپنے ساتھ نیک نامی اور ذمہ دار پولیس افسر کی شناخت لئے سہیل حبیب تاجک سی سی پی او فیصل آباد‘ جنہوں نے اس سے قبل رحیم یار خان اور بہاولپور میں بطور ڈی پی او بہترین کار کر دگی کا مظاہرہ کیا‘ کو اپنی یہی تاریخ دھرانے کے جرم میں اچانک او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ جرم ان کا وہی نکلا جسے عام زبان میں فرض شناسی کہا جاتا ہے۔ اصل میں غلطی ہمارے بہت سے ان نادان افسران کی ہے جنہیں کسی نے شاید ابھی تک بتایا ہی نہیں کہ فرض شناسی کہتے کسے ہیں؟ سیا سی زبان میں ہر افسر کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ سیا سی جماعت کی حکومت میں جب آپ کو کسی اچھی جگہ لگایا جاتا ہے تو اس کا پہلا اور بنیادی نکتہ کبھی نہ بھولیں کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ اب جو ہوشیار اور سمجھ دار افسران ہوتے ہیں انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ آپ سے مطلب عوام نہیں بلکہ '' آپ‘‘ ہوتا ہے۔ اب جو آپ جناب سرکار کی بے لوث 
خدمت کرتا رہتا ہے وہ ایک اچھی جگہ سے دوسری بہترین جگہ پر بغیر سانس لئے پہنچتا رہتا ہے اور جو بے چارے عوام یا ملک کی خدمات کو فرض سمجھ بیٹھتا ہے وہ آفتاب چیمہ اور نیکو کارا بنا دیا جاتا ہے۔تاجک صاحب کو جب پتہ تھا کہ جنہیں وہ زبردست حاکم سمجھنے کی غلطی کئے جا رہے ہیں انہیں کام پسند نہیں ہوتا بلکہ دام پسند ہوتے ہیں اور جب بھی آپ نے کام کرنے کی غلطی کی آپ کے خلاف کام دکھا دیا جائے گا تو پھر جس طرح حق نواز کے قتل پر آپ نے خاموشی اختیار کی تھی اسی طرح علی زاہد کمانڈو اور پولیس انسپکٹر فرخ وحید کے معاملے پر سر جھکائے رہنا تھا۔ کیا آپ کو او ایس ڈی بننے کے بعد اب احساس نہیں ہو رہا کہ غلطی ان کی نہیں جنہوں نے آپ کو کونے میں لگا دیا اور جن کیلئے آنکھیں بند کر کے آپ دن رات خدمات بجا لاتے رہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ نے حافظ آباد کے بد نام دہشت گرد اور بھتہ خور علی زاہد عرف کمانڈو کو اپنے بارہ رکنی گینگ سمیت بھتہ کی رقم وصول کرتے ہوئے غلطی سے گرفتار کیا اور اس گرفتار گینگ اور اس کے سربراہ سے تفتیش ہوئی تو ان کے اعترافات نے فیصل آباد سے لے کر حکمرانوں 
کے بڑے ایوانوں تک ایک تہلکہ سا مچا دیا۔ علی زاہد کمانڈو کا پہلا اعتراف یہ تھاکہ اس نے اب تک19 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی ہے جس میں فیصل آباد کی ایک انتہائی اہم شخصیت کا کار خاص بھولا گوجر بھی شامل ہے اور یہ اعتراف اور لوگوں کیلئے ہو سکتا ہے کہ کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن فیصل آباد کیلئے ایک دھماکے سے کم نہیں کیونکہ انہیں یاد ہے سب ذ راذرا۔ سی پی او فیصل آباد سہیل حبیب تاجک کے اچانک او ایس ڈی بنا دیئے جانے سے فیصل آباد سے حکمران جماعت کے ایک مرکزی وزیر سمیت تین اراکین قومی اور ایک رکن پنجاب اسمبلی خود کو نہ جانے کیو ں غیر محفوظ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ کرائے پر بندے مارنے والے پولیس انسپکٹر کو پکڑنے کی کوشش کرنے والا سی پی او خود او ایس ڈی بنا دیا جائے اور اس کے سر پرست مطلوب اور مفرور پولیس انسپکٹر کو آرام سے پہلے سعودی عرب پھر دوبئی اور وہاں سے لندن بھجوا دیا جائے ۔بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ کون سی نئی بات ہے پاکستان کے تو ہر تھانے میں اسی طرح ہوتا ہے۔ 
جی ہاں بد قسمتی سے اسی طرح ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کی بنیادیں ہلا دینے والے دو واقعات ابھی تروتازہ ہونے کی وجہ سے سب کے ذہنوں میں محفوظ ہیں اور یہ سانحات ہمارے ملکی سیا سی اور نظام انصاف کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved