میری سمجھ میں اکثر اوقات یہ نہیں آتا کہ خواتین شاعری کیوں کرتی ہیں کیونکہ ایک جوان اور خوبصورت عورت تو خود مجسم شاعری ہوتی ہے‘ اُسے شعر کہنے کی کیا ضرورت ہے‘ شاعری تو خود اس پر کی جانی چاہیے‘ اور کی جاتی بھی ہے اور اسی لیے مجھے خواتین کی شاعری کچھ 'اوور ڈوئنگ‘ سی لگتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت لطیف جذبات و احساسات نہیں رکھتی یا اُسے ان کا اظہار نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری معلوم تاریخ میں کوئی بڑی اور نامور شاعرہ نہیں گزری ورنہ ہونا تو یہ چاہیے کہ عورت کا شاعر ہونا کسی بھی طور ایک دو آتشہ سے کم نہ ہو۔
ہماری عملی زندگی میں ہوتا تو یہ ہے کہ مرد اگر شاعر ہے تو اس کی بیوی ہمیشہ کُڑھتی رہتی ہے کہ وہ اس کی بجائے شاعری دوسری عورتوں پر کرتا ہے حالانکہ آپ ہی انصاف سے کہیے کہ کیا اپنی بیوی پر شاعری کی جا سکتی ہے؟ اور اگر اس کا اُلٹ ہو یعنی بیوی شاعر ہو تو مرد اُسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کرتا کہ اس طرح وہ کسی اور مرد کے بارے میں سوچے اور اس کے ہجر و فراق میں شعر کہے۔ اور‘ اکثر اس کا افسوسناک نتیجہ علیحدگی یا مستقل علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ مرد فطرتاً تنگ نظر اور کمینہ ہے۔ اگرچہ سینکڑوں‘ ہزاروں میں ایک خاتون بھی کمینی ہو سکتی ہے‘ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
خوبصورت ہے تُو اتنا ہی کمینہ بھی ہے وہ
ایک بھی دل نے نہ مانی‘ میں تو کہتا رہ گیا
اگرچہ اس میں محبوبہ کے لیے صیغۂ تذکیر استعمال کیا گیا ہے لیکن اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اس سے شاعر کا اصل مقصد کیا ہے؛ تاہم اسے لاڈ پیار سے بھی کمینی کہہ لیا جاتا ہے بلکہ چھوٹی موٹی گالی بھی دی جا سکتی ہے۔
قصہ مختصر‘ عورت کی شاعری پر نہ تو تنقید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے رعایتی نمبر دیئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ شاعری کرنا اور اُسے کتابی صورت میں چھپوا دینا دو مختلف چیزیں ہیں۔ آپ گھر میں بیٹھی‘ چوری چھپے یا علی الاعلان شعر کہتی رہیں‘ کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن کتاب چھپوا کر اُسے مارکیٹ میں لانے کا مطلب دوسروں کی طرف ایک چیلنج پھینکنا ہے‘ یعنی کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ کیونکہ شاعری تو ہے ہی مسابقت کا کھیل۔ مطلب یہ کہ اگر آپ دوسروں سے مختلف یا بہتر نہیں
تو کچھ بھی نہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ اب تک جتنی شاعری تخلیق کی جا چکی ہے‘ اس سے شاعری میں اضافہ ہوتا ہے یا صرف کتابوں میں ایک اور کتاب کا؟
تاہم اس سب کچھ کے باوجود عورت کے لیے شعر کہنا شجرِ ممنوعہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاتون کو شعر کہنے سے روکا جا سکتا ہے اور آپ نے یہ شعر بھی پڑھ رکھا ہوگا کہ ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
یعنی اگر منع کرنے کا اُلٹا ہی نتیجہ نکلنا ہے تو بہتر ہے کہ منع کرنے سے پرہیز ہی کیا جائے کہ خاتون کی فطرت میں بھی قدرت نے کافی لچک رکھی ہے؛ چنانچہ عورت کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس کی شاعری کا بھی لحاظ اور احترام کیا جائے اور اسے موجودہ معیار کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔
سو‘ فی الحال خواتین کے جو تین شعری مجموعے زیر نظر ہیں‘ انہیں خوش آمدید ہی کہنا چاہیے کہ شاعری کی طرف رغبت اور رجوع بھی کچھ کم فضیلت کی بات نہیں ہے؛ تاہم مناسب یہی ہے کہ خواتین کی شاعری کا مقابلہ خواتین ہی کی شاعری سے کیا جائے۔ غزلوں کا پہلا مجموعہ عذرا بخاری کا ہے جس کا نام ہے ''اُداسی ساتھ رہتی ہے‘‘ گویا یہ بھی انہوں نے کوزے میں دریا بند کردیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنی شاعری میں کہنا تھا‘ کتاب کے نام ہی میں کہہ دیا ہے۔ یہ مصنفہ کی تیسری تصنیف ہے جسے قرطاس پبلی کیشنز نے چھاپا ہے جس کے بارے بتایا گیا ہے کہ یہ ادیبوں کا اشاعتی ادارہ ہے۔ اس کتاب کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کا فلیپ ڈاکٹر نذیر تبسم اور خالد مصطفی نے تحریر کیا ہے۔ نمونے کے طور پر یہ خوبصورت شعر دیکھیے ؎
وہ چاند تھا ہی کسی اور آسماں کے لیے
تو کس لیے یہ ستارے ملال کرتے ہیں
''گردِ ملال‘‘ شاہدہ صدف کا مجموعہ کلام ہے جسے ماورا پبلشرز لاہور نے چھاپا ہے اور جس کا فلیپ خالد شریف نے لکھا ہے۔ قیمت 180 روپے۔ موصوفہ کا نظریۂ شعر اس شعر سے واضح ہوتا ہے ؎
اپنے ماضی کی روایت کے امیں ہیں ہم صدفؔ
بات ہو گرچہ نئی‘ لہجہ پرانا چاہیے
تیسرا مجموعہ کلام ''منزہ نظمیں‘‘ ہے جو نثری اور آزاد نظموں پر مشتمل ہے‘ غزل جیسی پٹی ہوئی صنفِ سخن کو چھوڑ کر نثری اور آزاد نظم اختیار کرنا ایک خاتون شاعرہ کے لیے ویسے بھی ایک امتیاز کی بات ہے۔ نظموں کی توصیف ہمارے ممتاز نظم گو ڈاکٹر وحید احمد نے اپنے دیباچے میں کی ہے جس کے بعد مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ سمارٹ اور عمدہ کتاب بیکن بُکس ملتان نے چھاپی ہے اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔
آج کا مقطع
میں چوم لیتا ہوں اس راستے کی خاک‘ ظفرؔ
جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے