تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     25-05-2015

یوم دفاع کی ایک تقریب کا احوال اور ایم ایم عالم

آج کل سکیورٹی کے حوالے سے جو ناگفتہ بہ صورتحال ہمارے ہاں پائی جاتی ہے اس میں کسی تقریب کا انعقاد کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا پڑتا ہے تاہم دہشت گردی کی اس لہر سے پہلے جب امن و امان کی فضا قائم تھی انتہائی کم وقت میں بڑی سے بڑی تقریب کا اہتمام ہو جاتا تھا۔
اس حوالے سے مجھے1995ء میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والی ایک تقریب یاد ہے۔ اس تقریب کا سارا انتظام میرے ذمے تھا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ حسین حقانی اس دور میں انفارمیشن سیکرٹری ہوتے تھے۔ ہماری سویلین حکومت اور فوج کے ادارے کے باہمی تعلقات میں اونچ نیچ سے تو اب ہر کوئی واقف ہے لیکن تعلقات میں یہ اتار چڑھائو اس دور میں اگرچہ اتنا واضح نہیں تھا مگر بہرحال موجود تو تھا۔ پتہ نہیں بے نظیر حکومت کو کوئی ایسا پیغام ملا کہ ان کی حکومت فوج کے امیج کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ حسین حقانی صاحب نے صورتحال کو بھانپ کر فوراً حکم بھیجا کہ ریڈیو لاہور یوم دفاع کے موقع پر فوراً ایک ایسی تقریب کا اہتمام کرے جو لاہور میں کسی مقام پر منعقد بھی ہو‘ اس کو براہ راست نشر بھی کیا جائے اور پھر اس تقریب کی ویڈیو ریکارڈنگ کے منتخب حصے شالیمار ٹی وی نیٹ ورک پر نشر ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن الگ سے پروگرام کر رہا تھا اور انہوں نے علیحدہ تقریب منعقد کی تھی۔ میں ریڈیو لاہور میں پروگرام منیجر تھا اور اس ادارے کے تحت تقریب کا انعقاد میری ذمہ داری تھی۔ جس وقت یہ حکم لاہور ریڈیو سٹیشن پر پہنچا اس وقت ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ ہمارے پاس محض چار دن تھے اور یہ چار دن بھی کافی ثابت ہوئے کیونکہ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے ہم نے جتنے مہمانوں کو مدعو کیا سب ہی اس تقریب میں اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے پہنچ گئے ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر نے ہنگامی حالت نافذ کر دی اور دن رات ہماری ٹیم کے ساتھ مصروف کار رہے۔ لاہور آرٹس کونسل کا ہال بک کیا گیا اور کوشش ہم نے کی کہ الحمرا آرٹس سنٹر کے ہال میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں حاضرین اور سامعین کو وہ جذبہ یاد دلایا جائے جو ستمبر1965ء میں ہمارے ملک میں تھا۔ پروگرام کا آغاز قاری غلام رسول کی تلاوت سے ہوا جس کے بعد قاری صاحب نے بتایا کہ انہوں نے اس تقریب میں وہی آیات تلاوت کی ہیں جو انہوں نے چھ ستمبر کو ریکارڈ کروائی تھیں اور سات ستمبر کی صبح نشر ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ چھ ستمبر کو دن کے وقت جنرل ایوب خان کی تقریرسے ان کو بھارت کے حملے کا پتہ چلا اور اس کے بعد جو جوش انہوں نے محسوس کیا اس کی جھلک ان کو چھ ستمبر کو جو تلاوت انہوں نے ریکارڈ کروائی اس میں دکھائی دی۔ بھرا ہوا الحمرا ہال دم بخود ہو کر قاری صاحب کی گفتگو سن رہا تھا۔ تقریب بہت طویل تھی لہٰذا میں صرف کچھ چیدہ چیدہ حصوں کا ذکر کروں گا۔
ہم نے اس تقریب میں محترم شمس الدین بٹ صاحب کو کراچی سے بلوایا تھا۔ بٹ صاحب ستمبر65ء کی جنگ کے دوران لاہور کے سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے اس دور میں سٹاف ممبرز اورآرٹسٹوں کا جو جذبہ تھا اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچا کہ معلوم ہو رہا تھا کہ جنگ ستمبر 30تیس برس پرانا قصہ نہیں بلکہ کل کی بات ہے۔
فرخ سلیم جن کا نام1965ء میں فرخ رشید ہوتا تھا اور وہ ریڈیو ہی کے ایک افسر میاں رشید اختر کی صاحبزادی تھیں‘ ان دنوں فوجی بھائیوں کا پروگرام پیش کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران فوجی بھائیوں کے پروگرام کا دورانیہ بھی بڑھا دیا گیا تھا اور نورجہاں کے ملی نغموں کی فرمائش سب سے زیادہ موصول ہوتی تھی اور پروگرام کے دوران ان کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ فوجی بھائیوں کے درمیان کسی خندق میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ پروگرام کے دوران میں اس دورمیں ریکارڈ ہونے والے ملی نغمے مختلف فنکار پیش کرتے جا رہے تھے۔ ریڈیو کے ہمارے ایک افسر اعظم خان‘ نغموں کی پیشکش کی نگرانی کر رہے تھے۔ اعظم خان1965ء کی جنگ کے دوران لاہور ریڈیو کے میوزک سٹیشن میں پروڈیوسر تھے لہٰذا وہ ان نغموں کی ریکارڈنگ کے عینی شاہد تھے۔
ریڈیو سٹیشن پر تعینات ایک ڈرائیور جن کا نام عاشق بٹ تھا ان کو سٹیج پر لایا گیا۔ ریڈیو لاہور کا ایک ٹرانسمیٹر پاک بھارت سرحد کے قریب مناواں میں واقع تھا ۔ عاشق ڈرائیور جنگ کے دنوں میں مسلسل انجینئرز کو وہاں لاتا اور لیجاتا رہا تھا پھر اس تقریب صوفی تبسم سمیت دیگر ان شعرا کا ذکر بھی رہا جنہوں نے معرکہ آرا ملی ترانے لکھے اور نورجہاں سمیت ان فنکاروں اور سازندوں کی خدمات کا بھی ذکر ہوا جو دن رات ملی نغمے ریکارڈ کرواتے رہتے تھے۔
اس دور کے ایک سٹاف ممبر نے اعجاز بٹالوی جو روزانہ تقریر نشر کرتے تھے وہ کس قدر موثر ہوتی تھی اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ بٹالوی صاحب واقعتاً روزانہ جنگ کے دنوں میں سرحد پر جاتے تھے اور وہاں سپاہیوں اور افسروں سے بات چیت کرنے کے بعد آکے ریڈیو پر تقریر نشر کرتے تھے۔
یہ تقریب تو کوئی تین گھنٹوں پر محیط تھی لہٰذا بڑا مشکل ہے کہ اس کا مکمل احوال پیش کیا جا سکے لیکن آخر میں ایک بات جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھی ہمارے قومی ہیرو ایم ایم عالم کی آمد۔
میں نے تو موصوف کا محض ذکر سن رکھا تھا کہ 65ء کی جنگ میں انہوں نے بھارت کے جنگی طیاروں کا بھرکس نکال دیا تھا اور ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ طیارے مار گرانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن جب ملاقات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ انسان تو دوسرے بھی ہیں مگر یہ شخص تو کچھ اور ہی شے ہے۔ میں نے آئی ایس پی آر کے ذریعے ایم ایم عالم کا پتہ حاصل کر کے ان کو پیغام بھجوایا تھا کہ ''ہم جنگ ستمبر کو یاد کر رہے ہیں اور آپ کے بغیر محفل سونی رہے گی‘‘ پتہ چلا کہ وہ اس وقت افغانستان میں تھے اتنے شارٹ نوٹس پر وہاں سے پشاور ‘ راولپنڈی اور پھر لاہور پہنچ گئے تھوڑی دیر گفتگو کی مگر اس خلوص سے کہ پورا ہال کھڑے ہو کر کئی منٹ تک تالیاں بجاتا رہا۔
ریڈیو پروگرام کے شرکاء کو فیس بھی ادا کرتا ہے اور اگر کوئی دوسرے شہر سے آئے تو اس کو ٹی اے ڈی اے بھی دیا جاتا ہے۔ عام طور پر چیک کے ذریعے ادائیگی ہوتی ہے مگر یہ تقریب اتنی جلدی میں کی گئی کہ بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو نقد رقم ادا کر دی جائے تو سب کے لیے ہمارے اکائونٹنٹ لفافوں میں نقد رقم لے کر ہال میں موجود تھے۔
جب کنٹریکٹ اور نقد رقم کا لفافہ ایم ایم عالم کو پیش کیا گیا تو مسکرائے اور بولے‘ اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے‘ اللہ نے میری ضرورتیں پوری کر رکھی ہیں۔ پھر کنٹریکٹ پر انگریزی میں تحریر کیا‘ جس کا ترجمہ یہ تھا کہ میں نے پروگرام میں بلا معاوضہ اپنی مرضی سے شرکت کی ہے۔ اس روز ہم نے سو سے زیادہ لوگوں کو اس تقریب کے حوالے سے نقد رقم ادا کی۔ ایم ایم عالم واحد شخص تھے جنہوں نے یہ رقم وصول نہیں کی بلکہ اس محبت سے واپس کی کہ کم از کم مجھے تو زندگی بھر ان کی محبت کا وہ انداز نہیں بھولے گا۔ تقریب سے یہ کہتے ہوئے روانہ ہو گئے کہ مجھے راولپنڈی کی بس پکڑنی ہے۔ گویا افغانستان سے بسوں کے ذریعے یہاں پہنچے اور پھر بسوں کے ذریعے ہی واپس ہوئے۔
اس تقریب ہی میں پاکستان ایئر فورس کے کچھ لوگ بھی مدعو تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایم ایم عالم وہ شخص ہے جو ہمارا ہیرو تو ہے مگر ہمارے ملک نے اس کا بہت دل دکھایا ہے۔ اس ہمارے ہیرو کو 1971ء کی جنگ میںہوائی جہاز کے قریب تک نہیں جانے دیا گیا تھا ۔ یہ بیچارہ تڑپتا تھا کہ اس کو اجازت ملے اور یہ بھارتی ہوا بازوں کا شکار کرے مگر حکم تھا کہ کوئی بنگالی جہاز نہیںاڑائے گا ۔ہوا یہ تھا کہ 1971ء کی جنگ سے کچھ عرصہ پہلے جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو ایک بنگالی پائلٹ مطیع الرحمن نے پاکستان ایئر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی جس کو راشد منہاس نے جان دے کر ناکام بنایا اور نشان حیدر کا حقدار ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہماری ایئر فورس نے بنگالیوں کے جہاز اڑانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایم ایم عالم کے اس دکھ کو دوسرے تو محسوس کرتے تھے مگر اس کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اس نے اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑ رکھا ہے اس روز مجھے معلوم ہوا کہ درویش کسے کہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved