تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     25-05-2015

عوام بنام سرکار

''دیکھیے حبیب صاحب ، جیسے ہی میں اس دفتر سے باہر نکلوں گا ایک سست و حرام خور شخص سے میرا واسطہ پڑے گا جو میرا چوکیدار ہے، اگر میں کسی سے سبزی خریدنے جاؤں تو وہ کم تولے گا اور خراب مال دے گا، قصاب کے پاس جاؤں تو وہ پانی سے بھرا ہو گوشت مجھے بیچ دے گا، کپڑا خریدنے بزاز کے پاس پہنچوں گا تو وہ پیسے پورے لے گا لیکن کپڑے کی پیمائش میں ڈنڈی مارے گا، ہمارے عوام میں چوری کی عادت رچ بس گئی ہے اور آپ کو کیا اندازہ کہ چوروں اور ڈاکوئوں کے اس معاشرے کو کنٹرول کرنا کتنا مشکل کام ہے‘‘، صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک شہر کے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کا چہرہ یہ سب کہتے ہوئے تمتما رہا تھا۔ اسے نوکری کرتے ابھی دوسرا سال تھا‘ اس لیے تجربہ کاری پر خلوص غالب تھا۔ اس کے خلوص اور صاف دلی کے باوجود مجھے اس کی باتیں عجیب لگ رہی تھیں۔ وہ ہمارے معاشرے کے ہر فرد کو گالی دیے چلا جارہا تھا اور صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ناتجربہ کاری اپنی جگہ، سمجھانے پڑھانے والوں نے اسے یہی سکھا کر میدان میں اتارا ہے کہ تمہارا کام اس معاشرے کے ہر فرد کو لفنگا سمجھ کر اس سے وہی سلوک کرنا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔اس نے پاکستانی سماج کے بارے میں ساری واہی تباہی کہہ ڈالی تو جواب کے لیے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں اس مجلس میں مہمان تھا ، مجھے تکلف کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن خود پر قابو نہ رکھ سکا ، پوچھ بیٹھا، ''میرے
دوست یہ بتاؤ کہ اس چور اچکے سماج کے اسسٹنٹ کمشنر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔ میرا سوال سن کراس کے چہرے پر ایک رنگ سا گزرا مگر خاموش رہا۔ اس سے کہا کہ ابھی تم پاکستان کی اعلیٰ ترین سول سروس کی ابتدائی سیڑھیوں پر ہو، سول سروس اکیڈمی میں تمہیں ازکار رفتہ بڈھوں نے انگریزی استعمار کی جو روایات پڑھائی ہیں ، وہ اب ناقابل عمل ہوچکی ہیں، پاکستانی معاشرہ دیر سے ہی سہی ، اب نئی آزادانہ روایات قائم کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے اور تم وہی چور سپاہی کی نفسیات لے کر انٹرنیٹ، اخبار اور ٹی وی سے لیس عوام کو قابو کرنے کے طریقے سوچ رہے ہو‘‘۔ خوش رُونوجوان اسسٹنٹ کمشنر میری صاف گوئی سے تھوڑا خجل ہوا لیکن اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔
اپنے معاشرے کو مکمل طور پر جرائم پیشہ سمجھنا یا اس کے افراد کے منفی رویوں کو عمومی قرار دے کر اپنے سماج پر دانشورانہ چاند ماری ، ایسی عادت ہے جس میں ہر وہ شخص مبتلا نظر آتا ہے جسے ریاست کے طرف سے کچھ اختیارحاصل ہے۔ آپ کسی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے سرکاری ملازم سے مل کر دیکھ لیں وہ آپ کے سامنے معاشرے پر تبرّا شروع کردے گا۔ اس کے خیال میں‘ بشمول آپ کے ہر شخص ایک اچکا ہے جسے کیفرِ کردار تک پہنچانا اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ جب یہ سوچ انگریزی استعمار نے اپنے اہلکاروں کو دی۔ اس کی وجوہات واضح تھیں لیکن ایک آزاد ملک میں ریاستی ملازمین میں اس سوچ نے وہ تباہ کن نتائج پیدا کیے جن سے آج ہم بطور ملک، قوم اور معاشرہ نبرد آزما ہیں۔صدیوں کا انسانی تجربہ گواہ ہے کہ بداعتمادی صرف بداعتمادی کو ہی جنم دیتی ہے‘ اسی لیے ایک طرف ہمارے ریاستی ادارے ہمیں چور سمجھتے ہیں تو دوسری طرف عوام ان میں سے بیشتر کو نا اہل، بددیانت اور بدعنوان گردانتے ہیں۔ ایک پٹواری سے لے کر اعلیٰ ترین ایوان تک کے بارے میں ایک آدھ جھوٹی سچی کہانی پاکستان کے ہر گاؤں کی چوپال میں سنائی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے جب عوام اپنے ریاستی نظام سے منسلک لوگوں پر عدم اعتماد کا شکار ہو جائیں گے تو آخرکار ریاست بھی کمزور پڑ جائے گی۔ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان اس خلیج کو پاٹنے کی ایک عمومی کوشش تو جمہوریت میں کسی نہ کسی طور ہوتی رہتی ہے لیکن عوام کو چور سمجھنے کی استعماری سوچ کے خاتمے کے لیے کوئی خاص کوشش ہمیں نظر نہیں آتی۔ سیاسی لیڈروں کے بیانات اپنی جگہ لیکن تجربہ یہی ہے کہ 1936ء‘ 1950ء اور 2015ء کے تھانیدار میں کوئی فرق نہیں۔ 1936ء کے انگریز بیوروکریٹ کی طرح 2015ء میں بھی بیوروکریٹ عوام کو ''تاج برطانیہ کا دشمن ‘‘ سمجھ کر ہی ڈیل کرنے کی کوشش کرتا ہے،جو ذرا کسمساتا ہے اسے غدار قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا۔
سرکاری ملازموں اور عوام کے درمیان اس بداعتمادی کا پہلا علاج تو یہ ہے کہ سرکار ہم سے اس زبان میں بات کرے جو ہمیں آتی ہے یعنی اردو۔ پاکستان شاید دنیا کے ان چند ایک احمق ملکوں میں شامل ہوتا ہے جہاں کے سرکاری ادارے ایک ایسی زبان میں کام کرتے ہیں جو اس کے عوام کو سرے سے آتی ہی نہیں۔ انگریزی دور غلامی کی ایک ایسی یادگار ہے جسے عوام تو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اسے گلے سے لگائے ہوئے ہیں اور اب تو بات انگریزی سے آگے بڑھ کر چینی زبان سیکھنے تک پہنچ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جن اداروں میں سرکاری ملازموں کو تربیت دی جاتی ہے وہاں سے انگریز کے پروردہ پیرانِ فرتوت کو نکال کر برطانیہ یا امریکہ سے ماہرین کو بلایا جائے کیونکہ ان دونوں ملکوں کی بیوروکریسی اپنے عوام سے رابطہ رکھنے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مانی جاتی ہے۔ ان دونوں ممالک کی پولیس عام آدمی کو پریشان کیے بغیر جرائم کا سراغ لگانے کے لیے زمین آسمان ایک کرنے کی شہرت رکھتی ہے جبکہ ہماری پولیس عوام کو عذاب میں مبتلا کرکے بھی ایک چھینا ہوا موبائل فون تک واپس نہیں دلا سکتی۔ تیسرے یہ کہ سرکاری ملازمین کے تربیتی اداروں کے نصاب میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کی جائیں کہ ان کو پڑھنے والے افسران اور اہلکار ایک انسان کو اس وقت تک شریف انسان سمجھیں جب تک وہ بدمعاش ثابت نہیں ہوجاتا۔ پاکستان کے سرکاری دفاتر کا حال یہ ہے کہ آپ بجلی کا بل ٹھیک کرانے جائیں تو بجلی والے آپ کو چور سمجھیں گے، پولیس کے پاس مدد کے لیے جائیں تو پہلے مدعی کو اپنے چال چلن کا ثبوت پیش کرنا ہوگا، ٹیکس اکٹھا کرنے والے بازار میں نکلنے کی زحمت کیے بغیر ہر شخص کو ٹیکس چور جان کر ملک کو ناقابل اصلاح قرار دے دیں گے۔اعتماد کے بحران اورایک دوسرے کو چور سمجھنے کے ریاستی اور عوامی رویوں کے ساتھ ایک ملک جتنا چل سکتا ہے، اتنا ہم بھی چل رہے ہیں لیکن اصلاح کی کسی کوشش کے بغیر شاید اتنا بھی نہ چل پائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved