کراچی اور ڈسکہ میں معاشرے کے سب سے زیادہ موثر‘ فعال اور بلند آہنگ طبقے صحافیوں اور وکلاء کی درگت بنتی دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستانی پولیس میں اب کوئی دم نہیں۔
ہم لوگوں نے خواہ مخواہ شور مچایا کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس افسروں کو اپنے عہدوں سے ہٹانے اور نچلے درجے کے اہلکاروں کو نظر بند کرنے سے شہریوں کے جان و مال کی محافظ فورس کے حوصلے پست ہوئے اور اسلام آباد میں آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکو کارا کے خلاف کارروائی پولیس کے مورال پر منفی اثر ڈال گئی ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
کراچی میں میڈیا نے پولیس گردی کے خلاف کوئی احتجاجی جلوس نکالا تھا نہ رپورٹروں ‘ کیمرہ مینوں وغیرہ نے دھرنا دے رکھا تھا۔ یہ سب سابق صدر آصف علی زرداری کے دیرینہ دوست بلکہ ہم پیالہ و ہم نوالہ ذوالفقار مرزا کی عدالت میں پیشی کے موقع پر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے جمع ہوئے۔ بیشتر کی ہمدردیاں بھی شائد پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے ساتھ ہوں کہ مرزا کا جارحانہ انداز اب قانونی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے لگا ہے۔
پنجابی کا محاورہ ہے ''ڈگا کھوتے توں تے غصہ کمہار تے‘‘(گرا گدھے سے غصہ کمہار بے چارے پر) ‘سندھ حکومت کے پولیس کمانڈوز ٹھکائی ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا کی کرنا چاہتے تھے مگر وہ ہاتھ نہیں آئے چنانچہ'' گندم اگر بہم نہ رسد بُھس غنیمت است ‘‘کے مصداق اپنا غصہ مسکین صحافیوں پر نکال دیا تاکہ مرزا اور ان کے ساتھیوں کو سندھ حکومت اور پولیس کی سنجیدگی کا پیغام مل جائے ۔ اگر صحافیوں کی پٹائی ہو سکتی ہے تو مرزابھلا کس باغ کی مولی ہیں ‘وہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔
ڈسکہ میں وکلاء پر فائرنگ تو بظاہر مجنونانہ کارروائی ہے۔ تنازعہ ٹی ایم اے اور ڈسکہ بار کے درمیان تھا۔ پولیس کی موجودگی نقض امن کا خطرہ ٹالنے کے لیے تھی مگر مقامی تھانیدارگلو بٹ بن گیا۔ گلو بٹ نے صرف ڈنڈے برسائے تھے‘ پولیس اہلکاروںنے ڈسکہ میں سانحہ ماڈل ٹائون کا ایکشن ری پلے کیا اور دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ممکن ہے ایس ایچ او اور تحصیل بار کے صدر میں تلخ کلامی ہوئی ہو‘ ذاتی رنجش بھی ہو سکتی ہے اور فوری اشتعال کا اندیشہ بھی مگر سرکاری اسلحہ سے فائرنگ اور دو وکلاء کے قتل کا ادنیٰ سے ادنیٰ جواز تلاش کرنا مشکل ہے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد گلو بٹ کو سزا ہوئی اور کئی پولیس اہلکار معطل و نظر بند کئے گئے تو توقع تھی کہ آئندہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات ظہور پزیر نہیں ہوں گے‘ جب اسلام آباد میں آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکو کارا نے پُرامن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور فائرنگ سے انکار کیا‘ ریاستی تشدد کی راہ نہ اپنائی تو یہی تاثر ابھرا کہ پولیس نے سانحہ ماڈل ٹائون سے سبق حاصل کیا ہے اور آئندہ اپنے سیاسی‘ سماجی و شہری حقوق کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے شہری بالخصوص سیاسی کارکن پولیس گردی سے محفوظ رہیں گے مگر کراچی اورڈسکہ کے واقعات نے اس تاثر کی نفی کی اور پتہ چلا کہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے حکومتی دعوے فریب نفس کے سوا کچھ نہیں۔ وہی تھانہ ہے ‘وہی تھانیدار اور وہی پولیس کا وحشیانہ انداز کار۔
پاکستان میں مختلف سول اور فوجی حکمرانوں نے پولیس کو بطور آلہ کار استعمال کیا۔ ہر سیاسی ‘ مذہبی اور احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے پولیس بروئے کار آئی۔ سیاسی کارکن‘ وکلاء صحافی‘ صنعتی و زرعی کارکن پولیس کی لاٹھی ‘ آنسو گیس اور گولی کا نشانہ بنتے رہے۔ جنرل ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور ستم میں وحشت و بربریت نقطہ عروج کو پہنچی یا پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ تحریک کے دوران۔ محترمہ بے نظیر ‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں میں چھوٹے موٹے واقعات اگرچہ بہت ہوئے‘ مختلف تحریکوں کو دبانے کے لیے پولیس نے اپنے جوہر دکھائے مگر جس نوعیت کے واقعات پچھلے سال ماڈل ٹائون اور اس بار کراچی و ڈسکہ میں پیش آئے انہیں نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک اور المناک قرار دیا جا سکتا ہے۔
کراچی میں نقاب پوش کمانڈوز کے بارے میں ابھی تک واضح نہیں کہ یہ پولیس اہلکار تھے یا کسی نجی فورس کا ہر اول دستہ ۔ پولیس کو نقاب اوڑھنے اور اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں طاقت کے جو مراکز جنم لے چکے ہیں ‘ان کا تعلق صرف عسکریت پسند تنظیموں یا بعض لسانی ‘ نسلی و مذہبی گروہوں سے نہیں‘ طاقتور افراد نے حکومت در حکومت کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے اور ماضی میں بعض سزا یافتہ افراد پر مشتمل جانثاران فلاں و سرفروشان فلاںنامی نجی فورسز کی تشکیل کی اطلاعات منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ کیا صحافیوں پر پل پڑنے والی یہ نقاب پوش مخلوق کسی کی ذاتی نفری تھی یا سرکاری اہلکاروں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا؟ فیصلہ عدالت عالیہ کو کرنا ہے جو اس واقعہ کانوٹس لے چکی ہے مگر بحیثیت مجموعی صحافی برادری کا اس پر ردعمل شریفانہ بالفاظ دیگر کمزوراور غیر موثر رہا۔
ڈسکہ کے واقعہ پر وکلاء برادری کا ردعمل اگرچہ فطری ہے مگرتوڑ پھوڑ ‘جلائو گھیرائو اس قانون پسند برادری کو زیب دیتا ہے نہ ایک ایس ایچ او کے جرم کی سزا سرکاری عمارتوں اور پولیس و انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں کو ملنی چاہیے ۔ جو اپنے پیٹی بھائی کے جرم میں شریک نہیں۔مہذب طبقے کا ردعمل بھی شائستہ اور قانون پسندانہ ہونا چاہیے۔ تاہم اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری ہمارے اس ناکارہ نظام پر عائد ہوتی ہے جس پر جمہوریت کا لیبل لگا کر عوام کو عرصہ دراز سے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ ایک تربیت یافتہ فورس اگر خود ہی معاشرے کے نسبتاً زیادہ قانون پسند‘ سلجھے اور اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ طبقے کو لاٹھی گولی کا سزا وار سمجھنے لگے تو ملک میں قانون کی حکمرانی اور مہذب سیاسی روایات کی پاسداری کا دیرینہ خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔اور اگر وکلاء بھی احتیاط کے تقاضے بھلا دیں تو سوچنا چاہیے کہ اس معاشرے کو کیا ہو گیا ہے۔ ہوش مندی اور قانون پسندی کیوں رخصت ہو گئی؟
ملک میں ریاست کی رٹ عرصہ دراز سے کمزوری کی آخری سطح پر ہے اور قانون کو صرف کمزور ماننے پر مجبور ہیں۔ اگر قانون کے رکھوالے اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ پر مامور ادارے ہی قانون کی مٹی پلید کرنے لگیں اور نشانہ وہ لوگ بنیں جو قانون کے نفاذ میں ریاستی اداروں کے معاون و مددگار سمجھے جاتے ہیں‘ایک قانون کی حکمرانی کا علمبردار اور دوسرا آئین و قانون اور جمہوریت کا زوردار مبلغ تو وہ‘ جنہیں قانون سے سرو کار نہ جمہوریت کی فکر آخر من مانی کیوں نہ کریں اور ان واقعات کو بطور مثال پیش کیوں نہیں کریں گے۔؟
جب کوئی ان واقعات پر روتا پیٹتا اور شور مچاتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور یہ طعنہ ملتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کئے جا رہے ہیں مگر کیا جمہوریت کو چلانے کا یہ طریقہ ہے کہ ملک کو پولیس سٹیٹ بنا دیا جائے اور پولیس کراچی‘ لاہوراور ڈسکہ میں من مانی کرے ۔کوئی پوچھنے والا نہ جزا اور سزا کا کوئی موثر نظام۔ ڈسکہ میں پولیس اہلکاروں کے خلاف نوٹس لینے کی اطلاع موصول ہوئی‘ کراچی میں مگر حکومت کے کسی ترجمان نے باز پرس کی ضرورت محسوس نہیں کی اور یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی کہ نقاب پوشوں کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ نقاب پہنانے والوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ پہلے قاتلوں نے دستانے پہنے ہوتے تھے اب ظالموں نے نقاب پوشی شروع کر دی ہے ۔ کیمرے کی آنکھ اور قانون کے ہاتھوں سے محفوظ رہنے کی یہ ترکیب خوب ہے۔ بہت خوب۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔!