بھارتی وزیردفاع منوہرپاریکر کے اس بیان نے کہ ''عسکریت کے خاتمے کے لیے جنگجوئوں کا استعمال اور ٹارگٹ کلنگ کی جائے گی‘‘ جموں کشمیر میں زبردست تشویش اور فکرمندی کی لہر دوڑا دی ہے۔کہیں یہ تائب جنگجوئوں ، مجرمانہ پس منظر رکھنے والے بندوق برداروں کے ہاتھوں آزادی پسندوں یا دیگر 'ناپسندیدہ افراد‘ کو قتل کرانے کے خطرناک منصوبے کو روبہ عمل لانے کا پیشگی اعلان تو نہیں ہے؟۔ 1994ء میں کشمیر کی سب سے بڑی خبرمحمد یوسف پرے عرف ککہ پرے عرف جمشیدشیرازی کی طرف سے بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کی ایما پر ایک ملیشیا اخوان المسلمون کا قیام تھا۔ جس نے اس خطے میں قتل و غارت گری کی ایسی داستان رقم کی، کہ کلیجہ دہل جاتا ہے۔ 1989ء میں عوامی بغاوت اور عسکریت نے نہ صرف انتظامیہ کو مفلوج کردیا تھا، بلکہ 1989ء سے 1995ء تک کشمیر میں برسرپیکار بھارتی فوج اور خفیہ محکموں کے افسران کا بھی ماننا ہے، کہ ان کے خیال میں کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا، اور بس سفارتی یا فوجی سطح پر کسی ایک دھکے کی دیر تھی۔ کئی محاذوں پر ناکامی کے بعد عسکری تنظیموں کے اندر رسائی حاصل کرکے خفیہ اہلکاروں نے ان کو آپس میں خوب لڑایا۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور حزب المجاہدین اور دیگر تنظیموں کے درمیان غیر ضروری ایشوز یعنی 'آزادی‘ اور 'الحاق پاکستان‘ کے نام پر خون بہایا گیا۔بعد میں اخوان کے روپ میں ایجنسیوں کو ایسا ترپ کا پتہ مل گیا، جس سے حکومت بین الاقوامی ایوانوں میں بھی یہ باور کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی، کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں فوج کے بجائے جنگجو خود ملوث ہیں۔شایدتحریک آزادی یا عسکری جدوجہد کے خدو خال بنانے والوں نے اس نوعیت کی افتاد اور بھارت کے غیر روایتی رد عمل کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، اور نہ اس کی پیش بندی کی تھی۔
غالبا 1996ء یا 1997ء کی بات ہے‘ میں سوپور قصبہ سے سرینگر کی طرف بس میں رواں تھا۔ پروگرام تھا کہ سرینگر میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح جموں اور پھر واپس دہلی آ کر ڈیوٹی جوائن کروں گا۔ تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ بندوق بردار ایک جگہ بسوں کو قطار میں کھڑا کر کے سواریوں
کو نیچے اترنے کا حکم دے رہے تھے۔ معلوم ہو ا کہ یہ اخوان کے ایک کمانڈر، غلام محمد میر عرف ممہ کنہ کا اسکواڈ تھا، جو خود بھی موقع پر موجود تھے۔ایسا لگ رہا تھا، کہ کوئی سرچ آپریشن ہے‘ مگر جب برلب سڑک ہمیں قطار میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا تھا، توایک بندوق بردار جامہ تلاشی کے نام پر سواریوں کے بٹوے اور پرس چھین کر پاس ہی دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر رہا تھا۔ جب کسی نے ان پرسوں سے کچھ روپے واپس کرنے کی ذرا سی بھی درخواست کی، تو اس کو یہ بندوقچی بری طرح جھڑکتے تھے۔سڑک سے متصل سیب کے ایک باغ میں دور مجھے چند وردی پوش فوجی ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ ان جنگجوئوں سے نظریں بچاکر میں ان فوجیوں کر طرف بڑھا، نزدیک پہنچ کر معلوم ہوا، کہ ایک فوجی افسرسیب کے ایک پیڑ کے سائے میں کرسی پر براجمان چائے نوش فرما رہے تھے اور یہ سپاہی ان کی گارڈ پر متعین تھے۔مجھے افسر کی طرف بڑھتے دیکھ کر سپاہی الرٹ ہوگئے۔ میں نے ہینڈزاپ ہوکر افسر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ میں دہلی میں مقیم ایک صحافی ہوں اور سوپور اپنے والدین سے ملنے آیا تھا۔میرا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھنے کے بعد افسر نے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا۔ میں نے درخواست کی، کہ میرے سب پیسے بٹوے میںہیں، اور اب دہلی تک پہنچنے کیلئے زادراہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کچھ پیسے مجھے لوٹا دیے جائیں۔افسر کے ایک سپاہی نے میرے ساتھ جاکر بٹوہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ جب میں سپاہی کی معیت میں دوبارہ سڑک پر پہنچا، تو ممہ کنہ کی سربراہی میں سویلین بندوق برداروں کی خشم آلود نگاہیںمیرا طواف کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے لقمہ بھی دیا، ''دیکھتے ہیں‘ کیسے بچ کے جاتا ہے‘‘۔سپاہی کی معیت میں مجھے ایک شیڈ کے اندر لے جایا گیا۔ جہاں مائونٹ ایورسٹ جتنا بلند بٹووں اور پرسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔یہ شاید ان کا دن بھر کا مالِ غنیمت تھا۔ اس پہاڑ میں مجھے اپنا پرس ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا، جو ظاہر ہے ناممکن تھا۔اسی دوران سپاہی نے ہی ایک بٹوے
پر ہاتھ مارکر اس میں سے کچھ روپے نکال کر میری جیب میں رکھ دیے اور مجھے نو دو گیارہ ہونے کیلئے کہا۔میں نے بس کی طرف دوڑ لگائی‘ مگر یہاں ایک اور کہانی میری منتظر تھی۔ میری جرأت کی تعریف کرنے کے بجائے سبھی سواریاں اور ڈرائیور مجھ پر برس پڑے ، کہ میں نے ان اخوانیوں کی شکایت فوجی افسر سے کیوں کی۔ اب بقول ان کے پوری بس کی سکیورٹی دائو پر لگ گئی ہے۔ آگے ان کے ساتھی، بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے منتظر ہوں گے۔ قصہ مختصر، سبھی سواریوں نے متفقہ فیصلہ صادر کیا کہ میں اب ان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہوں، اس لیے مجھے اپنے ساز و سامان سمیت سری نگر کے نواح سے کافی دور بس سے اتار دیا گیا‘ جہاں ایک دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ٹرک والے نے رحم کھا کر مجھے سرینگر پہنچایا۔ ستم ظریفی ہے کہ 2010ء میں ، بھارت کے ایوان صدر (راشٹرپتی بھون) کے اشوکا ہال کی ایک نشست سے میں اسی کمانڈر ممہ کنہ کو بھارت کے اعلیٰ سویلین اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو پی کر اس واقعہ کو یاد کر رہا تھا۔
ان اخوانیوں یاسرکاری بندوق برداروں کے مظالم کی داستان خاصی طویل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو کام بھارتی فوج یا دیگر سکیورٹی ایجنسیاں نہیں کرپائیں ، انہوں نے خوف و دہشت کی فضا قائم کرکے بھارت کے لیے وہ ہدف حاصل کرلیا۔ برطانوی مصنفین اینڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے اپنی ایک مشترکہ کتاب
The Meadows میں ان کے چند کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق جنوبی کشمیر کے ایک اخوانی کمانڈر عبدالرشید نے ایک دور دراز گوری دمن گائوں میں ایک ماں کی گود سے ایک بچے کو چھین کر اسے یخ بستہ پانی میں ڈبو دیا اور تبھی اس کو واپس نکالا، جب وہ سردی کی شدت سے دم توڑ چکا تھا۔ ماں کا قصور یہ تھا، کہ اس نے کمانڈر کی تحویل میں ایک قیدی کو پانی پلانے کی جسارت کی تھی۔ قیدی کمانڈر کی جیپ سے بندھا ہوا تھا ، اور عبرت کیلئے اس کو پورے علاقے میں گھسیٹا جارہا تھا۔ اسی کتاب میں ایک اور اخوانی فیاض کا ذکر ہے، جس کے ہاتھ 100 لوگوں نے خون سے رنگے ہوئے تھے۔اس نے ایک لڑکی نسیمہ کو اغوا کرکے تب تک عصمت ریزی کی ، جب تک وہ حاملہ نہیں ہوئی۔ بعد میں اس کی نظر نسیمہ کی بہن پر پڑی ۔ بدقسمت والدین ایک لڑکی کے اجڑنے سے خاموش تھے ، مگر دوسری افتاد نے ان کو پولیس سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ پولیس فیاض کا کیا بگاڑ پاتی، خبر ملتے ہی یہ سرکاری جنگجو اپنے لائو لشکرکے ساتھ انتہائی طیش کی حالت میں گائوں کے بیچ مارکیٹ میں آ دھمکا۔ جیپ کے دروازے سے اس نے آٹھ ماہ کی حاملہ نسیمہ کو باہر دھکا دے کر سرعام برہنہ کیا، اور ایک ہجوم کے موجودگی میں اس کے پیٹ میں گولیوں کا ایک برسٹ داغ دیا۔ مصنفین کے بقول گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں فیاض چلا رہا تھا۔ ''ہمیں چیلنج کرنے والوں کا یہی انجام ہوگا‘‘۔ نسیمہ اور دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کا بچہ بھی پیٹ میں ہی دم توڑ گیا۔ مگر اس کی بہن بھی انسانیت سے عاری ان جنگجوئوں کی قید میں چلی گئی اور بعد میں اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل سکا۔
گو کہ کشمیر میں ان گروپوں کی سرگرمیا ں اب ماند پڑ گئی ہیں۔ کچھ عوامی غیظ وغضب کے نتیجے میں اور کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد اکثر نے مسجدوں میں معافیاں مانگ کر واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کی ہے۔ مگر جموں ڈویژن کی مسلم اکثریتی چناب ویلی اور پیر پنچال خطوں میں ابھی بھی یہ کام کررہے ہیں‘ اور ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کے سینکڑوں واقعات رو نما ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں ان گروپوں کو مخصوص ذہنیت والی سیاسی جماعتوں کی بے پناہ پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ اپنے آپ میں قانون ہیں اور ابھی تک اجتماعی یا انفردی طور پر قتل ، فسادات ، اغوا ، عصمت دری ، لوٹ مار ، ہراسانی اور دیگر سنگین جرائم کی درجنوں وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے جرائم سے دانستہ یا نا دانستہ طور پر چشم پوشی کی جاتی رہی ہے۔ صرف ایک ہی طبقہ کے لوگوں کو مسلح کیا گیاجس کے نتائج وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔اس کی بدترین مثال دو سال قبل خطہ چناب کے ضلع کشتواڑ میں دیکھنے کو ملی تھی جب عید کے روز رونما ہوئے بد قسمت سانحہ کے دوران دیہی دفاعی کمیٹی کے ممبران نے نہ صرف فسادات میں بھر پور حصہ لیا بلکہ کی جائی پاڈر میں واحد مسلم گائوں پر ہلہ بول کرحکومت کی طرف سے فراہم کردہ بندوقوںکا بھر پور استعمال کیا تھا۔ ان غیر آئینی مسلح گروپوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بارہا انہیں تحلیل کرنے یا ان کی تشکیل نو کا مطالبہ ہو تا رہا ہے لیکن کچھ سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں جموں سے لے کر دہلی تک ان کے دفاع میںآسما ن سر پر اٹھا کر اسے فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوشش کر تی ہیں حالانکہ اس سے خود ان کمیٹیو ں کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اسی لیے جب پاریکر کا نے اس پالیسی کا کھلے عام اظہارکیا ، تو کشمیر میں تشویش کی لہر دوڑنا لازمی تھا۔ حریت کانفرنس سمیت بھارت نواز جماعتوں نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس پالیسی سے ریاست کی سیاسی غیریقینیت اور عدمِ استحکام کی صورتحال میں اضافے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور یہ پالیسی لاقانونیت کو بڑھاوا تو دے سکتی ہے، البتہ اس کے ذریعے سے کشمیریوں کو اپنی جدوجہد سے دستبردار کیا جاسکتا ہے اور نہ انہیں خاموش رہنے پر آمادہ کیا جانا ممکن ہے۔ لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک نے کہا کہ عرصہ دراز سے بھارتی حکومتوں نے جموں کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے ریاستی تشدد اور دہشت گردی کا سہارالیا ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک بدترین ورق ہے کہ کس طرح جمہوریت کے نام پر یہاں اخوانیوں اور وی ڈی سی نیز ایس ٹی ایف اور آرمی کے ذریعے لوگوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشیدنے کہا کہ پاریکر کا بیان کئی اعتبار سے اہم اور معنی خیز ہے اور اس کے بین السطور کئی سوالوں کا جواب پڑھا جا سکتا ہے۔