تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-05-2015

کارگل آپریشن‘ ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر… (آخری قسط)

یہ اقتباسات، حال ہی میں شائع ہونے والی جنرل عبد المجید ملک کی خودنوشت ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘، سے لیے گئے ہیں ۔
'' میرا معاملہ یہ تھا کہ میں اس وقت کشمیر کے سلسلے میں وزیرِ اعظم کا ایک خط لے کر افریقہ کے مختلف ممالک کے دورے پر تھا اور اس دورے سے واپسی پر تین جولائی کی رات کو لندن پہنچا تھا ۔ اسی اثنا میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری نے اسلام آباد میں میری رہائش گاہ پر ٹیلی فون کر کے میرا پتہ کیا۔ گھر پر موجود میجر طاہر اقبال کو انہوںنے کہا کہ جنرل صاحب اس وقت کہاں ہیں ؟ وزیرِ اعظم ان سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ میجر طاہر اقبال نے کہا کہ وہ شاید اس وقت لندن پہنچے ہوں گے ۔ اس پر ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف خود آپ سے بات کریں گے ۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی میجر طاہر اقبال سے میرے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ آپ جنرل صاحب سے رابطہ کریں اور ان کو بتائیں کہ میں امریکہ کے دورے پر جا رہا ہوں ۔ آپ کل صبح امریکہ پہنچ جائیں ۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے نواز شریف کافون آیا اور انہوں نے 4جولائی کو واشنگٹن جانے کے سلسلے میں مجھے قدرے تفصیل سے بتایا اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ کچھ ہی دیر میں لند ن میں پاکستان کے ہائی کمشنر آپ سے رابطہ کریں گے ۔ میں اس وقت لندن میں اپنے دوست محمد حسین کی رہائش گاہ پر موجود تھا ۔ رات گئے پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ریاض کا ٹیلی فون آیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے امریکہ جانے کا انتظام کردیں ، میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔ ہائی کمشنر نے مجھے یہ بات بتائی کہ لندن
سے امریکہ کو جانے والی اکثر فلائٹس عموماً شام کو چلتی ہیں اور صبح امریکہ پہنچتی ہیں، جو اب نکل چکی ہیں مگر سا تھ ہی انہوںنے یہ بھی بتایا کہ کنکارڈ(Concord)جہاز کی فلائٹ صبح کو امریکہ جاتی ہے ۔ کنکارڈ جہاز کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت کاجدید اور تیز ترین طیارہ تھا ، جس کی شہرت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس پر سیٹ حاصل کرنا مالی لحاظ سے اور دوسرے کئی لحاظ سے ناممکن کی حد تک مشکل خیال کیا جاتا تھا ۔ اس فلائٹ کے ذریعے میں نواز شریف اور ان کے وفد سے ایک گھنٹہ قبل واشنگٹن کے بلئیر ہائوس (Blair House)پہنچ گیا، جہاں ہمارے وفد کو ٹھہرنا تھا۔
کارگل کے معاملے میں امریکی قیادت کی شرکت کے بارے میں بھی نواز شریف اور پرویز مشرف کی متضاد آراء سامنے آتی رہتی ہیں۔ نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ مجھے مشرف نے یہ کہاتھاکہ آپ کلنٹن کو اس معاملے میں شریک کریں مگر مشرف یہ کہتے ہیں کہ کلنٹن سے ملاقات کا فیصلہ نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا اور اس فیصلے میں میری رائے شامل نہ تھی ۔ جب نواز شریف بلئیر ہائوس پہنچے تو میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ نے مشرف کواعتماد میں لیا ہے تو انہوںنے مجھے جواب دیا کہ میں نے نہ صرف ان کا اعتماد حاصل کیا ہے بلکہ وہ مجھے چکلالہ ائیر پورٹ تک الوداع کہنے بھی آئے تھے ۔ مشرف بھی یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں
کہ انہوںنے نواز شریف کو چکلالہ ائیر پورٹ سے امریکہ کے لیے الوداع کیا تھا مگر یہ بات نہیں مانتے کہ انہوں نے نواز شریف کو واشنگٹن جانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اس سے نتیجہ یہ ظاہر ہوتاہے کہ واشنگٹن کے دورے کے سلسلے میں نواز شریف ا ور مشرف دونوں اس فیصلے میں مکمل طور پر شامل تھے۔
اسی دن کچھ دیر بعد بلئیر ہائوس میں کلنٹن کے ساتھ نواز شریف اور ان کے وفد کی ملاقات ہوئی ۔ کلنٹن کے ساتھ بھی ان کے دو سینئر مشیر تھے ۔ یہ تو طے پا گیا کہ پاکستان کارگل کی چوٹیاں چھوڑ دے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس ملاقات سے قبل کلنٹن نے نواز شریف کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ کو یہ چوٹیاں ضرور چھوڑنا پڑیں گی ۔
میٹنگ کے بعد جب پریس ریلیز جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو پاکستانی وفد کی سرتوڑ کوشش تھی کہ اس پریس ریلیز میں میٹنگ کا لبِ لباب بھی آجائے اور پاکستان کا وقار بھی قائم رہے ۔ جب اس پریس ریلیز کو ترتیب دینے میں مشکلات پیدا ہوئیں تو ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد نواز شریف اور کلنٹن کی ون ٹو ون ملاقات ایک علیحدہ کمرے میں ہوئی ۔ کہاجاتاہے کہ نواز شریف نے یہ درخواست کی تھی کہ اس میٹنگ میں کوئی تیسرا آدمی موجود نہ ہو لیکن کلنٹن نے کہامسٹر ریڈل اس میٹنگ میں شامل ہوں گے جو کہ اس میٹنگ کی کارروائی کو تحریر کریں گے ۔
کارگل کے بارے میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک کلاسک آپریشن تھا۔ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے آپریشن اس مقصد کے لیے کیا تھا کہ کشمیر کا معاملہ دوبارہ زندہ ہو جائے اور ہم نے اپنا یہ مقصد یقینی طور پر حاصل کر لیا ۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انہیں کارگل کی چوٹیاں چھوڑنے کو نہ کہتی تو وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے ڈٹے ہوئے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کارگل آپریشن کی و جہ سے کشمیر کا مسئلہ زیادہ اجاگر نہیں ہوا بلکہ اس کو نقصان ہی پہنچا ہے کیونکہ واجپائی کے دورے کے باعث مسئلہ کشمیر کے سلجھائو کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی بلکہ یہ معاملہ مزید الجھائو کا شکار ہو گیا۔ اس معرکے میں جو ان گنت لوگ شہید ہوئے یا زخمی ہوئے، ان کا گھائو اپنی جگہ ہے ۔ کارگل آپریشن سے جو نتائج حاصل ہوئے، ہم کبھی ان کا کوئی واضح جواز پیش نہیں کر سکتے ۔
کارگل جیسے اہم ترین معاملے کی تحقیقات اور چھان بین لازمی تھی مگر ہم نے ہمیشہ کی طرح اپنے روایتی تساہل کا ثبوت دیا؛البتہ ہندوستان اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے ۔ ہندوستانی اس قسم کے واقعات کی انکوائری بھی کرتے ہیں اور اس انکوائری کی رپورٹ کو شائع بھی کرتے ہیں ۔ وہاں ذمہ دار لوگوں کو سزا بھی ملتی ہے ۔ کارگل آپریشن کے اختتام پربھی انہوںنے تحقیقات کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کیا گیا اور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کی گئی ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی بھی معاملے کی کوئی انکوائری نہیں ہوتی ۔
پاکستانی تاریخ کے متعدد واقعات صرف اور صرف یادداشت کا حصہ رہ گئے ہیں ۔ ان سے ہم نے نہ کچھ سبق سیکھا ہے اور نہ کوئی نتیجہ اخذ کیا۔ کئی نامور لوگ قتل ہوئے، کئی ناخوشگوار واقعات ہوئے مگر ان سب میں سے کسی کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی اور کبھی کسی کو جرم ثابت ہونے پر سزا دینے کا تو ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہ سامنے لانے کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا گیا، جس پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی گئی مگر حمود الرحمن کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی اس کو کبھی سامنے نہیں لایا گیا۔ یہاں تک کہ یہ رپورٹ سب سے پہلے پاکستان کی بجائے انڈیا سے شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی ۔ کارگل آپریشن کی کامیابی اور ناکامی کا معاملہ اپنی جگہ پر‘ اس آپریشن سے حکومت اور فوج کے مابین اعتماد کو شدید دھچکا لگا۔ مختصر یہ کہ کارگل Fiascoکی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویز مشرف اور ان کے تین ساتھی جرنیلوں پر عائد ہوتی ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved