خان عبد الغفار خان کے جانشین اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ ان کے باپ دادا پر غدّاری کے الزامات لگا نے والے اب ان کو بھی ہدف بنا کر دیکھ لیں ۔ان کی صحت کو کوئی فرق نہ پڑے گا۔ جہاں تک خان عبد الغفار خان کا تعلق ہے ،ان کا اتحاد کانگریس کے ساتھ تھا ۔پاکستان بن کر رہا اور قائدِ اعظم کے ہاتھوں انہیں شکستِ فاش ہوئی۔کئی دہائیاں گزر یں کہ سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی ۔ ملک میں ایک مقبول طرزِ فکر یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے سوویت یونین کی مزاحمت کا فیصلہ غلط تھا ۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی یونین نے یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک پر براہِ راست یا بالواسطہ یلغار کے ذریعے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کر رکھی تھیں ۔ افغانستان پر حملے کی وجہ بھی یہی تھی ۔ اس دور کا سوویت بلاک کس قدر طاقتور تھا؟ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ معاشی طور پر اس سے کئی گنا کمزور روس جب یوکرین میں مداخلت کرتاہے تو خوفزدہ یورپ سابق سوویت ریاستوں کی یورپی یونین میں شمولیت کا دروازہ بند کر ڈالتاہے ۔ بہرحال اے این پی نے سوویت یونین کی ڈٹ کر حمایت کی ۔ ایک بارپھر اسے منہ کی کھانا پڑی ۔
اب کی بار اسفند یار ولی نے چینی معاشی راہداری منصوبے کو
کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ یہاں میں ان کے مرحوم برادرِ نسبتی اعظم ہوتی کے تاثرات بیان کرنا چاہتا ہوں اور نہ بیگم نسیم ولی کا یہ جملہ ''جو اپنی ماں کا نہ بن سکا ۔۔۔۔۔‘‘ میں اس پر بھی تبصرہ نہیں کروں گا کہ سوشل میڈیا ان کے بارے میں کس رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ چین کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ چاروں صوبوں کو معاشی راہداری منصوبے سے فائدہ ہوگا، اس شدید مخالفت کا پسِ منظر کیا ہے ۔75لاکھ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں روزگار کما تے اور سالانہ پندرہ ارب ڈالر کی ترسیلاتِ کرتے ہیں ۔ سات سمندر پار سے ۔ فرض کیجیے ، معاشی راہداری پختون خوا کی بجائے ہمسایہ صوبے سے گزرتی ہے تو ؟ کیا پولیس، افواج اور دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین ہر صوبے اور ملک کے ہر کونے میں خدمات بجا نہیں لاتے ۔ کیا سرکاری ملازمتوں میں پوسٹنگ اور ٹرانسفر ایک معمول کی بات نہیں ؟یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم کیوں نہیں ہوتی کہ 46ارب ڈالرسے دہشت گردی کے نتیجے میں تباہ شدہ ملک کی تعمیرِ نو کا آغاز ہو۔
او ر تو اور پختون خوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کا اعلان بھی یہی ہے کہ صوبے کے حقوق نہ ملے تو وہ آگ لگا دیں گے ؛ کہنا ان کا یہ بھی ہے کہ راہداری پختون خوا سے نہ گزری تو وہ اس پر عمل درآمد نہ ہونے دیں گے ۔ یہ کون لوگ ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟
تحریکِ انصاف کی اپنی صورتِ حال یہ ہے کہ جسٹس وجیہہ الدین کی ناکام مزاحمت کے بعد کپتان کو پارٹی تنظیمیں تحلیل کرنا پڑیں۔ سابق پارٹی الیکشن فراڈ قرار پائے ۔ یہ ان متنازع معاملات میں سے ایک تھا، جس پر اپنے عزیز دوست ہارون الرشید سمیت کتنے ہی بہی خواہ انہوں نے کھو دیے ، جو ہر گز کسی پارٹی عہدے یا وزارت کے امیدوار نہ تھے ۔پارٹی الیکشن چرانے والوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوگی ؟ جی نہیں ؛حالانکہ کپتان کا کہنا یہ ہے کہ جب تک عام انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کو سزا نہ ملے گی ، اس کا تدارک ممکن نہیں۔ کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں۔ کیا کپتان کی طرف سے جسٹس وجیہہ الدین احمد کی بھرپور مزاحمت نہ کی گئی؟ رہے اکبر بابر تو انہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔
معاشی راہداری منصوبہ میاں محمد نواز شریف کے زرخیز دماغ نہیں ، خالصتاً چینی منصوبہ سازوں کا مرتّب کر دہ ہے ۔ یہ صرف ہزاروں کلومیٹر اور سالانہ اربوں ڈالر بچت کا منصوبہ ہی نہیں ، اس کی ایک سٹریٹجک اہمیت ہے ۔بھارت کے مقابل پاکستان اور چین قدرتی اتحادی ہیں ۔ چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے مشابہت دینا ایک بہت بڑی حماقت ہے ۔ پاکستان ایک مرکزی حکومت اور ایک زبردست تربیت یافتہ فوج، ایٹمی اور میزائل پروگرام کا حامل ہے ۔ ایک دوست کی طرح چین نے ہماری طرف ہاتھ بڑھایا ہے اور مجوّزہ منصوبہ دونوں کے مفادات کی تکمیل کرتاہے۔
حالیہ برسوں میں متنازعہ سمندری حدود پر چین اور اس کے مخالفین (جو کہ تقریباًسب کے سب امریکی اتحادی ہیں ) کی کشمکش میں شدّت آئی ہے ۔پہلی بار چین کا روّیہ جارحانہ ہے ۔ وہ متنازعہ حدود میں مصنوعی جزیرے اور اہم تنصیبات قائم کر رہا ہے ۔ امریکیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی بھی اس پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں زیرِ تعمیر چینی جزیرے پر سے گزرنے والی امریکی پروازکو، جس میں عالمی میڈیا کے نمائندگان سوار تھے، چینی بحریہ کی طرف سے آٹھ مرتبہ وارننگ دی گئی تھی ۔ اپنے تئیں بھارت خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ نہیں کرسکتا۔ اس لیے نہیں کہ چین اور بھارت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ۔
یہی نہیں ، افغانستان میں بھی چین پاکستان کا اتحادی ہے ۔ حال ہی میں سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی میں افغان طالبان اور حکومت کے نمائندوں میں پاکستان اور چین کے تعاون سے بات چیت کا ایک دور ہوا ہے ۔ برسبیلِ تذکرہ افغانستان کا پڑھا لکھا اور فعال طبقہ پاکستان مخالف جذبات سے لبریز ہے۔ آئی ایس آئی اور افغان خفیہ ایجنسی کے درمیان ہونے والے سمجھوتے پر بھی وہاں شدید تنقید ہو رہی ہے ۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے جناب اسفند یار ولی خان اور جناب پرویز خٹک صاحب ذرا کنویں سے باہر جھانکیں ۔ صورتِ حال بہت ہی نازک اور تشویشناک ہے ۔