ریاستوں کے لئے مشکل ترین وقت وہ ہوتا ہے‘ جب ان میں نیچے سے اوپر اور دائیں سے بائیں دراڑیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔پاکستان کے دانشور اور سٹریٹجسٹس اس صورتحال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟ یا دیکھ ہی نہیں رہے ؟میں اس مسئلے پر شدید مخمصے کا شکار ہوں۔ ریاست کو تشکیل دینے والے وہ سب عناصر ‘ جو ایک ترتیب کے ساتھ اپنا اپناکام کرتے ہیں‘ ان میں تو کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی۔ دو بنیادی ادارے‘ جو ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو تشکیل دیتے ہیں‘ ان کی کیفیت انتہائی ناقابل فہم ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے میں ایک مختلف طریقہ کار کے تحت کام کر رہے ہیں اور ملک کے وزیراعظم کے بارے میں کچھ واضح ہی نہیں کہ وہ کسی طریقہ کار پر کاربند ہیں یا ہر نئی صورتحال اور تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ سب سے بڑی مثال دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہے۔اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ فوج دہشت گردی کا سامنا‘ طاقت کی پوزیشن سے کرنا چاہتی تھی۔ جبکہ وزیراعظم انتہائی کمزور پوزیشن سے مذاکرات شروع کر چکے تھے۔ پاکستان خدانخواستہ اتنی کمزور پوزیشن میں نہیں تھا کہ دہشت گرد اپنی شرطوں پر مذاکرات کا مطالبہ کریں اور پاکستان ان شرطوں کو تسلیم کرتے ہوئے‘ مذاکرات میں شریک ہو۔ مگر طالبان کی قیادت نے جواب میں جو کچھ کیا‘ وہ پاکستان جیسے طاقتورملک کا تمسخر اڑانے کے مترادف تھا۔ جب وزیراعظم نے اس خواہش کا اظہار لاہور میں اہل قلم کی ایک محفل میں کیا‘ تو میں نے بڑے ادب سے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ بات وزیراعظم کے گوش گزار کر دی تھی کہ یہ طالبان کا ٹریپ ہو گا۔ ازراہ کرم اس پر دوبارہ سوچئے اور ہو سکے‘ تو باوقار پوزیشن سے مذاکرات کیجئے۔ مگر وہی ہوا‘ جس کا مجھے خدشہ تھا۔ طالبان نے مذاکرات کو یکسر سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپناجو نمائندہ وفد مذاکرات کے لئے منتخب کیا‘ اس میں طالبان کا کوئی کمانڈر شامل نہیں تھا۔ بڑی چالاکی سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں گھسے ہوئے اپنے ہمدردوں کو ہی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنایا اور اصرار کیا کہ پاکستان اسی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرے۔ قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے ‘پروفیسر ابراہیم کو طالبان کا نمائندہ بنایا گیا۔ اسی پوزیشن میں مولانا سمیع الحق وفد کے رکن بنے اوروہ اپنے ہی ایک سیکرٹری کو وفد کی رکنیت دلانے میں کامیاب ہو گئے۔ حکومت نے جس شریف آدمی کو اپنی طرف سے مذاکرات کے لئے بھیجا‘ وہ سیاسی اسرارورموز اور چالاکیوں سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ دونوں طرف کے مندوبین‘ مذاکرات سے زیادہ ٹی وی چینلز پر توجہ فرما رہے تھے۔ اتناضرور دیکھنے میں آیا کہ مذاکراتی ٹیموں کے یہ اراکین‘ اپنے لباس اور بالوں کی تراش خراش پر خاص توجہ دیتے تھے تاکہ رات کو کیمروں کے سامنے اپنی پسند کے پوز بنا کر آ سکیں۔ ان مذاکرات کو فریقین سمیت پاکستانی عوام نے ایک ہی انداز میں دیکھا اور کسی نے سنجیدگی سے ان پر توجہ نہ دی۔ یہ مذاکرات ابھی درمیان ہی میں ڈگمگا
رہے تھے کہ فوج نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے ضرب عضب کا آپریشن شروع کر دیا۔ یہ پہلا اشارہ تھاکہ دو بنیادی ادارے قومی تاریخ کے بدترین بحران کو حل کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیارکر رہے تھے۔
فوج کو اللہ تعالیٰ نے امیدوں و توقعات کے مطابق کامیابی عطا فرمائی۔ جس پر سیاسی قیادت نے خاص گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔دوسری طرف تحریک انصاف کے مقبول لیڈر عمران خان نے دھرنے شروع کر دیئے۔ جس پر سیاسی قیادت نے نیم دلی سے معاملات طے کرنا چاہا۔ لیکن جس طریقے سے پرجوش ہجوم کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی‘ اس سے معاملہ اور بگڑ گیا۔ خصوصاً علامہ طاہرالقادری کے پیروکار زیادہ مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مختلف حساس مقامات پر قبضے شروع کر دیئے۔ جب سیاسی قیادت کو معاملات
ہاتھ سے نکلتے نظر آئے‘ تو اس نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے ذریعے معاملات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ یہاں پر دونوں فریقوں کے بیانات مختلف ہیں۔ فوج کے ترجمان کہہ رہے تھے کہ وزیراعظم نے مذاکرات کے لئے فوج سے مدد مانگی ہے۔ اس پر عمران خان سے خوفزدہ پوری کی پوری سیاسی قیادت جو پارلیمنٹ میں بیٹھی تھی‘اس کو اپنی فکر پڑ گئی کہ مذاکرات کے ساتھ جو بھی سمجھوتہ ہو گا‘ اس میں یا تو دوبارہ انتخابات میں جانا پڑے گا یا عمران خان کے ساتھ پاور شیئرنگ کا کوئی فارمولا نکلے گا۔ لہٰذا راتوں رات بھاگ دوڑ ہوئی اور وزیراعظم نے اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ یہ نکالا کہ اگلے روز پارلیمنٹ میں انہوں نے اعلان کر دیا ‘ یہ پیشکش انہوں نے تو کی ہی نہیں۔ چوہدری نثار علی خاں نے ہمیں تجویز دی تھی کہ آپ چیف آف آرمی سٹاف کے ذریعے مذاکرات شروع کریں۔ جس پر میں نے جواب دیاکہ اگر وہ ایسا چاہتے ہیں‘ تو میں اس کے لئے تیارہوں۔ جب متضاد موقف سامنے آئے‘ تو آئی ایس پی آر نے حقیقت حال واضح کر دی۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم نے یہی موقف اختیار کیااور فوج کے سربراہ جو یقینی طور پر کسی سازش میں ملوث نہیں تھے‘ اپنے پیشہ ورانہ وقار کا احترام کرتے ہوئے سیاسی گندگی سے باہر نکل آئے اور اس کے بعد معاملہ اپوزیشن اور حکمران جماعت پر چھوڑ دیا۔
اچانک ایک پراسرار سازش کا انکشاف کیا گیا اور بوکھلاہٹ میں جو کہانی بھی گھڑی گئی‘ اس میں کوئی پروا نہ کی گئی کہ کس کی ساکھ مجروح ہوتی ہے اور کس کی عزت محفوظ رہے گی؟ سب سے پہلے تو غلط بیانی کا الزام چیف آف آرمی سٹاف پر ہی لگایا گیا۔ انہوں نے اپنے ادارے اور عہدے کے وقار کو سیاسی آلودگی سے بچانے کے لئے اس موضوع پر خاموشی اختیار کر لی۔ خدانخواستہ وہ سیاسی بحث میں الجھ جاتے‘ تو نقصان فوج کاہونا تھا۔ سیاستدان تو ایسے تنازعات میں پڑتے رہتے ہیں اور عوام بھی انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے عیاری سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم کو حوصلہ دیا کہ ''چڑھ جا بچہ سولی‘ رام بھلی کرے گا۔‘‘ وزیراعظم کو یہ تاثر دے کر کہ اپوزیشن نے برے وقت میں ان کا ساتھ دے کر‘ ان کی حکومت کو گرنے سے بچایا ہے‘ اب وزیراعظم سے مسلسل فائدے اٹھائے جا رہے ہیں۔ سندھ کی حکومت وہاں جو من مانیاں کر رہی ہے‘ وزیراعظم نوازشریف اپنے مزاج کے خلاف اسے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم پر کوئی تنقید ہو‘ تو سب سے پہلے تکلیف جناب آصف زرداری کو ہوتی ہے اور وہ فوراً ہی اس کی مدافعت شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں فوجی اور سیاسی قیادت میں ہم خیالی کا فقدان ہے۔ ایسے معاملات کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ یہ معاملات انتہائی حساس نوعیت رکھتے ہیں۔ لیکن مختلف ریاستی ادارے جو چھوٹے چھوٹے معاملات بھی مختلف طریقوں سے حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘ اس سے ریاستی طاقت ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پولیس اور عوام کے درمیان روزبروز نفرت کی دیوار بلند ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پولیس اور عوام کے مابین براہ راست تصادم ہونے لگے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ قانونی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے وکلا بھی اب پولیس کے ساتھ سڑکوں پر لڑنے کو مجبور ہیں۔ ڈسکہ میں ایک پولیس آفیسر نے جس طرح وکیلوں کے ایک منتخب لیڈر کو سڑک پر گولیاں مار کے گرایا اور پھر گرے ہوئے زخمی کے اوپر چڑھ کے اس کے سینے میں براہ راست گولیاں ماریں‘ میں تو یہ واقعہ سن کر لرز گیا ہوں اور سندھ میں عدلیہ اور پولیس کے مابین جو تنازع کھڑا ہو گیا ہے‘ یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ اسی طرح ماڈل ٹائون کے سانحہ پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سوال پر جو تماشہ لگا‘ اس کے بعد حکومت کااعتبار اور وقار دونوں ختم ہو گئے۔ کیونکہ جو پہلی ٹیم بنی تھی‘ اس کی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ خبریں یہ ہیں کہ اس میں گولیوں سے لوگوں کو ہلاک کرنے کا ذمہ دارپولیس اور چند بااثر افراد کو ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک دوسری جے آئی ٹی بنائی گئی۔ جس کی رپورٹ پر کسی کو اعتبار نہیںآ رہا۔سیاسی حکومت ‘ پولیس کو حکم دینے کے بعد نتائج کی ذمہ داریاں قبول نہیں کر رہی۔ عدلیہ کے احکامات پر انتظامیہ عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ امن و امان کی بحالی کے لئے کراچی میں فوج اور سیاسی حکومت میں واضح ہم آہنگی نظر نہیں آ رہی۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اور افغان حکومت میں ہم آہنگی موجود نہیں۔ ہمارے دفاعی اداروں سے کرزئی اور عبداللہ عبداللہ مطمئن نہیں اور ہماری سیاسی حکومت اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز میں وہ قربتیں نہیں‘ جو باہمی اعتماد کی بنیاد بنتی ہیں۔ گستاخی معاف! مجھے یہ ہمہ جہتی دوریاں پریشان کر رہی ہیں۔ کیا داخلی اتحاد‘ ہم آہنگی اور یکجہتی کے بغیر کوئی ریاست مضبوط اور طاقتور رہ سکتی ہے؟