نوشہرہ کے فوجی میس میں بریگیڈئیر عثمان خالد اور اُن کی اہلیہ، نجمہ وحید، نے ایک رنگ برنگی تقریب کا اہتمام کیا۔ اُس تقریب میں تصورخانم نے اپنی سحر انگیز آواز میں ''تو میری زندگی ہے‘‘گاتے ہوئے شرکا ،خاص طور پر آدمیوںکو ، جن میں میرے شوہر بھی شامل تھے، مدہوش کردیا لیکن بوجوہ خواتین کو، جن میں ڈاکٹر کنیز فاطمہ بھی موجود تھیں، وہ گانا پسند نہ آیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کو ذوالفقارعلی بھٹو نے قائد ِ اعظم یونیورسٹی اسلام کا وائس چانسلر مقرر کیا تھا۔ تصور خانم نے اپنی جادوبھری گائیگی کا اختتام''اگر تم مل جائو‘‘پر کیاجبکہ اس دوران ان کی پرکشش نگاہیں بریگیڈئر عثمان خالد پر مرکوز تھیں۔ بریگیڈئیر صاحب سکول آف آرٹلری نوشہرہ کے کمانڈنٹ تھے۔ یہ 1979ء کی بات ہے۔
فوجی افسران کے علاوہ اکوڑہ خٹک کے شہرمیں رہنے والے عام افراد،جیسا کہ ہم، کو بھی اس جوڑے کی طرف سے دی جانے والی ایسی پارٹیوں کے دعوت نامے اکثر موصول ہوجایا کرتے تھے۔ ایک دن ، اور یہ ستمبر 1979ء کی بات ہے، ہمیں پتہ چلا کہ بریگیڈیئر عثمان خالد اپنی بہترین ملازمت کوخیر اباد کہہ کر لندن چلے گئے ہیں۔ان کا اس عہدے کو اس طرح چھوڑدینا ایک خبر بن گیا۔ پھر یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔
آج چھتیس سال بعد بریگیڈئر عثمان خالد ایک مرتبہ پھرپاکستانی اور عالمی پریس کی شہ سرخیوں میں ہے۔ تین افراد پر مشتمل اس تکون میں تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش،اسامہ بن لادن اور بریگیڈئیر عثمان خالد کے ناموں کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ ہرش کے مطابق پاک فوج کے ایک گمنام سینئر افسر نے پچیس ملین ڈالر کی انعامی رقم کے لیے بن لادن کی موجودگی کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔ معلومات فراہم کرنے والے شخص کے لیے کوڈ نام ''Supergrass‘‘ طے پایا تھا اور اُسے انعام کے ساتھ ساتھ امریکی شہریت بھی ملنی تھی۔ اگرچہ ہرش نے عثمان خالدکانام نہیں لیا، لیکن ایک پاکستانی انگریزی روزنامے نے اطلاع دینے والے شخص کا نام عثمان خالد ظاہر کیا تھا۔ یہ کہانی کلورٹا گال بھی نیویاک ٹائمز کے لیے لکھ چکی ہیں۔ اس کے مطابق یہ کہانی مستند سمجھی جانی چاہیے کیونکہ مذکورہ انگریزی معاصر کے پاکستانی صحافی، خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ قریبی روابط رکھتے ہیں۔ 19 مئی 2015ء کو ٹیلی گراف، لندن، نے عالیہ وحید اور فری مین کی کہانی''Revealed‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ اس میں بھی یہی بازگشت تھی کہ بن لادن کی ہلاکت کی کارروائی میں ایک پاکستانی افسر کا تعاون شامل تھا۔
یہ بریگیڈیئر عثمان خالد کون ہے اور انھوں نے فوج کو کیوں چھوڑا تھا؟وہ نوعمری سے ہی پی پی پی کے جیالے تھے۔ اس کی بڑی بہن ڈاکٹر کنیز یوسف کواعزاز حاصل تھا کہ وہ قائدِاعظم یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر مقرر ہوئی تھیں۔ اُنہیں بھٹو نے اپنے دور ِحکومت میں وی سی مقرر کیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران بریگیڈئیر خالد سیالکوٹ کے محاذ پر جموں کے قریب فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ وہ بھی ان فوجی افسران میں شامل تھے جنہیں یقین تھا کہ کشمیر کو فوجی طاقت سے بھارت سے چھینا جاسکتا ہے۔ ایک ویب سائٹ کے مطابق جن فوجی افسران نے 1973ء کا شب خون مارنے کی کوشش کی، اُن میں سے اکثر عثمان خالد کے بہت قریب تھے۔ ان کوبعد میں طویل مدت کی سزائیں سنائی گئیں۔ تاہم عثمان خالد نے اُن کاساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ فوجی شب خون مسائل کا حل نہیں ، چنانچہ اُنھوں نے اپنے اعلیٰ افسران کی غفلت سے دلبرداشتہ ہوکر استعفادے دیا۔ بھٹو کی پھانسی نے بھی اُنہیں سخت صدمہ پہنچایا، چنانچہ اُنھوں نے 1979ء میں فوج کی ملازمت چھوڑدی اور بیرون ِ ملک چلے گئے۔ اس کے بعد وہ 1996ء میں اُس وقت پاکستان واپس آئے جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم تھیں۔ عثمان خالدکو فوج کو بتائے بغیر بیرون ملک دیر تک رہنے کی پاداش میں سات سال قید کی سزاسنائی گئی لیکن یہ سزا سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے معطل کردی۔ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے اُنھوں نے رفاع پارٹی (Rifah Party) قائم کی۔اس پارٹی کے کچھ اعلیٰ و ارفع لیکن غیر حقیقی مقاصد تھے۔ جولائی 2009ء میں وہ کینسر میں مبتلا ہوکر اگلے سال خالق ِحقیقی سے جاملے۔
اب واپس اصل سوال پر آجائیں... وہ کون سے فوجی ذرائع تھے جنہوںنے بریگیڈئیر عثمان خالد کا نام لیا کہ اُنھوں نے امریکیوں کو بن لادن کی اطلاع دی؟کیا ہم کوئی پراسرار کہانی پڑھ رہے ہیں؟مرحوم بریگیڈئیر کے خاندان کے مطابق فوج میں کسی نے عداوت کی بناپر اُن کا نام لگادیا۔ ان کے بیٹے عابد خالدنے ''ٹیلی گراف‘‘ کوبتایا کہ یہ تمام کہانی مضحکہ خیز ہے کیونکہ جس وقت یہ واقعات پیش آرہے تھے، ان کے والد صاحب کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور وہ کسی ہسپتال میں زیر ِعلاج تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ اُن کے والد نے1979ء کے بعد سے امریکہ کا سفر اختیار نہیں کیا، چنانچہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اُنہیں یا ان کے اہل ِخانہ کو امریکی شہریت ملی ہو۔ نہ اُنہیں بن لادن کی موجودگی کا کوئی علم تھا اور نہ ہی وہ امریکی افسران سے رابطے میں تھے۔ چونکہ وہ سیاسی طور پر متحرک تھے اور پھر اُنھوں نے پاکستان کے عسکری اداروں پر کچھ تنقیدی سوالات بھی اٹھائے تھے، اس لیے ان کا نام لے دیا گیا۔ اُن کے خاندان نے اس بات کی بھی تردید کی کہ اُن کے والد نے ڈاکٹر شکیل احمد کوقائل کیا کہ وہ اُس علاقے میں پولیو کی جعلی مہم چلائے تاکہ سی آئی اے کو بن لادن کی موجودگی کا ثبوت ڈی این اے ٹیسٹ کی صورت مل سکے۔ ان معروضات سے یہ بات جانی جاسکتی ہے کہ اخباری رپورٹس اور پھیلنے یا پھیلائی جانے والی باتیں حقیقت کو دھندلا بھی سکتی ہیں۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ کہانیاں پھیلانے کا مقصد کسی اصل کہانی کو چھپانا ہوتا ہے۔ میڈیا کی دنیا میں پھیلے ہوئے یہ تہہ دار قصے بہت سے مقاصد لیے ہوتے ہیں۔ اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کی اعلیٰ خفیہ ایجنسیاں بھی پریس کو اپنے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ بعض اوقات پریس اس بات کو جانتا ہے اور بعض اوقات نادانستگی میں ان کا آلہ کار بن جاتا ہے۔