تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     28-05-2015

مودی سرکار کا ایک سال

وزیر اعظم نریندرمودی کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر بھارتی اور بیرونی میڈیا میں جو تجزیے اور تبصرے شائع/نشرہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی نہ صر ف ان وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جو اس نے گذشتہ سال مئی میں پارلیمانی انتخابات کے موقع پر بھارت کے ایک ارب20کروڑ عوام سے کیے تھے،بلکہ ملک پہلے سے زیادہ تفریق،نفرت اور تشدد کا شکار بن چکا ہے۔نریندرمودی سرکار کی ایک سالہ کارکردگی پر اگر کوئی طبقہ خوش ہے تو وہ صرف بڑے بڑے سرمایہ داروں کا ہے اور وہی عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں ڈال کر باور کروانے کی کوشش کررہا ہے،کہ نریندر مودی کی حکومت کے ایک سال میں ملک نے بے مثال ترقی کی ہے۔اس ضمن میں وہ افراطِ زر اور سالانہ شرح نمود کا ذکر کرتے ہیں ۔ پردھان منتری کی حامی لابی‘ جس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ وزیرخزانہ ارون جیٹلے اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی شامل ہیں‘ کے دعووں کے مطابق مودی حکومت سے پہلے بھارت میں افراط زر کی شرح9فیصد سے زیادہ تھی جو اب گھٹ کر 5فیصد رہ گئی ہے۔اسی طرح کانگرس کے دورِ حکومت میں سالانہ شرح نمو کم ہو کر 5فیصد شرح پر آگئی تھی لیکن آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق رواں مالی سا ل میں اس کی شرح7.5فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کامیابی میں مودی کے جادو کی بجائے حالات کا زیادہ دخل ہے۔کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی وجہ سے ان تمام ملکوں بشمول پاکستان اور بھارت کی معیشتوں کو فائدہ پہنچا ہے‘ جو اپنی صنعتوں کیلئے درآمد شدہ تیل پر انحصار کرتے ہیں۔بھارت اپنی ضروریات کا80فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے بھارت کو اسی حساب سے فائدہ پہنچا۔ لیکن مودی سرکار معیشت کو ملنے والے اس غیر متوقع سہارے کو دنیا کے سامنے اپنی کارکردگی بنا کر پیش کررہی ہے۔
تاہم زمینی حقائق ان دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔بھارت میں خط غربت کے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد‘ معاشرے کے کمزور طبقوں پر مشتمل ہے۔ ان میں کسان، عورتیں، بچے اور مذہبی اقلیتیں شامل ہیں‘ یہ سبھی طبقے اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ مودی سرکار کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود مفلوک الحال کسانوں میں خود کشی کی وارداتیں جاری ہیں اور نریندر مودی کی سرکار نے اس رجحان کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ گزشہ اپریل میں بے موسمی بارشوں ژالہ باری اور طوفانوں کی وجہ سے (مشرقی)پنجاب سمیت پورے شمالی بھارت میں گندم کی کھڑی اور تیار فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ پورا علاقہ چھوٹی ملکیت والے خود کاشت کسانوں پر مشتمل ہے۔ بعض کسانوں کی پورے سال کی محنت قدرتی آفات کی نذر ہوگئی؛ چنانچہ ان میں سے بعض نے خود کشی کرکے موت کو زندگی پر ترجیح دی۔لیکن نریندرمودی کی سرکار کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس وجہ سے شمالی بھارت میں‘ جسے بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، پارٹی کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔بعض مقامات پر عوام نے احتجاجی ریلیاں بھی نکالیں اور اپنے علاقوں میں بی جے پی کو دفاتر بند کرنے پر مجبور کر دیا۔اگرچہ بھارت کے سیاستدانوں میں مقبولیت کے لحاظ سے‘ مودی اب بھی سب سے آگے ہیں لیکن مبصرین کے مطابق اس ریٹنگ کی سطح بتدریج نیچے آرہی ہے۔اس کی متعدد وجوہ ہیں لیکن دو سب سے نمایاں ہیں‘ ایک یہ کہ نریندرمودی نے اپنے گزشتہ ایک سالہ دورِ حکومت میں ملک کو درپیش اندرونی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے غیر ملکی دوروں پر زیادہ دھیان دیا ہے۔
وزارتِ عظمی سنبھالنے کے بعد سے اب تک مودی نے 19ملکوں کا دورہ کیا ہے اور بنگلہ دیش کا عنقریب دورہ کرنے کے بعد ان ملکوں کی تعداد20ہوجائے گی۔جن ملکوں کا وزیراعظم مودی دورہ کر چکے ہیں ان میں ہمسایہ ممالک بھوٹان،نیپال اور سری لنکا کے علاوہ چین، جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور جرمنی بھی شامل ہیں۔انہیں پاکستان اور افغانستان کا دورہ کرنے کی بھی دعوت مل چکی ہے۔ گزشتہ برس کے دوران میں مودی خود بھارت سے باہر دودرجن کے قریب ممالک کی یاترا پر ہی نہیں گئے بلکہ انہوں نے اہم عالمی رہنمائوں مثلاً چین کے صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر بارک اوباما کو بھی اپنے ہاں بلایا تھا۔افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی ان کی دعوت پر بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ان دوروں کا مقصد بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر کے ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے۔ اس میں مودی کو کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔دورئہ چین کے اختتام پر بھارت اور چین کے درمیان وسیع تجارتی اور معاشی تعاون پر مبنی جن اعلانات کا ذکر کیا گیا ہے،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر اوباما کے دورہ کے موقعہ پر امریکہ اور بھارت نے باہمی تعاون اور شراکت کیلئے جن لاتعداد شعبوں کی نشان دہی کی انہیں نریندر مودی کی کامیابیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی سرکار نے بیرون ملک رہنے والے بھارت نژاد باشندوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور قومی ترقی کے عمل میں بھر پور حصہ لینے پر کافی حد تک آمادہ کر لیا ہے۔
لیکن خارجہ تعلقات کے محاذ پر کامیابی کی چکا چوند اندرونی مسائل کے حل میں ناکامی سے ماند پڑ سکتی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں مودی سرکار کے ساتھ یہی ہوا ہے۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سرکار نعروں اور دعووں میں بہت آگے لیکن عمل کے میدان میں بہت پیچھے ہے۔ بھارت میں مشہور ہے کہ صرف مودی جی ہر طرف نظر آتے ہیں،حکومت کا کہیں وجود نہیں اور اس کے ثبوت میں وہ دن بدن بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال خصوصاََ مائو پرست اور نکسل باڑی باغیوں کی روزافزوں سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے اپوزیشن پارٹی اور سابق حکمران جماعت کانگرس نے مودی کی حکومت کو ''ون مین شو‘‘ کا نام دیا ہے۔
لیکن سب سے زیادہ جامع اور ٹھوس نکتہ چینی بائیں بازو،لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ان حلقوں کے مطابق ایک سال گزر جانے کے بعد مودی سرکار کے ساتھ اگر کوئی کھڑا ہے تو وہ صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور ہندوتوا کے انتہا پسند ہندو ہیں۔ورنہ پرافل بدوائی کے مطابق ملک میں معاشی ناہمواری پہلے سے زیادہ ہے اور لوگوں میں سیاسی تقسیم Polarization میں اضافہ ہوا ہے۔پچھلے ایک سال میں مودی سرکار نے سیکولرزم کی بنیاد کو ملیا میٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔''گھر واپسی‘‘کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم شروع کی گئی۔بی جے پی کے عہد میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔بھگوت گیتا کو سکولوں میں لازمی قرار دیا گیا اور سب سے بڑھ کر مہاتما گاندھی کے قاتل گاڈ سے کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مئی 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی کو اگرچہ لوک سبھا کی 52فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی،لیکن اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا تناسب کل ووٹوں کا صرف31فیصد تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بھارت کے عوام کی بھاری اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتی۔
اس کے باوجود گزشتہ ایک برس میں مودی سرکار نے یک طرفہ طور پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جس کا واحد مقصد بڑے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا اور انتہا پسند ہندو ازم Hindutvaکو پروموٹ کرنا ہے۔صرف ایک سال کے عرصہ میں مودی سرکار نے بھارت کی سیاست اور سماج میں اتنی دراڑیں پیدا کر دی ہیں کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے مایوس ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے ضمنی اور ریاستی انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی غیر متوقع ناکامی اور بنگال میں بلدیاتی انتخابات میں ممتا بینر جی کی پارٹی ''ٹیرینا مول کانگرس‘‘ کی کامیابی اس امر کی دلیل ہے کہ نریندرمودی کی حکومت کی بعض شعبوں میں پالیسیوں کو عوام کی پذیرائی حاصل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved