تقریباً ہر پس ماندہ معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ تبدیلی کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ باتیں وہ اِس خدشے کے ساتھ کرتے ہیں کہ اگر کہیں اِس ''فن‘‘ میں پیچھے رہ گئے تو کیا کریں گے! گویا ؎
''کروں گا کیا جو نہ باتیں بگھار پایا میں؟‘‘
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!
انقلاب برپا کرنے کا زمانہ تو اب رہا نہیں کیونکہ اِس میں خون خرابہ بہت ہوتا ہے! اب تو سب کچھ جوڑ توڑ کے ہنر کے کاندھوں پر سوار ہوکر کیا جاتا ہے۔ انقلاب کو بالائے طاق رکھ کر ذرا محفوظ آپشن کے طور پر تبدیلی کا نعرہ لگایا جاتا ہے تاکہ بہت کچھ داؤ پر بھی نہ لگے اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی راہ بھی کھلی رہے۔ یعنی رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔ یہی اکیسویں صدی کا ''انقلاب‘‘ ہے۔ جیسے انسان ویسا انقلاب!
اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ بادشاہت برائے نام رہ گئی ہے تو پھر انقلاب کے نام پر تختہ کس کا الٹا جائے۔ جن ملکوں میں بادشاہت ہے وہاں عوام کا معیارِ زندگی بہر حال کسی نہ کسی حد تک قابل رشک ہے۔ ایسے میں جمہوریت کا راگ الاپنے یا انقلاب کے گیت گانے والے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہم حیران ہیں کہ اِتنا بہت کچھ تو بدل چکا ہے، پھر لوگ کس تبدیلی کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ اب اِس سے بڑھ کر ''تبدیلی‘‘ کیا ہوگی کہ ہر طرف انسان ہیں مگر انسانیت بھاپ کی صورت فضاء میں تحلیل ہوچکی ہے! جب بھی کسی نے تبدیلی برپا کرنے کا دعویٰ کیا ہے، عجیب ہی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اب تبدیلی کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی مرضی کے حالات پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے، کرلیا جائے اور اس معاملے سے احساس یا ضمیر کو ذرا دور رکھا جائے! بقول فیاض علی فیاضؔ ؎
اُدھر کتابوں میں درج تاریخ ہنس رہی ہے
اِدھر وہ دامن سے خُوں کے دھبّے مٹا رہے ہیں!
تبدیلی کے ذکر پر ہمارا قلم بھی بہکتا ہوا کتابوں تاریخ، دامن اور خون کے دھبّوں تک جاپہنچا۔ ہم تو یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ انسان ہر معاملے میں تبدیلی چاہتا ہے مگر تبدیل ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ محبت کی عظمت سے کون انکار کرے گا؟ مگر اِس معاملے میں ہر شخص کا معیار ایک ہی ہے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس سے محبت کی جائے تاکہ وہ بھی جواب میں محبت کرے۔ یعنی لوگ محبت بھی ''ردعمل‘‘ کے طور پر کرنا چاہتے ہیں! یہی بنیادی مسئلہ اور مخمصہ ہے۔ دوسروں کے تبدیل ہونے کا انتظار رہتا ہے۔ یعنی سب یہ دیکھنے کو بے تاب رہتے ہیں کہ تالاب میں پہلا پتھر کون پھینکتا ہے! یہ سوچنے کی زحمت کوئی بھی گوارا نہیں کرتا کہ تبدیلی آتی نہیں، لائی جاتی ہے!
زمانہ پتا نہیں کیسی کروٹ لے بیٹھا ہے کہ دلوں سے محبت اور آنکھوں سے مروّت ہی نُچڑ گئی ہے، دم توڑ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھماکر ساری محبت کو نفرت میں بدل دیا ہو! ابھی کل تک بہت کچھ تھا جو زندہ تھا، آج محض مر ہی نہیں گیا بلکہ گل سڑ بھی چکا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ہم جن محلوں یا گلیوں میں رہتے تھے وہاں آباد بیشتر افراد گھر اور خاندان کے افراد کی طرح ہوا کرتے تھے۔ ہر دکھ اور سکھ سبھی آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ فیس بک پر ہر براعظم سے دوچار دوست ضرور بنا رکھے ہیں مگر پڑوسی کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ کس حال میں ہے! حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ پڑوسی اور اس کے بچوں کے نام تک نہیں جانتے!
یہ ہے انسانی ماحول کی حالت۔ انسانوں کے درمیان محبت کم ہونے لگی تو جانوروں نے سوچا کہ ہم ہی کچھ ایسا کر گزریں کہ محبت اور مروّت کی کچھ لاج رہ جائے۔ اکیسویں صدی کے جانور بھی انسانوں کو حیرت اور شرمندگی سے دوچار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
برطانیہ سے آنے والی ایک خبر نے ہمیں چونکا دیا۔ کسی گھر میں چار پانچ ماہ کا بچہ سویا ہوا تھا۔ قریب ہی گھر میں پلی ہوئی بلی بھی بیٹھی تھی۔ بچے کی نیند اچانک ٹوٹ گئی اور اس نے رونا شروع کردیا۔ قریب کوئی اور نہ تھا۔ جب بلی نے دیکھا کہ بچہ چپ ہونے کا اور گھر کا کوئی فرد بچے کے قریب آنے کا نام نہیں رہا تو وہ آگے بڑھی اور پنجے سے بچے کے پھول سے رخسار پر تھپکی دینا شروع کیا۔ تھپکی ملی تو بچے کو سکون آگیا اور وہ ذرا سی دیر میں دوبارہ سوگیا۔
انسانوں کے درمیان رہنے والے جانور انسانوں کی بہت سی عادات سیکھ لیتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ اللہ نے جانوروں کو اِتنی عقل ضرور دی ہے اپنی اصلاح بھی یقینی بنائیں اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی گنجائش بھی پیدا کریں۔ برطانیہ کی اِس پالتو بلی نے اچانک بیدار ہوکر رونے والے شیر خوار کو تھپک کر سُلادیا اور پتا نہیں کتنے ہی دلوں میں جگہ بنالی کیونکہ انٹرنیٹ پر یہ منظر لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ دلوں میں جگہ بنانے کی خواہش یقیناً بلی کے ذہن میں نہ ہوگی۔ یہ تو خالص انسانی ''کمال‘‘ ہے کہ کوئی بھلائی کیجیے تو اس طور کہ ایک راستہ شہرت کی طرف بھی جاتا ہو!
انسانوں کے درمیان اب محبت برائے نام رہ گئی ہے۔ ایسے میں اگر انسانوں کے درمیان پلنے والے کسی جانور میں ''انسانیت‘‘ پائی جائے تو حیران نہ ہونا حیران کن ہوگا! ایک بلی نے ہمیں سکھایا ہے کہ بچوں سے پیار کرنا کسی بھی جاندار کے لیے فطری امر ہونا چاہیے۔ افسوس کہ ہم انسان یہ بنیادی سبق بھول گئے ہیں۔ محبت ایسا وصف ہے کہ بے زبان جانور بھی اب تک نہیں بھولے اور اِس وصف کے مطابق طرز عمل اختیار کرنے میں وہ کسی مفاد کو مداخلت کی زحمت نہیں دیتے۔
کتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ دو تین دن کچھ کھلائیے تو آپ کا چہرہ اُن کی آنکھوں اور ذہنوں پر مرتسم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ آپ کو دیکھتے ہی دُم ہلانے لگتے ہیں۔ یہ تو انسان ہی ہے کہ ایک زمانے تک کھلاتے پلاتے رہیے اور کسی دن خاطر مدارات سے انکار کیجیے تو پچھلا کھایا پیا بالکل بھول جاتا ہے اور آپ کو یُوں دیکھتا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ ہو!
ہم تبدیلی تو بہت چاہتے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے کے خواہش مند نہیں۔ اگر ہم چاہت اور اپنائیت کا ہنر ایک بار پھر اپنالیں تو ایسا بہت کچھ دوبارہ پاسکتے ہیں جسے ہم محض کھو ہی نہیں چکے، بھول بھی گئے ہیں۔ گھر یا محلے کی چوکیداری پر مامور کتے نظر ملتے ہی دم ہلاکر جس اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ویسی بے لوث اپنائیت ہمیں پھر اپنے مزاج اور عمل کا حصہ بنانی ہے۔
اکیسویں صدی کی بلی کو اب تک یاد ہے کہ بچہ رو رہا ہو تو نرمی سے تھپکیاں دے کر سُلا دینا چاہیے۔ مگر افسوس کہ اکیسویں صدی کا انسان اپنے آپ میں اور اپنی نام نہاد ''مصروفیات‘‘ میں ایسا کھوگیا ہے کہ اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ زندگی کا ایک انتہائی حسین و پُرکشش یومیہ تجربہ بچوں سے التفات کا اظہار بھی ہے۔ بڑی بات ہے اگر آج کا انسان اِس ایک معاملے میں حیوانات ہی کی تقلید کرلے!
کسی کے درد یا تکلیف کو محسوس کرنا اور اُسے دور کرنے کی طرف مائل ہونا بنیادی انسانی وصف ہے جو ہم بھول گئے ہیں یا پھر شاید ہم نے اِس وصف کو De-activate کردیا ہے۔ جیسے کچھ لوگ کھڑکی بند کرکے خود کو ماحول سے الگ کرلیتے ہیں تاکہ آنکھوں میں بسنے والا منظر ذہن و دل کو پریشان نہ کرے۔
کسی سے کوئی بھی ہنر سیکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ بہت سے خُوں خوار جانور بھی اپنی فطرت بھول کر بے سہارا انسانی بچے کو پالتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر آج کا انسان یہ ہنر بھول گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔ پھر سے سیکھنے میں کیا ہرج ہے؟ اچھا ہے کہ کسی کا درد محسوس کرنے والا وصف Activate کرلیا جائے۔ اکیسویں صدی کے انسان کی سرشت کے اندھیرے کا غرور توڑنے والے دو چار اوصاف تو چراغوں کی طرح ضَو فشاں ہونے ہی چاہئیں۔